ممکن ہے آپ کے ساتھ کئی بار ایسا ہوا ہو کہ کسی کتاب میلے ، ادبی کانفرنس سے کتابیں خریدی ہوں مگر انہیں پڑھنے کا وقت نہ ملا ہو۔ یہ کتابیں بغیر چھوئے پڑی ہوں اور آپ کہیں اور سے مزید کتابیں اٹھا لائیں۔ یہ کتابوں کا ڈھیر جسے پڑھنے کا وقت نہیں مل رہا، سوہان روح بن جاتا ہے۔
گھرکی چھوٹی بڑی لائبریری یا بیڈروم کے شیلف میں رکھی یہ کتابیں حسرت سے دیکھتے ہیں۔یہ افسوس بھی ہوتا ہے کہ سینکڑوں، ہزاروں روپے خرچ ہوگئے، مگر کتابیں پڑھ ہی نہیں سکا۔امکان ہے کہ پیسوں والی بات آپ بھول جائیں، مگر گھر کی خواتین ایسا کبھی نہیں ہونے دیتیں۔شادی سے پہلے والدہ، بہنیں اور شادی کے بعد یہ نیک فریضہ بیگم صاحبہ بڑے ذوق شوق سے ادا کرتی ہیں۔
ہمارے بیشتر دوستوں کو یہ شکوہ ہے کہ ان کی بیویاںان کی پسندیدہ کتابوں اور رسائل کو قطعی پسند نہیں کرتی۔ہر خاتون خانہ کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ مستثنیات موجود ہیں، ایسی خواتین جن کا ذوق مطالعہ گھر کے مردوں سے زیادہ ہے۔
نہ پڑھنے جانے والی کتابوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آدمی نئی کتابیں خریدنا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ سوچ کر کہ جب تک پچھلی کتابیں نہیں پڑھ لینی، تب تک کسی کتاب میلے میں نہیں جانا۔ کتاب خریدنے کی ہمت کر لی تب بھی دل میں شدید ندامت کے جذبات ملتے ہیں۔ چوروں کی طرح چھپ چھپا کر کتابیں گھر لے جاتے ہیں۔
ایسے تمام لوگوں کو نوید ہو کہ وہ شرمانا، گھبرانا چھوڑ دیں، اگر لائبریری میں کچھ کتابیں ایسی ہیں جو نہیں پڑھی گئیں تب بھی ان پر آنکھیں نیچا کرنے اور شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ علم وادب کی دنیا میں ایک نئی لہر ایسی آئی ہے جس نے ان قدیم تصورات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک نیا نقطہ نظر سامنے آیا ہے ، جس کی رو سے اپنی ذاتی لائبریری میں وہی کتابیں ہونی چاہئیں جو آپ نے ابھی نہیں پڑھیں۔ اس تصور کو اینٹی لائبریری(Antilibrary) کہا جاتا ہے۔
ممتاز عرب نژاد امریکی سکالرنکولس نسیم طالب نے یہ دلچسپ اصطلاح وضع کی۔ نسیم طالب پنجابی محاورے کے مطابق خاصی وکھری ٹائپ کے سکالر ہیں۔ ان کی کتاب بلیک سوان نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
نسیم طالب کے افکار اور آرا کو مغربی دنیا میں غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے کہ وہ آﺅٹ آف باکس سوچنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ نسیم طالب کہتے ہیں کہ آپ کی لائبریری میں نہ پڑھے جانے والی کتابیں آپ کو یہ احساس دلاتی ہیں کہ آپ بہت کچھ نہیں جانتے، اس سے آپ میں تجسس پیدا ہوتا ہے۔ انہیں نہ پڑھنے کا گلٹ آپ کے ساتھ رہتا ہے جو آخرکار علم حاصل کرنے کا وسیلہ بنتا ہے۔
کسی کی ذاتی لائبریری میں ہزاروں کتابیںہوں تو وہاں جانے والے لوگ حیرت سے دیکھ کر یہ سوچتے ہیں کہ شائد اس نے یہ سب پڑھ رکھا ہے۔ یہ ضروری نہیں۔ اس سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص یہ سب کچھ پڑھنا چاہ
