نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

11فروری 2020: جموں اینڈ کشمیر کی خبریں

جموں اینڈ کشمیر سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں تبصرے اور تجزیے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر: غیر ملکی سفیروں کا دورہ، روس کا انکار

دہلی،

گذشتہ ماہ یوروپی یونین کی پارلیمنٹ میں زیر بحث آنے والی مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق قرارداد پر رائے دہی سے قبل 25 غیر ملکی سفیروں کا ایک وفد اس ہفتے کے آخر میں جموں و کشمیر کا دورہ کرے گا۔

بھارت کی مرکزی حکومت کی جانب سے دعوت نامہ موصول ہونے کے باوجود روسی سفیر مقبوضہ جموں و کشمیر کا دورہ نہیں کریں گے۔

مرکزی حکومت کے مطابق دہلی میں مقیم غیر ملکی سفیروں کے ایک اور وفد کو اس ہفتے کے آخر میں جموں و کشمیر روانہ کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر کی تقسیم کے بعد یہ تیسرا غیر ملکی اور یورپی یونین کا دوسرا پارلیمنٹ کا وفد ہے جو کشمیر کا دورہ کرے گا۔

غیر ملکی سفیروں کے اس وفد میں امریکہ، جنوبی کوریا، ویتنام، بنگلہ دیش، مالدیپ، مراکش، فجی، ناروے، فلپائن، ارجنٹینا، پیرو، نائجیریا، ٹوگو اور گیانا کے افراد شامل تھے۔

گذشتہ ماہ بھارت میں امریکی سفیر سمیت سفیروں کا پہلا وفد جموں و کشمیر کا دورہ کیا تھا۔


مقبول بٹ کی 36 ویں برسی پر مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال

سرینگر،

مقبوضہ کشمیر میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ کی 36 ویں برسی کے موقع پر مکمل ہڑتال کی گئی۔ مقبول بٹ کو 11 فروری 1984 کو تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔اوروہیں دفن کیا گیا تھا۔

وادی کے تمام ضلعی اور تحصیل ہیڈکوارٹرز میں دکانیں و تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمد ورفت معطل رہی۔اس دوران سکیورٹی وجوہات کی بنا پر وادی بھر میں ریل سروس معطل رہی۔
مقبول بٹ کی برسی کے موقع پر احتیاطی اقدام کے طور پر منگل کے روز حکام نے کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ سروس کوعلی الصبح معطل کر دیا ۔

اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں سینکڑوں پوسٹرز چسپاں کیے گئے تھے جن میں لوگوں سے اپیل کی گئی کہ وہ مقبول بھٹ کی برسی کے دن بھارت کے خلاف ہڑتال کریں۔  تحریک آزادی جموں و کشمیر، تحریک نوجوانان حریت اورتحریک وارثان شہدائے جموں و کشمیرکی طرف سے یہ پوسٹر سری نگر، بڈگام، گاندربل، بارہ مولا، بانڈی پورہ،پلوامہ،شوپیاں اور دیگر اضلاع کی عام شاہراہوں اور گلیوں سمیت تمام اہم مقامات پر چسپاں کیے گئے ۔

حکام نے بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلئے سیکورٹی کے نام پر سخت پابندیاں نافذ کردیں۔ تمام اہم مقامات پربھارتی فوج ، پولیس اور پیراملٹری فورسز کے اہلکاروںکی بڑی تعداد تعینات کی گئی۔ بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے کیلئے تمام بڑی سڑکوںپرخار دار تاریں اور رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں ۔

دریں اثنا وادی میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروسز جو جنوری ، 2020 کے آخری ہفتے میں بحال ہوئیں، صرف چند سرکاری دفاتر میں کام کر رہی ہیں۔بھارتی اتھارٹی نے سرکاری ویب سائٹوں کے لئے براڈبینڈ پر عائد پابندی ختم کردی ہے۔

وادی کشمیر ، جموں کے علاقے اور کارگل ضلع میں براڈ بینڈ اور جی فور انٹرنیٹ سروسزعوام کے لئے معطل ہیں۔ وادی کشمیر میں جی ٹو پر ایس ایم ایس سروسز کو بحال کیا گیا ہے۔

کشمیر اور جموں کے علاقوں میں میڈیا پر پابندیاں ہیں، کوئی بھی اخبار بھارتی ریاستی دہشت گردی ، تشدد ، انسانی حقوق کی پامالیوں اور آزادی کے حامی بیانات کی کوئی خبر شائع نہیں کرسکتا۔

وادی کشمیر میں اخبارات براڈبینڈکی بندش کی وجہ سے آن لائن کام کرنے سے قاصر ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں کام کرنے والی شہری اتھارٹی نہیں ہے۔اورتمام ہندوستانی افواج ،لیفٹیننٹ گورنر اور ہندوستانی وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں۔

