بھارتی ریاست آسام کی بی جے پی حکومت نے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے ریاست کے ایسے 614 مدرسوں کو اسکول میں بدلنے کا فیصلہ کیا ہے جو سرکاری امداد سے چل رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو یہ مدرسے بند ہو جائیں گے کیونکہ نصاب اور نظام دونوں چیزیں بدل جائیں گی۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ عمل آئندہ کچھ مہینوں میں پورا ہو جائے گا۔
میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق ریاستی حکومت نے 101 سنسکرت اداروں کو بھی اسکول میں بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آسام کے وزیر مالیات اور وزیر تعلیم ہیمنت بسوا شرما نے بدھ کے روز سرکاری امداد والے مدارس اور سنسکرت اداروں کو ہائی اسکول یا ہایئر سیکنڈری اسکول میں بدلنے سے متعلق حکومتی فیصلے کی جانکاری دی۔
انھوں نے بتایا کہ ’’بی جے پی کی قیادت والی حکومت عام لوگوں کے پیسے کو ’مذہبی تعلیم‘ پر خرچ نہیں کرنا چاہتی اور یہ پالیسی پر مبنی فیصلہ ہے۔‘‘
خبر رساں ادارہ ’اے این آئی‘ کے ایک ٹوئٹ کے مطابق ہیمنت بسوا شرما کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے سبھی مدرسوں اور سنسکرت اسکولوں کو ہائی اسکولوں اور ہائیر سیکنڈری اسکولوں میں بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ مذہبی اداروں کو فنڈ مہیا کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘ حالانکہ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’غیر سرکاری اداروں اور سماجی تنظیموں کے ذریعہ چل رہے مدرسے پہلے کے مطابق ہی چلتے رہیں گے، لیکن ایک ریگولیٹری ڈھانچہ کے مطابق اس کا نظام چلایا جانا چاہیے۔‘‘
HB Sarma, Assam Minister: We have decided to convert all Madrasas and Sanskrit tols(schools) to high schools and higher secondary schools, as the state can't fund religious institutions. However, Madrasas run by NGOs/Social orgs will continue but within a regulatory framework pic.twitter.com/c3DKQzEMfu
— ANI (@ANI) February 13, 2020
انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق آسام کے وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ ’’عربی اور مذہبی تعلیم دینا حکومت کا کام نہیں ہے۔ یہ ایک جمہوری ملک ہے۔ مذہبی تعلیم کے لیے حکومت پیسے نہیں دے سکتی۔ اگر ریاستی امداد والے مدرسوں میں مذہبی باتیں پڑھانے کی اجازت دی جاتی ہے تو گیتا یا بائبل پڑھانے کے لیے بھی سرکاری پیسے دئیے جانے چاہئیں۔‘‘ ہیمنت بسوا شرما مزید کہتے ہیں کہ ’’حکومت ہر سال تین سے چار کروڑ روپے مدرسہ اور تقریباً ایک کروڑ روپے سنسکرت اداروں پر خرچ کرتی ہے، جو بہت زیادہ ہے۔‘‘
اس پورے عمل سے مدرسہ سے جڑے اساتذہ بے روزگار ہو جائیں گے، اور اس سلسلے میں سوال کیے جانے پر ہیمنت بسوا شرما کہتے ہیں کہ ’’ان مدرسوں کے اساتذہ کہیں دوسری جگہ روزگار پانے کی فکر کیے بغیر گھر پر رہ سکتے ہیں۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے دن تک حکومت ان کی تنخواہ کی ادائیگی کرے گی۔‘‘
سنسکرت اداروں کو امداد روکے جانے سے متعلق فیصلہ پر ہیمنت بسوا شرما کہتے ہیں کہ ’’ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ مذہبی بنیاد پر مدرسے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’نجی اداروں کے ذریعہ چل رہے مدرسے اور سنسکرت ادارے پہلے کی ہی طرح چلتے رہیں گے، لیکن اس کے لیے ریگولیٹری کا خیال رکھنا ہوگا۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ آسام میں تقریباً ایک ہزار مدارس جمعیۃ علماء کے ماتحت چل رہے ہیں۔ جمعیۃ علماء کے لیگل سیل کنوینر مسعود اختر زمان کا اس پورے معاملے پر کہنا ہے کہ ’’ریاستی امداد یافتہ مدرسوں کو بند کرنے سے نجی مدرسہ تعلیمی نظام پر کسی طرح کا اثر نہیں پڑے گا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہمارے مدرسے ایک روپے کے لیے بھی حکومت پر منحصر نہیں ہیں۔ ہمارے تقریباً سبھی طلبا بی پی ایل خاندانوں سے ہیں اور ہم ان کے رہنے، کھانے اور کپڑوں کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
حکایت :مولوی لطف علی۔۔۔||رفعت عباس
حکایت: رِگ ویدوں باہر۔۔۔||رفعت عباس