رہا ہے۔بنیادی اصول یہ ہے کہ جتنا آپ پڑھتے اور جانتے ہیں ، اتنا ہی آپ کی بک شیلف میں نہ پڑھنے جانے والی کتابوں کی تعداد بڑھے گی۔ یہ ہمیں مزید پڑھنے، مزید جاننے کے لئے اکساتا ہے۔ کبھی خیال نہیں آتا کہ ہم نے بہت کچھ پڑھ لیا۔
نسیم طالب کے اس اینٹی لائبریری تصور کو کتاب میلہ میں کئی دوستوں سے شیئر کیا۔ ہر ایک نے حیرت اور دلچسپی سے سنا اور کہا کہ یہ سننے کے بعد ہمارے سوچنے کا انداز ہی بدل گیا ہے۔لاہور کے کتاب میلہ کی کچھ تفصیل پچھلے کالم میں شیئر کی۔بہت سی خوشگوار باتیں دیکھنے کو ملیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد کتابیں خریدنے آئی۔
اتوار کو خاص طور پر اتنے زیادہ لوگ تھے کہ داخلہ کے طویل قطاریں بنانا پڑیں۔ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً آدھا آدھا گھنٹہ ہال میں داخلہ کے لئے انتظارکرنا پڑا۔ ایکسپو سنٹر لاہور کی بڑی وسیع وعریض پارکنگ ہے، اس دن گاڑی ٹھیرانے کے لئے جگہ ہی نہ ملی، اچھے خاصے فاصلے پر پارک کر کے پیدل ہال تک آنا پڑا۔ کتابوں پر ڈسکاﺅنٹ اچھا تھا۔ بیشتر سٹالز پر پچاس فیصد ڈسکاﺅنٹ تھا۔ انتظامات مجموعی طورپر ٹھیک تھے، فوڈ پوائنٹ بھی مناسب رہا، واش روم بھی صاف ستھرے تھے، ہا ل نمبر دو میں ایک اے ٹی ایم مشین ہے، مجھے حیرت ہوئی جب معلوم ہوا کہ وہ فنکشنل ہے اور لوگ پیسے ختم ہونے پر وہاں سے نکلوا رہے تھے۔
دو تین حوالوں سے البتہ بہتری کی گنجائش محسوس ہوئی۔ میرے خیال میں کتاب میلہ کی تشہیر زیادہ بہتر نہیں ہوئی، اسے بڑھانا چاہیے۔میلہ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حکومت اور شہر کے اداروں پی ایچ اے وغیرہ نے کوئی تعاون نہیں کیا۔ لاہور کے اتنے بڑے کتاب ایونٹ کے لئے کوئی اہم سرکاری شخصیت دستیاب ہی نہیںہوئی۔
وزیراعظم کا تعلق لاہور سے ہے، وہ کتابیں پڑھتے بھی ہیں، انہیں اس کا افتتاح کرنا چاہیے تھا۔ اگر نہیںکر پائے تب بھی پانچ دنوں میں ایک بار چند منٹ کے لئے چکر ضرور لگا تے ۔ گورنر ، وزیراعلیٰ پنجاب کے ہوتے ہوئے ڈی جی لائبریریز اور چیئرمین پیمرا کوکتاب میلہ کا افتتاح کرنا پڑے تو یہ افسوس کی بات ہے۔پانچ دنوں کے ایونٹ میں شائد ہی کسی وزیرمشیر نے کتاب میلہ کا چکر لگایا ہو۔ کتاب میلہ کرانے والی انتظامیہ کے اپنے مسائل اور شکوے تھے۔
معلوم ہوا کہ ایکسپو کے ہال انہیں خاصے مہنگے پڑتے ہیں۔ بڑی آسانی سے سٹال کے کرایے کو نصف کیا جا سکتا ہے۔ خاص کر جو ادارے پچھلے پانچ برسوں سے سٹال لگا رہے ہیں، انہیں تو خصوصی رعایت ملنی چاہیے ۔ کراچی سے آئے بعض دوست ملے، ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے کتاب میلہ میں لاہور کی نسبت خاصے زیادہ لوگ آتے ہیں۔
لاہور میں بھی اگر ایونٹ کی مناسب تشہیر کی جاتی تو تعدادمزید بڑھ جاتی۔ انتظامیہ کو بھی فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ ویسے اگر افتتا ح کے لئے کسی سرکاری ادارے کے سربراہ کو بلانے کے بجائے مستنصر حسین تارڑیا امجد اسلام امجد جیسے کسی سینئر ادیب، شاعر کو بلا نا زیادہ موزوں رہتا۔ کتاب میلہ کا شیڈول جمعرات سے پیر تک ہوتا ہے۔