علاوہ ازیں جموں اور کشمیر پولیس اب ہندوستانی وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں۔ ہر جگہ لوگوں کی سی سی ٹی وی سے نگرانی کی جارہی ہے۔ عوامی اجتماعات پر پابندی ہے۔حریت رہنما ، این سی ، پی ڈی پی پارٹیوں کے اعلی رہنما زیر حراست ہیں۔ ان کے کارکنوں پر پابندی ہے اور یہاں تک کہ سیاسی بیانات پر بھی پابندی ہے ۔وہ میڈیا سے خطاب یا میڈیا سے وابستہ افراد سے ملاقات نہیں کرسکتے۔

مقبوضہ کشمیر میں اتوار کوکشمیری رہنما محمد افضل گورو کے ساتویں یوم شہادت پر مکمل ہڑتال کی گئی ۔ہڑتال کی کال پر دکانیں اور کاروباری ادارے بند رہے۔
پولیس نے سرینگر کے کوٹھی باغ میں علیحدگی پسند جماعت جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنماوں پر مقدمہ بھی درج کیا ۔

حریت پسند رہنما یاسین ملک کی قیادت میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پر بھارتی حکومت نے گزشتہ برس فروری کے مہینے میں پابندی عائد کی تھی اور اس تنظیم کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

جے کے ایل ایف کی جانب سے ہڑتال کے بیان کو رپورٹ کرنے پر کشمیر پولیس نے گزشتہ شب کشمیر کے دو صحافیوں کو پوچھ گچھ کیلئے سرینگر کے کارگو تھانے میں بلایا تھا۔


مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی ضرورت:والدہ محمد مقبول بٹ شہید

سرینگر،

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ کی والدہ نے کہاہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے بھارت کو پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔

محمد مقبول بٹ کو 11 فروری 1984 کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی اور وہیں دفن کیا گیا تھا۔محمد مقبول بٹ کی والدہ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان کو آپس میں بات کرنی چاہیے۔

کشمیر میں آئے روز حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں کے نوجوان ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ مسئلہ حل ہوتا تو مزید جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
معمول کی طرح رواں برس بھی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے علاوہ میر واعظ محمد عمر فاروق کی قیادت میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے 9 فروری کو محمد افضل گرو

اور 11 فروری کو جے کے ایل ایف کے بانی محمد مقبول بٹ کی برسی پر ہڑتال کی اپیل کی تھی ۔ دونوں تنظیموں نے میڈیا کو بھیجے گئے بیانات میں ہڑتال کی کال دی تھی۔
محمد افضل گرو کو 2001 کے پارلیمنٹ حملہ کیس میں مجرم قرار دے کر 9 فروری 2013 کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی۔

وادی کشمیر میں اتوار کو محمد افضل گرو کی ساتویں برسی کے موقع پر مکمل ہڑتال رہی جس کی وجہ سے معمولات زندگی معطل رہی۔لبریشن فرنٹ پر گزشتہ برس مرکزی حکومت نے پابندی عائد کر دی ہے۔


مقبوضہ کشمیر :کشتواڑ میں ایک نوجوان کو گرفتار
پلوامہ اور بانڈی پورہ میں سرچ آپریشن

سرینگر،

مقبوضہ کشمیر میں ، بھارتی پولیس نے ضلع کشتواڑ کے ایک نوجوان کو گرفتار کرلیا۔رستم علی کو ضلع کے علاقے ڈول ناگسینی میں چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
ایس ایس پی کشتواڑ ہرمیت سنگھ نے میڈیا کو بتایا کہ ہم نے رستم علی کو گرفتار کیا ہے اور اسے این آئی اے کے حوالے کیا جائے گا۔تاہم انہوں نے اس وقت اور اس علاقے کے بارے میں تفصیل سے نہیں بتایا جہاں سے انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔

دریں اثنا ، پولیس نے سہیل لون ، صہیب منظور اور ظہور احمد خان نامی تین افراد کو میڈیا کے سامنے پیش کیا جنھیں جموں حملے کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ادھر جموں و کشمیر کے شمالی ضلع بانڈی پورہ میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے تلاشی مہم جاری ہے۔

فوج، مقامی پولیس اور سی آر پی ایف کی جانب سے بانڈی پورہ کے تین علاقوں میں منگل کی صبح تلاشی کارروائی شروع کی گئی۔ ان علاقوں میں ایس کے بالا، سدنارا اور بنیاری حاجن شامل ہیں۔

