پچھلے تین دن بھرے پُرے شہروں کے ہنگاموں سے دور تاریخی اہمیت کے قصبے ملکہ ہانس میں گزرے، ملکہ ہانس کی وجہ شہرت پنجابی زبان کے صوفی شاعر حضرت سید وارث شاہ ہیں۔ وارث شاہ نے قصور میں مولوی غلام مرتضیٰ کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی اور پھر ملکہ ہانس کے قصبے کی ایک مسجد میں پیش نماز بن گئے۔ یہیں انہوں نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ”ہیروارث شاہ“’ لکھی۔ پنجابی شاعری کی یہ بلند پایہ تصنیف پچھلی کئی صدیوں سے وارث شاہ کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور آنے والی بے حساب صدیوں میں بھی زندہ رکھے گی۔ دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ قصور کے جس مدرسہ اور استاد سے وارث شاہ ؒ نے فیض حاصل کیا ان سے لگ بھگ چالیس برس قبل اسی مدرسہ اور استاد سے فیض پانے والے سید عبداللہ شاہ بخاری مرشد بابا بلھے شاہ ؒ کے نام سے مشہور ہوئے۔ محققین نے چالیس برسوں کے وقفے سے ایک ہی استاد سے فیض پانے والے صوبہ پنجاب کے ان دو بزرگوں کی ملاقات اور باہمی مراسم کی کوئی خبر نہیں دی۔
وارث شاہ اوربابا بلھے شاہ کے احوال سے آگاہ طالب علم اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ ایک ہی استاد کے دو شاگردوں کی دنیائیں بھی یکسر مختلف ہیں۔ وارث شاہ پنجاب کی رومانوی شاعری کے باوا آدم قرار پائے تو سیدی بلھے شاہ صوبہ پنجاب کی مزاحمتی شاعری کے سرخیل، مرشدی بلھے شاہ اپنے عہد کے بالادست طبقات کیخلاف توانا آواز بنے اور اس فکر نے ان کیخلاف فتوﺅں کی چاند ماری کروائی۔ یہاں تک کہ ان کے اپنے استاد مولوی غلام مرتضیٰ نے بلھے شاہ کے کفر کا فتویٰ جاری کر دیا۔ مگر مولوی جی اپنے دوسرے شاگرد وارث شاہ سے بہت خوش تھے۔ کیوں نہ ہوتے انہوں نے استاد محترم کے حکم پر قصبہ ملکہ ہانس کا رخ کیا اور اس کی ایک مسجد میں پیش نماز بن گئے۔ اس قدیم قصبے کی قبل ازیں وجہ شہرت ہانس قبیلہ تھا یا پھر اس قصبے میں موجود قدیم گوردوارہ اور مندر۔ وارث شاہ یہاں پہنچے تو پھر وہی اس قصبے کے تعارف کا معتبر حوالہ بن گئے۔
اب بھی کہیں بھی کبھی بھی جب قصبہ ملکہ ہانس کاذکر ہوتا ہے تو فوراً ذہن میں دو باتیں گونجتی ہیں اولاً سید وارث شاہ اور ثانیاً ان کی لازوال تصنیف ”ہیر وارث شاہ“۔ پنجابی شاعری کا یہ لا فانی مجموعہ کلام ظاہراً حسن عشق کی داستان ہے۔ یہ داستان دو سوالوں کے گرد گھومتی ہے اولاً یہ کہ اپنے کرداروں کے حوالے یہ جھنگ کی لوک داستان ہیر رانجھا کا منظوم قصہ ہے اور ثانیاً یہ کہ یہ خود وارث شاہ کے اس سلگتے عشق کی داستان ہے جس نے انہیں لکھنے کی راہ دکھائی اور انہوں نے پنجابی ادب کو مالا مال کردیا۔ دیگر بزرگ شاعروں کی طرح وارث شاہ کیساتھ بھی یہ ظلم ہوا کہ ان کے بعد کے ادوار کے مختلف شاعروں نے ان کے انداز میں اشعار کہے مگر انہیں وارث شاہ کے نام سے منسوب کردیا۔
پتہ نہیں اپنے کلام کو وارث شاہ سے منسوب کرکے داد پانے والوں کی اُلجھن کیا تھی لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ جنہوں نے نقل کرنے کی کوشش کی وہ وارث شاہ کی گرد کو بھی نہیں پہنچ پائے۔