پہلا دن رش کم رہتا ہے، اس دن اگر حکومتی حلقے اور انتظامیہ مل جل کر ایک دو انٹرایکٹو سیشن رکھ لےں تو نوجوانوں کو متوجہ کیا جا سکتا ہے۔تارڑ صاحب جیسے کسی شخص سے شرکت کی درخواست کی جاتی، دیگر علمی، ادبی شخصیات بھی موجود ہیں۔ لاہور آرٹ کونسل، پیلاک وغیرہ کو ایسے مواقع پر کتاب میلہ کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔
کچھ شکوہ ہماری اپنی برادری سے بھی ہے، ع خوگر حمد سے ذرا گلہ بھی سن لے ۔اردو اخبارات کے کالم نگاروں کی تعداد کئی درجن ہے۔سوڈیڑھ سو سے کم کیا ہوں گے ۔ یہ بڑے اخبارات کی بات کی، ورنہ تو کئی سو تک تعداد جا پہنچے گی۔
ان میں سے بیشتر لوگ لاہور میں مقیم ہیں۔ ایکسپو سنٹر جیسی نمایاں جگہ پر سالانہ کتاب میلہ ہو، ایک سال میں ہونے والی شہر کی سب سے بڑی کتابوں کی تقریب۔ کتنے لوگوں نے اس پر لکھا؟ اپنے قارئین کو وہاں جانے کی ترغیب دی اور خود بھی خریداری کے لئے گئے؟
یہ تعداد ہاتھ کی انگلیوں پر تو کیا شائد ایک انگلی میں ہی پوری آجائے۔ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ ٹی وی چینلز پر درجنوں ٹاک شوز آتے ہیں، متعدد معروف اینکرز ہیں، خلق خدا انہیں دانشور کہتی اور مانتی ہے۔ ان کی دانش کا سکہ چہار دانگ عالم میں مانا جا چکا ہے۔ان میں سے کتنے لوگ کتاب میلہ میں جاتے اور کتابیں خریدتے ہیں؟ کتنے ایسے ہیں جو دوسروں کو اس کی ترغیب دیتے ہیں اور کون سا ایسا خوش نصیب ہے جس نے اس حوالے سے اپنا ٹاک شو کیا ہو؟چلیں گھنٹے بھر کے شو میں پانچ منٹ ہی وقف کئے ہوں؟
چند ایک قابل احترام مستثنیات ضرور موجود ہیں۔ ان میںچند ایک میرے بہت ہی قابل احترام بزرگ قلمکار بھی شامل ہیں۔ایسے جو کسی کتاب کا سنیں تو فوری پیسے خرچ کر کے اسے منگوالیتے ہیں، کوئی کتاب پسند آجائے تو اس پر لکھ ڈالتے ہیں۔ایسا مگر دوسروں کو بھی کرنا چاہیے۔
افسوس کہ میڈیا کابہت بڑا حصہ کتاب کو فروغ دینے، پھیلانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔معاشرے میں علم وادب کا فقدان ہو گیا تو سب سے زیادہ نقصان میڈیا کا ہوگا ۔ صرف پرنٹ نہیں بلکہ الیکٹرانک میڈیا کی روح بھی دم توڑ جائے گی۔
تب کتاب لکھنے اور پڑھنے والوں کے بجائے بھانڈ راج کریں گے۔خیر یہ تو مایوسی والا پہلو ہے، دل خوش کن یہ امر ہے کہ ان تمام کمزوریوں کے بجائے آج بھی کتاب بے تہاشا فروخت ہو رہی ہے۔مطالعہ کے شائق دوسرے شہروں سے سفر کر کے کتاب لینے آ رہے ہیں۔ صاحبو کتابیں خریدتے رہو،اپنی لائبریری کے شیلف بھرتے جاﺅ۔ایک دن آپ یہ سب پڑھ لیں گے، پھر ان شیلفوں میں بہت سی ایسی کتابیں آ جائیں گی جو نہیں پڑھی گئیں۔ نہ پڑھی جانے والی کتابوں کے شیلف آپ کی ذہنی اور فکری بلوغت کی علامت ہیں۔ ان پر ندامت کی ضرورت نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