فوجی ذرائع کے مطابق عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع موصول ہونے کے بعد سکیورٹی فورسز نے ان علاقوں کو محاصرے میں لے لیا اور تلاشی کارروائی شروع کردی۔ علاقوں کے تمام راستوں کو سیل کر دیا گیا اور گھر گھر تلاشی مہم شروع کی گئی۔

عالمی خبر رساں ادارے ساوتھ ایشین وائر کے مطابق 50آر آر ، ایس او جی اور پیرا ملٹری فورسز نے مشترکہ طورپر پیر کو شام دیر گئے پلوامہ کے باگی باغ سانبورہ گاں کو محاصرے میں لے کر آپریشن شروع کیا۔

مقامی ذرائع کے مطابق فوج ، پولیس اور پیرا ملٹری فورسز نے ایک وسیع علاقے کو سیل کرکے لوگوں کی آمدو رفت پر پابندی عائدکردی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ملنے کے بعد فورسز نے سرچ آپریشن شروع کیا۔

دفاعی ذرائع کے مطابق پلوامہ کے اکہال دربگام گاوں میں بھی پیر کے روز تلاشی لی گئی تاہم اس دوران کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ۔


انگلینڈ کے مشرقی شہر پیٹربرگ کے کونسلرزکی کشمیر پر لابنگ

پیٹربرگ ،

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں انگلینڈ کے مشرقی شہر پیٹربرگ کے کونسلرز،پیٹربرگ کے دونوں ممبران پارلیمنٹ پال برسٹو اور شیلیش ورا کو خط لکھ کر ویسٹ منسٹر میں ان کی ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پیٹربرگ میں 20000کے قریب کشمیری افراد ہیں جو کہ آبادی کا تقریبا دسواں حصہ ہیں۔
پیٹرربرگ کی کشمیری برادری کے بہت سے افراد اپنے اہل خانہ یا دوستوں کے ساتھ کشمیر میں کسی بھی قسم کا رابطہ کرنے سے قاصر ہیں۔

کونسلر امجد اقبال ،جو خود بھی کشمیری ہیں ، نے گذشتہ ہفتے فل کونسل میں ایک تحریک شروع کی، جس میں ویسٹ منسٹر میں کشمیر کی صورتحال پر تشویش سے آگاہ کرنے کے لئے شہر کے دونوں ممبران پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ۔

امجد اقبال نے ساوتھ ایشین وائر کو بتایا کہ پچھلے سال ہندوستانی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کا دن پیٹر برگ میں کشمیری برادری کے لئے ایک سیاہ دن تھا۔


ریڈیو پاکستان کے زیر اہتمام ہندوتوا پالیسی،کشمیر میں خونریزی اور پاکستانی میڈیا کے عنوان سے تربیتی ورکشاپ

اسلام آباد ،

پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (پی بی سی)کے زیراہتمام صحافیوں بالخصوص ریاستی میڈیا کے لئے مودی کی ہندوتوا پالیسی،کشمیر میں خونریزی اور پاکستانی میڈیا کے عنوان سے 4روزہ تربیتی ورکشاپ شروع ہو گئی ہے۔

تربیتی ورکشاپ کا مقصد ہندتوا ڈیزائن اور مودی کی پالیسیوں کے خلاف حکومتی بیانئے کو فروغ دینا ہے۔ تربیتی ورکشاپ میں ان موضوعات پر ماہرین لیکچرز دے رہے ہیں۔
منگل کو تربیتی ورکشاپ کے افتتاحی سیشن میں کشمیر میڈیا سروس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شیخ تجمل الاسلام نے شرکا کوہندواتوافلسفہ کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ

ہندواتو کا تصور ہندومذہب سے بالکل مختلف ہے، پہلے ہندوثقافت مسلط تھی اور اب ہندواتو کو ہندو عقائد کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے ۔ ہندواتو نظریہ فاشزم سے منسلک ہے اور یہ ہندو ثقافت کے تسلط کی پرزور حمایت کرتا ہے ،اس نظریہ کے مطابق مسلمان ہندوستان کا حصہ نہیں تھے بلکہ بیرونی عناصر ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ ہندواتو صرف موجودہ ہندوستان تک ہی نہیں بلکہ خطے پر بھی اثرات مرتب کررہا ہے، ہندو انتہا پسند تنظمیں بالخصوص راشٹریہ سویم سوک سنگھ(آر ایس ایس)اس تصور کی پیروی کر رہے ہیں ،اسی نظریہ پر کاربند رہنے کے لئے 32 تھینک ٹینک کام رہے ہیں۔

انہوں نے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستانی صحافیوں اور دیگر صحافتی اداروں کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا جس سے علاقائی سلامتی کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہے ۔