پچھلی ایک صدی کے دوران مختلف محققین نے حضرت وارث شاہ پر تحقیق کرکے وارث شاہ کا اسلوب اپنانے والے نامعلوم شاعروں کے کلام کو الگ کرکے "ہیر وارث شاہ” متعدد بار مرتب کی۔ ہمارے استاد محترم اکرم شیخ بھی ان محققین کی صف میں نمایاں ہیں جنہوں نے حضرت وارث شاہ کے احوال اور شاعری پر گراں قدر تحقیق کے بعدوارث شاہ اوران کے اسلوب کی نقل کرنے والوں کے کلام کو نہ صرف الگ کیا بلکہ اسلوب کی نقل کرنے والوں کے کلام میں موجود ان نقائص کی بھی نشاندہی کی جن کا وارث شاہ کے ہاں رتی برابر وجود بھی نہیں ملتا۔
شیخو پورہ کے تاریخی قصبے جنڈیالہ شیرخان کے گیلانی سادات کے ایک گھر میں جنم لینے والے سید وارث شاہ نے پنجابی شاعری کے رومانوی حصے کو اپنی فنی مہارت سے تابندہ کردیا۔ قصبہ ملکہ ہانس صدیوں کا سفر کرکے قائم ودائم ہے۔ قصبے کے باسی وارث شاہ کے حوالے سے بنے تعارف پر فخر کرتے ہیں۔ اسی قصبے میں ایک مسجد حضرت بلھے شاہ سے منسوب ہے۔ یہ مسجد قصبے کے قدیم حصے کی بجائے لگ بھگ سو سال قبل آباد ہوئے حصے میں واقع ہے۔
گزشتہ بار کی طرح اس بار بھی میں نے اپنے میزبانوں کے سامنے یہ سوال اُٹھایا کہ اگر ملکہ ہانس قصبے کا یہ حصہ (محلہ) لگ بھگ سو سال قبل آباد ہوا ہے تو مسجد کا حضرت بلھے شاہ سے منسوب ہونا اور بلھے شاہ کا یہاں آکر قیام کرنا دو الگ معاملات ہیں۔ کیونکہ سیدی مرشد بلھے شاہ کے احوال رقم کرنے والے مسلم اور سکھ محققین نے کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ مولوی غلام مرتضیٰ کے مدرسہ سے فراغت کے بعد بلھے شاہ نے کبھی پیش نمازی کی ہو۔ ثانیاً یہ کہ اگر بلھے شاہ اس قصبہ میں آئے بھی ہوں تو پھر آثار قصبے کے قدیم حصہ میں ملنے چاہئیں کیونکہ بلھے شاہ وارث شاہ سے چالیس برس قبل مدرسہ سے تعلیم مکمل کرکے رخصت ہوئے تھے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ بلھے شاہ ملامتی صوفیا کے سرخیل قرار پائے یہی ان کیخلاف کفر کے فتویٰ کا سبب ٹھہرا۔
سیدی بلھے شاہ کی زندگی اور تربیت میں ان کی بڑی ہمشیرہ سیدہ خاتون کی بنیادی اہمیت ہے۔ پھر ان کے مرشد حضرت شاہ عنایت رح کے احوال میں بھی کہیں یہ ذکر نہیں ملتا کہ انہوں نے بلھے شاہ کو قصبہ ملکہ ہانس کی طرف جانے کو کہا ہو۔ سیدی بلھے شاہ چونکہ ملامتی صوفی تھے سو ان کی دنیا ہی الگ تھی۔ وہ پنجاب سے گورو ارجن سنگھ ( سکھوں کے یہ گورو مغل ایمپائر کے حکم پر قتل ہوئے ) کے قتل کیخلاف اُٹھنے والی توانا اور بلند آواز تھے۔
اسلئے یہ تو ممکن ہے کہ ان کے بعد کی صدیوں میں کسی نے سیدی بلھے شاہ سے عقیدت کی بناء پر ایک مسجد تعمیر کروا کے ان سے منسوب کی ہو مگر خود بلھے شاہ کا ملکہ ہانس آنا مسجد بنوانا اور قیام کرنا مغالطوں کے سوا کچھ نہیں۔ پنجاب کے اس تاریخی اہمیت کے قصبے ملکہ ہانس میں قیام کے دوران وارث شاہ کی شاعری اور یادوں کی دستک کا سلسلہ جاری رہا۔ سیدی وارث شاہ ہی نے کہا تھا
”بھید کے تالے کی چابی سنبھال کر نہ رکھنے والے ہی سولی کا سفر طے کرتے ہیں”۔
” وارث شاہ جس نے خود سے بچھڑنے کی اذیت نہ اُٹھائی ہو وہ اس سے نہیں مل پاتا”۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر