ہم بھی عجب لوگ ہیں پلٹ کر پیچھے کی جانب چل پڑتے ہیں، اُلٹے پیر آگے کی تگ و دو میں گھٹنوں کے بل گر پڑتے ہیں، سنبھلتے ہیں محض دو قدم چلنے کے لیے اور گر پڑتے ہیں پھر سنبھلنے کے لیے۔
وہ کون سی زنجیریں ہیں جو آزاد پیروں میں گھنگرو بن کر چھنک رہی ہیں۔ وہ کون سا سفر ہے جس کی منزل قریب آئے تو جھٹلا دیں دور جائے تو مسافتیں گنیں۔
کیا کبھی سوچا کہ ہم نے خود کے ساتھ کیا کیا ہے؟ آسیب زدہ، ویران دروازوں سے لپٹی بوسیدگی ہمارا مقدر کیوں ہے۔ بھوک مٹانے کے لیے خود کتنا مٹیں گے، تن ڈھانپنے کے لیے کتنی کپاس ناپیں گے اور سر ڈھانپنے کے لیے کتنے سائبان گرائیں گے؟
کب تک یہ تماشا ہو گا کہ ایک سرکار بنائیں پھر اُس کو گرائیں، پھر اُس سے جان چھڑائیں اور اگلی کی تیاری کریں۔
پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور نواز لیگ، پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ آرا رہی۔ جب دونوں نے غلطیوں سے سیکھ لیا تو اڑھائی قسم کی تبدیلی لائی گئی اور پھر چاؤ سے لائی گئی اس تبدیلی کو بھی بھر پور اختیار نہیں دیا گیا۔
اسمبلیوں کو گھومتے اعداد کے ہاتھوں بےبس رکھا گیا تاکہ آئندہ کے لیے کسی اور کا ڈر رکھا جا سکے اور یوں یہ تماشا چلتا رہے۔
یہ جانے بنا کہ تبدیلی کے نام پر تخلیق شدہ حکومت کارکردگی بھی دکھا پائے گی یا نہیں توقعات کا ایک انبار اُن کے کاندھوں پر لاد دیا گیا اور بھگتنے کے لیے وہی عوام جو ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر تبدیلی کے ُسہانے سپنوں کے سوداگر ٹھہرے۔
مولانا فضل الرحمن ایک یقین دہانی پر دھرنا لے کر آئے اور دوسری یقین دہانی لیے واپس لوٹ گئے۔ مولانا کو یقین دہانی کس نے کرائی اور کس کی مُراد بر آئی اس پر سے پردہ صرف مولانا ہی اٹھا سکتے ہیں یا چوہدری برادران۔
ق لیگ کس کے کہنے پر حکومت سے روٹھی اور پھر دوبارہ جا ملی۔۔۔اس میں البتہ کوئی راز کی بات نہیں۔ بہرحال یہ سیاست ہے۔ رابطے تو شہباز شریف سے بھی ہیں اور نواز شریف سے بھی، زرداری صاحب بھی آن بورڈ تو بلاول صاحب بھی۔۔۔کوئی حرج نہیں۔
لیکن صاحبان عقل یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ اب کی بار ڈیل آدھی نہیں پوری ہو گی۔ ویسے بھی اس گرتی معیشت اور معاشی بدحالی میں بقول شاہد خاقان عباسی جنازے کو کندھا دینا باقی ہے، کیا پیپلز پارٹی اور ن لیگ اس پوزیشن میں ہوں گے؟ دو سو ارب روپے کے مزید ٹیکس اور منی بجٹ کی خبریں، آئی ایم ایف کے مطالبات کی طویل فہرست آنے والی کسی سرکار کو کیسے چلنے دے گی؟
عجب صورت حال ہے کہ حکومت چلی تو معیشت نہیں چلے گی اور معیشت نہ چلی تو ریاست۔ اب یہ فیصلہ کون کرے کہ حکومت چلانی ہے یا ریاست۔
لگتا ہے کھیل سجانے والے بازی وہاں لے آئے ہیں جہاں خود کھیل ان کے ہاتھ نہیں رہا۔ اور کھیل پہلی بار مہروں کے ہاتھ آ ہی گیا ہے تو سوچ سمجھ کر چال چلنا ہو گی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کے گُرو یہ سمجھتے ہیں کہ فی الحال اقتدار سے دور رہ کر تماشا دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ کیا اب کی بار تماشا دیکھنے کی باری اُن کی ہے؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