پاکستان براڈ کاسٹنگ اکیڈمی کے پرنسپل محمد طارق چوہدری نے اپنے خطاب میں کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ صحافیوں کو تنازعات سے متعلق امور کی تربیت فراہم کی جائے اور ان کو ایسے مشکل حالات سے نمٹنے کے لئے علم اور صلاحیت سے آراستہ کیا جائے ۔

اس وقت ہندوستانی میڈیا کے زریعے شروع ہونے والی مہمات صرف پراپیگنڈے پر مبنی ہیں ، اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی میڈیا بھارتی جھوٹ کو بے نقاب کرنے اور اس کے پراپیگنڈے کو حقیقت کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔

پی بی سی کے سابق کنٹرولر نیوز محمد ریاض الدین نے صحافیوں کو مختلف خبروں اور اصطلاحات کے بارے میں آگاہ کیا اور ان کی راہنمائی کی کہ خبروں کی وضاحت اور اداریوں میں موزوں اور بہترین الفاظ کا انتخاب کیا جائے ۔ اس تربیتی ورکشاپ میں خبروں کا مسودہ تیار کرنے، بندوستانی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال ، بین الاقوامی اور بھارتی میڈیا کوریج کے جواب میں مسودہ کی تیار کرنے کی تربیت دی جارہی ہے۔


ادارہ فروغ قومی زبان کے زیر اہتمام کشمیر اور ذرائع ابلاغ کے موضوع پر تقریب کا انعقاد
تحریک کشمیر کے حوالہ سے میڈیا حکمت عملی کو نئے تقاضوں کے تحت ترتیب دینا چاہئے:ممتاز صحافی جاوید صدیق

اسلام آباد ،

ممتاز صحافی، کالم نگار اور ادیب جاوید صدیق نے کہا ہے کہ ہمیں تحریک آزادی کشمیر کے حوالہ سے میڈیا حکمت عملی کو نئے تقاضوں کے تحت ترتیب دینا چاہئے۔ ہمارے اخبارات، ریڈیو، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا اور سفارتخانوں کو کشمیریوں کی آواز مغربی دنیا تک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ فروغ قومی زبان کے زیر اہتمام یکجہتی کشمیر کے حوالہ سے منعقدہ تقریبات کے سلسلہ میں کشمیر اور ذرائع ابلاغ کے موضوع پر کلیدی خطاب میں کیا۔
تعارفی کلمات ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر راشد حمید نے ادا کئے۔ تقریب میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی شعبہ ابلاغ عامہ کی استاد ڈاکٹر نائلہ رفیق نے بھی اظہار خیال کیا۔

تقریب کی نظامت سید سردار احمد پیرزادہ نے کی۔ ڈاکٹر راشد حمید نے کہا کہ مسئلہ کشمیر تاریخ کے سب سے نازک موڑ پر ہے۔ جاوید صدیق نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بہت پیچیدہ مسئلہ ہے، اس حوالہ سے پاکستان بھارت سے کئی جنگیں لڑ چکا ہے۔

جاوید صدیق نے کہا کہ مغربی میڈیا تک 6 ماہ سے گھروں میں قید کشمیریوں نے بے پناہ ظلم اور جبر کے باوجود سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آواز بلندکی۔ بھارت کے مقابلے میں ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا ہو گا۔

ڈاکٹر نائلہ رفیق نے کہا کہ 6 ماہ سے گھروں میں قید کشمیری بھارتی ناجائز قبضہ کے خلاف بہادری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے نئی نسل کو مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھانے کیلئے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔


مقبوضہ کشمیر: نیشنل کانفرنس کے رہنما ہلال لون پی ایس اے کے تحت حراست میں

سرینگر،

مقبوضہ جموں و کشمیر انتظامیہ نے پیر کو نیشنل کانفرنس کے رہنما ہلال لون پرپبلک سیفٹی ایکٹ عائد کر دیا ۔پچھلے سال 5 اگست سے لون کو حراست میں رکھا گیا تھا جب اس وقت کی ریاست کی خصوصی حیثیت کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا ، اور اسے جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کیا گیا تھا۔

ہلال لون سے قبل سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر بھی پی ایس اے عائد کیا گیا۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق لون کے والد محمد اکبر لون لوک سبھا میں بارہمولہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ہلال لون کے بارے میں حکومتی ڈوزئیر میں کہا گیا ہے کہ

وہ نیشنل کانفرنس کے ایم ایل اے کے ایک امکانی امیدوار ہونے کے ناطے عوامی امن کے لئے ایک ممکنہ خطرہ ہیں

کیونکہ وہ اس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں جس کے منشورمیں ہند کے آئین کے آرٹیکل 370 ، 35 اے کو منسوخ کرنے کے خلاف احتجاج شامل ہے۔
اس ڈوزئیر میںسابقہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد محمد اکبر لون کے مبینہ ریمارکس کا بھی ذکر کیاگیا۔

سابق وزیر اعلی اور نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ پر پی ایس اے کے تحت 17 ستمبر کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ دسمبر میں اس میں تین ماہ کی توسیع کی گئی تھی۔
گزشتہ ایک ہفتے میں کئی سرکردہ سیاسی رہنماوں پر پی ایس اے عائد کیا گیا ہے

جن میں سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی اور عمر عبدللہ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر اور پی ڈی پی کے سینئر رہنما سرتاج مدنی پر بھی پی ایس اے عائد کیا گیا ہے۔

پی ایس اے 1978 میں شیخ عبدللہ کے دور اقتدار میں وجود میں آیا اور اس کا بنیادی مقصد جموں و کشمیر سے لکڑی کی اسمگلنگ کو روکنا تھا لیکن بعد میں اس ایکٹ میں ترمیم کر اس میں عام لوگوں کو بھی شامل کرلیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو بِنا ٹرائیل کے دو سال کے عرصے تک جیل میں قید رکھا جاسکتا ہے۔


جموں: دو درجن کارکنان بی جے پی میں شامل

سرینگر،

جموں خطے میں سرینگر اور بنیہال علاقوں سے تعلق رکھنے والی خاتون پنچ سمیت دو درجن کارکنوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔
جموں وکشمیر کے بی جے پی صدر رویندر رینا نے پارٹی میں شامل ہونے والے کاکنان کا خیرمقدم کیا، جنہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ

پارٹی دونوں خطوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر مرکزی علاقے میں اگلی حکومت تشکیل دے گی۔ رویندر رینا نے پارٹی ہیڈ کوارٹر میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ بی جے پی عوام کی نمائندگی کرنے والی واحد حقیقی جماعت ہے۔ بی جے پی کا گراف بڑھتا جارہا ہے اور اس نے جموں، کشمیر اور لداخ میں بھی تقویت حاصل کی ہے۔

کشمیری عوام پارٹی میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی ایک جمہوری و قوم پرست پارٹی ہے جو سب کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں اور تمام طبقات کے افراد کو پارٹی میں شامل کرنے کوشاں ہے۔رینا نے کہا کہ ‘ بی جے پی، جموں و کشمیر میں طاقتور موقف اختیار کرچکی ہے اور کشمیر کو جنت سے بھی بہتر بنانا ہمارا مقصد ہے۔پنچ رضوانہ میر جو پہلے کانگریس سے وابستہ تھیں نے کہا کہ بی جے پی کی خدمت کرنے کا موقع فراہم کرنے پر وہ اعلیٰ قیادت کی شکر گذار ہیں۔


کشمیر یوتھ پاور تنظیم کا سرینگر میں احتجاج

سرینگر،

نوجوانوں کی تنظیم کشمیر یوتھ پاور نے جے پور میں ہلاک کیے گئے کپوارہ کے نوجوان کے قتل کے خلاف سرینگر کی پریس کالونی میں زبردست احتجاج کیا۔

سرینگر کی پریس کالونی میں کشمیر یوتھ پاور نامی تنظیم نے کپواڑہ کے باسط احمد خان نامی نوحوان کے جے پور، راجھستان میں ہلاک کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا ۔

کشمیر یوتھ پاور تنظیم نے سرینگر کی پریس کالونی میں احتجاج کیااس دوران مظاہرین کے ہاتھوں میں پلے کارڈز موجود تھے جن پر مقتول باسط احمد کی تصویر موجود تھی

جبکہ مظاہرین باسط کے قاتل کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کررہے تھے اور ان کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کی بھی اپیل کررہے تھے۔

اس دوران مظاہرین میں شامل امتیاز احمد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کی مکمل جانچ ہونی چاہیے اور اصلی قاتل کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔


مقبوضہ جموں و کشمیر: حکومت کی اسکیم میں بس مالکان کی عدم دلچسپی

سرینگر،

گزشتہ برس نومبر میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں ٹرانسپورٹرز کیلئے ‘ٹرانسپورٹ سبسڈی اسکیم’ کا آغاز کیا تھا جس سے حکومت ٹرانسپورٹ نظام سدھارنا چاہتی ہے۔
حکومت کا کہنا تھا کہ اس اسکیم سے بس مالکان جدید ترین گاڑیاں خرید سکتے ہیں

جس سے جموں و کشمیر کے ماحول، مسافروں کو آسائش اور مالکان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ حکومت نے اس اسکیم کے تحت نئی بس خریدنے والے مالکان کیلئے پانچ لاکھ کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن کشمیر میں بس مالکان اور ڈرائیور سرکار کی اس اسکیم میں دلچسپی نہیں دکھا رہے۔

مختلف وجوہات اور خدشات کا اظہار کرتے ہوئے بس مالکان کا کہنا ہے کہ ‘اس اسکیم سے ان کو زیادہ فائدہ نہیں ملنے والا ہے۔’تاہم چار مہینوں میں اسکیم کی کامیابی اس حقیقت سے عیاں ہو رہی ہے کہ آج تک کشمیر سے محض 40 افرادنے اس اسکیم کیلئے درخواستیں جمع کی ہیں جس میں 14 درخواستیں منظور ہوئی ہیں۔

بس ڈرائیورز کا کہنا ہے کہ ان کو اس اسکیم میں خاصی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ پانچ لاکھ سبسڈی سے وہ نئی گاڑی نہیں خرید سکتے ہیں۔
وادی میں بڑی گاڑیوں (بسوں)کی تعداد 700 کے قریب ہے لیکن حکومت نے اسکیم کے مطابق 250 بسوں کے خریدنے کی منظوری دی ہے۔

وہیں کشمیر میں منی بس چلانے والے افراد کا کہنا ہے کہ یہ اسکیم ان کیلئے لاگو نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ نازاص دکھائی دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں 1500 منی بس گاڑیاں چل رہی ہیں لیکن حکومت نے ان کو فراموش کیا ہے۔


امت شاہ تک کرنٹ پہنچ گیا: امانت اللہ خان

دہلی،

بھارت کے دار الحکومت دہلی کے اوکھلا حلقہ سے عام آدمی پارٹی کے امیدوار امانت اللہ خان نے اپنی جیت کو عوام کی جیت قرار دیا ہے۔
دہلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہورہی ہے۔دہلی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی نے شاہین باغ کے موضوع کو کافی بڑھاچڑھا کر پیش کیا تھا

جبکہ بی جے پی کی کیمپین آخر تک شاہین باغ کے ارد گرد پر ٹکی رہی۔ شاہین باغ، اوکھلا حلقہ اسمبلی میں آتا ہے اور یہاں سے امانت اللہ خان نے جیت حاصل کی ہے۔

جیت کے بعد امانت اللہ خان نے کہا کہ عوام نے جس بھروسہ سے انہیں ووٹ دیا ہے وہ ہمیشہ ان کے بھروسہ کو قائم رکھیں گے۔

ان کی جیت نفرت کی سیاست کرنے والوں کو ایک بہترین جواب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوکھلا کی جیت فرقہ پرستوں کی ہار ہے اور عوام نے انہیں برقی کا جھٹکا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلالحاظ مذہب و ملت تمام ہندو و مسلم ووٹرز نے بی جے پی فرقہ پرستی پر مبنی سیاست کو شکست دی ہے۔امانت اللہ خان نے وزیر داخلہ امت شاہ پر سخت طنز کرتے ہوئے کہا کہ امت شاہ تک کرنٹ پہنچ گیا ہوگا۔


دہلی کی سڑکوں پر لائبریریاں

دہلی،

تقریروں’ نعروں’ دائیں بازو اور پولیس کے حملوں کے خوف اور یہاں تک کہ فائرنگ کا واقعہ پیش آنے کے بعد بھی مذکورہ فاطمہ شیخ ساوتری بائی پھولے لائبریری شاہین باغ میں مطالعہ کے لئے آنے والے نئے لوگوں کواپنی طرف راغب کررہی ہیں۔

سال1848میں لڑکیوں کے پونے میں پہلا ہندوستان اسکول شیخ اور پھولے نے شروع کیاتھا۔طویل مدت سے شہریت قانون کے خلاف جاری احتجاج جس کی قیادت خواتین کررہی ہیں کہ وہاں مذکورہ لائبریری کی شروعات17جنوری کے روز ہوئی تھی۔

حیدرآباد یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر روہت ویمولہ کی خودکشی کو چار سال اسی روز مکمل ہوئی تھے’ اکھل بھارتی ویارتی پردیش کے کارکنوں کے ساتھ تصادم کے بعد روہت ویمولہ کو یونیورسٹی سے برطرف کردیاگیاتھا۔
محمد آصف جو اندرا گاندھی قومی اوپن اسکول میں فارسی کے ایک طالب علم ہیں’ جو یہ لائبریری چلارہے ہیں نے کہاکہ یہ خود ا یک طرح کا احتجاج ہے۔ "یہاں پر کوئی رجسٹریشن فیس نہیں لی جارہی ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ”شاہین باغ آئین کو توڑنے والے نظریہ کے خلاف ایک جدوجہد کا نام ہے۔زیادہ تر مطالعہ کرنے والے آئین کی انگریزی’ ہندی اور اردو کی کاپیاں مانگ رہے ہیں۔

نوجوان بھگت سنگھ کے کاموں کی تفصیلات مانگ رہے ہیں او رمعمر لوگ گاندھی کی کتابیں اور نہرو کی ڈسکوری آف انڈیا کی مانگ کررہے ہیں”۔آصف نے پچاس کتابوں سے اس کی شروعات کی تھی اور اب یہ اشتراک کے ساتھ 10تہہ تک پہنچ گیا ہے۔

صرف خواتین ہی کتابیں خرید سکتی ہیں اور مردوں کو قریب میں بس شلٹر جو سڑک بند ہونے کی وجہہ سے اب استعمال میں نہیں ہے اس میں بنی عارضی لائبریری میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے کی اجازت ہے۔
یہاں پر بنگالی اور پنجابی میں بھی چند کتابیں موجود ہیں۔

جنوبی دہلی کے ہاوز رانی میں بھی مخالف سی اے اے احتجاج کے نام پر اسی طرح کی ایک چھوٹی لائبریری شروع کی ہے۔
راجدھانی میں کم سے کم 15مخالف سی اے اے احتجاج چل رہے ہیں جس کی قیادت خواتین کی جانب سے کی جارہی ہے’ جس میں سب سے بڑا شاہین باغ میں احتجاج کیاجارہا ہے۔
نارتھ ایسٹ دہلی میں احتجاج کے مقام پر لائبریریوں کے لئے درالحکومت دہلی میں چار یونیورسٹیوں کے طلبہ کتابیں اکٹھا کرنے کے کام پر مامور ہیں۔

امبیڈکر یونیورسٹی میں شعبہ تعلیم سے ایم اے کی تعلیم حاصل کررہے کہ امرتیا جیوتی باسوجنھوں نے مصطفے آباد کے احتجاجی دھرنے میں لائبریری کا آغاز کیا ہے’ نے بتایا کہ ان کی ترجیحات بچوں کی کتابیں ہیں۔
باسو نے کہاکہ "احتجاج کے مقامات تبدیلی کا مقام بن گئے ہیں جہاں پر خواتین اور بچے کو بہت ہی کم اپنے گھروں سے نکلتے تھے نعرے لگارہے ہیں۔

جس سماجی ماحول پر کارضرب میں ہم رہ رہے ہیں وہاں پریہ ایک نمایاں تبدیلی ہے۔ہم کتابوں سے اور ہمارے اطراف واکناف میں جو چیزیں ہیں اس سے سکھیں گے اور ہم چاہتے کہ یہاں پر آرہے بچوں کے لئے کچھ کام کریں۔

لہذا ہم کتابیں اکٹھا کررہے ہیں اور احتجاج کے دواو رمقامات پر لائبریریاں قائم کی جارہی ہیں”۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر کی لائبریری جس کا عنوان”ریڈ فار ریولیوشن” رکھا گیا ہے 24ڈسمبر سے کام کررہی ہے۔
اس کے بانیان میں سے ایک ساحل احمد جو ‘پیس اینڈ کانفلکٹ’ میں ایم پی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں کا کہنا ہے کہ دسمبر15کے روز یونیورسٹی کی لائبریری میں پولیس کی مارپیٹ پر ردعمل کے طور سے اس لائبریری کی شروعات عمل میں لائی گئی ہے۔

جس میں کتابوں کا عطیہ دینے والو ں میں سے ایک مصنفہ اروندتی رائے بھی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ”ہر فسطائی حکمران کی شروعات لائبریوں کی بربادی سے ہوئی ہے کیونکہ وہ معاشرے اور مطالعہ کرنے والوں کو ایک نظریہ دینا چاہتے ہیں کہ حاکم بدل گئے ہیں۔

ہم نے حکومت کی جانب سے فروغ دی جارہی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لئے احتجاج کے مقام پر مذکورہ لائبریری کی شروعات عمل میں لائی ہے۔ سرمائی تعطیلات سے قبل ہم بے شمار بچوں کو اس سے مستفید کرنا چاہیں گے”۔


مسلم ممالک میں 85 لاکھ بھارتی قیام پذیر

دہلی،

مذہبی بنیاد پر شہریت دینے کے قانون سی اے اے کے نفاذ کے بعد ملک بھر میں جاری مظاہروں کے دوران وزارت خارجہ نے تازہ اعداد وشمار جاری کئے ہیں، جس کے مطابق 203 ممالک میں قیام پذیر 1 کروڑ 36 لاکھ بھارتیوں میں 85 لاکھ سے زائد مسلم ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ پرسون بنرجی کے ذریعہ پارلیمنٹ میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں گزشتہ ہفتہ وزیر مملکت برائے خارجہ امور وی مرلی دھرن نے تحریری جواب میں بتایا کہ مختلف ممالک میں قائم انڈین مشن کے ذریعہ فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت سے باہر 13.62 ملین بھارتی رہ رہے ہیں، جنہوں نے سال 2018-19 میں 74.4 بلین اور سال 2019-20 (اپریل-ستمبر)میں 41.9 بلین ڈالر ترسیل زر کیا ہے۔

مسلم ممالک میں 85 لاکھ بھارتی قیام پذیرمتحدہ عرب امارات میں 3420000 ، سعودی عرب میں 2594947، کویت میں 1029861، بحرین میں 323292، مصر میں 3950 ، برونئی میں 11000، افغانستان میں 3087، عراق میں 18000 ، ایران میں 4000 ، عمان میں 17330 اور اسی طرح دیگر ممالک میں بڑی تعداد میں بھارتی روزگار کے لیے قیام پذیر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر کو این آئی اے نے طلب کر لیا

سرینگر،

بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی نے کانگریس کے سینیئر رہنما و سابق رکن اسمبلی غلام محمد سروری کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے۔
غلام محمد سروری آر اینڈ بی منسٹر اور کشتواڑ ضلع کے حلقہ اندروال سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ ایجنسی کو شبہ ہے کہ وہ مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس سلسلے میں ایجنسی نے انہیں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے۔

سروری کو غلام نبی آزاد کا قریبی مانا جاتا ہے۔
معطل شدہ پولیس افسر دیویندر سنگھ کی گرفتاری کے بعد این آئی اے کی متعدد ٹیموں نے جموں و کشمیر کا رخ کیا ہے اور کئی مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔

دیویندر سنگھ کو 11 جنوری کو عسکریت پسند کمانڈر نوید بابو اور ان کے ساتھی کے ساتھ اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ جموں کی طرف جا رہے تھے۔
اس کیس کو این آئی اے کو سونپ دینے کے بعد ایجنسی نے جنوبی کشمیر میں بھی چھاپے مارے ہیں۔ دیویندر سنگھ کے آبائی علاقہ ترال کے علاوہ شوپیاں اور کولگام میں بھی چھاپا مارا گیا۔

شمالی کشمیر کے ہندوارہ علاقے میں چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے ایک سرکاری ملازم کے گھر سے لیپ ٹاپ، موبائل فون اور گاڑی کے کاغذات ضبط کیے گئے تھے۔


پلوامہ حملے میں ہلاک فوجی کی اہلیہ کا جنسی ہراسانی کا الزام

سرینگر،

14 فروری 2019 کو پلوامہ حملے میں مارے گئے ایک بھاتی فوجی نصیر احمد کی بیوہ شازیہ کوثر کا کہنا ہے کہ وہ اس سانحہ کے بعد در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ سراج الدین، جو شازیہ کے دیور ہیں، نے عدالت میں نصیر کے بچے کی سرپرستی کا ایک مقدمہ دائر کیا تھا

جس پر عدالت نے انہیں بچے کی حفاظت کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم نصیر کی بیوہ کا کہنا ہے کہ سراج عدالت کے حکمنامے کا غلط استعمال کر رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق شازیہ کا کہنا ہے کہ سراج انہیں بچوں سے ملنے نہیں دیتا اور اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے سبھی بینک اکاونٹس بند کر دئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔
نصیر کی ہلاکت کے بعد مختلف تنظیموں بشمول حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں نے نصیر احمد کے بچوں اور اہلیہ کی مدد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

نصیر کی اہلیہ نے دیور پر ہراسانی کا الزام لگایا۔ذرائع کے مطابق شازیہ نے کہا سراج کا کہنا ہے کہ ان کے اکاونٹ میں کروڑوں روپے جمع کرائے گئے ہیں۔
انہوں نے دعوی کیا کہ سراج نے ان سے شادی کرنے کی خواہش کی تھی جس کو انہوں نے مسترد کیا۔

انہوں نے کہا اس کے بعد انہیں تنگ اور ہراساں کرنا معمول بن گیا۔ذرائع  کے مطابق شازیہ نے الزام عائد کیا کہ سراج الدین انہیں دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ نصیر احمد کی 13 سالہ بیٹی کو بھی اپنے ساتھ لے جائے گا۔

انہوں نے کہا سراج کی نظر بھائی کی رقم پر ہے جو شہید نصیر احمد کی اہلیہ اور بچوں کا قانونی حق ہے۔انہوں نے لیفٹننٹ گورنر انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی مدد کریں تاکہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ خوف سے آزاد زندگی گزار سکیں۔اس سلسلہ میں سراج الدین یا پولیس کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

About The Author