بس ملتان سے روانہ ہوئی تو ضبط کا دامن چھوٹ گیا۔
کچھ دیر بعد دوسری طرف کی نشست پر بیٹھے مسافر نے دریافت کیا
”آپ کسی جنازے میں شرکت کیلئے جارہے ہیں، کون فوت ہوا ہے؟
کوئی بھی نہیں میں تو واپس گھر جارہا ہوں۔
عرض کیا
اُس نے حیرانی سے دریافت کیا پھر رو کیوں رہے ہیں؟
جواباً عرض کیا،
دوست میں خود ایک جنازہ ہوں جسے رزق کاندھا دیئے ہمیشہ جنم شہر سے باہر لے جاتا ہے۔ اپنی جنم بھومی، پیاروں اور اماں کی قبر سے بچھڑنے کا دُکھ مجھے رُلاتا ہے ہمیشہ”۔
مسافر نے بات سُن کر منہ دوسری طرف کر کے اپنے ساتھ بیٹھے شخص سے گفتگو شروع کردی،
ان کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ انہیں میرے پاگل ہونے کا ممکل یقین ہے،
نہ ہوتا تو ساعتوں کے وقفے سے وہ مجھے حیرانی سے کیوں دیکھتے۔
پچھلے چند برسوں سے میں جب بھی شہر مادر مہربان اور اپنی جنم بھومی سے رخصت ہونے لگتا ہوں تو جذبات قابو میں نہیں رہتے۔
آنکھیں برسنے لگتی ہیں،
ہمیشہ سے ساتھ دوسری نشست پر بیٹھے مسافر کو وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ یہ آنسو کسی مرگ کی اطلاع پر نہیں بلکہ ملتان سے جدائی پر ہیں۔
لگتا ہے میں اب بوڑھا اور قدرے زیادہ جذباتی یا بچوں کے سے جذبات کا اسیر ہوگیا ہوں۔
پتہ نہیں ہر بار مجھے یہ آس کیوں ہوتی ہے کہ رزق سے بندھی ہجرت کے اس مسافر کو دم آخر کوئی روک لے گا
کوئی کہہ دے گا یار تیرے روزگار کا بندوبست یہیں کر دیتے ہیں۔ نہ جاؤ
یا پھر یہ کہ چلو کچھ دن اور قیام کرلو۔
خواہشیں کب پوری ہوتی ہیں، خواہشیں حسرتیں بن جائیں تو اچھا بھلا شخص اس اتھل پتھل کا مقابلہ نہیں کر پاتا میں تو ایک کمزور سا شخص ہوں۔
باوجود اس کے کہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد بند ہو جانے والے آبائی گھر کی وجہ سے اب جنم شہر میں مسافر کی طرح اُترتا رہتا ہوں، ایک دو مہربان دوست ہیں اپنے دل اور گھر کے دروازے کھلے رکھتے ہیں،
پھر بھی اماں کا گھر تو اماں کا گھر ہوتا ہے
اس کے دروازے بند ہو جائیں تو ہمالیہ جتنا بلند شخص بھی جھک جاتا ہے۔
فقیر راحموں مجھے ہمیشہ سمجھاتا ہے کہ
”شاہ جی!
زیادہ مناسب یہی ہے کہ اب تم ملتان آیا ہی نہ کرو”
لیکن یہ کیسے ممکن ہے،
اپنے ہی ملک میں رزق سے بندھی ہجرتوں کے گھاؤ کھاتے شخص کے پاس کتابوں، دوستوں اور جنم بھومی کے حوالے کے سوا رکھا ہی کیا ہے۔
ہم ملتانی بھی عجیب مٹی کے بنے ہوئے لوگ ہیں۔
چند میل کی مسافت پر خود کو پردیسی سمجھ کر اُداس ہونے والے اور بار بار پردیسی ہونے کا تذکرہ کرنے والے۔
اچھا میں آپ کو سمجھاتا ہوں۔
”یہ غالباً کلاس دوئم کے دنوں کی بات ہے، ہم ایک تانگہ پر گھر سے دولت گیٹ کے قریب ایک سکول میں پڑھنے جاتے تھے، مشکل سے دو کلو میٹر کا فاصلہ ہوگا۔ سکول کی سمت میں پہلے دہلی گیٹ نامی جگہ آتی ہے پر مخدوم سجاد حسین قریشی مرحوم کا بڑا سا گھر اس سے آگے ایک قدیمی امام بارگاہ پھر دولت گیٹ چوک اور کچھ فاصلے پر وہ سکول جس میں ہم نے ابتدائی تین کلاسیں پڑھی تھیں۔
ایک دن سکول سے واپسی پر تانگہ کی اگلی نشست پر بیٹھنے کی ضد میں ساتھیوں سے جھگڑا ہوگیا تو میں نے تیسری جماعت میں پڑھنے والے وسیم کو دو تین تھپڑ لگا دیئے،
کوچوان چچا نے جھگڑا ختم کروا کے اُسے پچھلی اور مجھے اگلی سیٹ پر آرام سے بیٹھنے کو کہا۔
تانگہ گھروں کی طرف واپس چل پڑا تو مار کھانے والے طالب علم نے مجھ سے سرائیکی زبان میں جو کہا اُس کا اُردو ترجمہ کچھ یوں ہے۔
”دیکھو تم بی بی سید زادی وعظ والی کے بیٹے ہو، بچے کو پردیس میں مارتے ہوئے تمہیں دکھ نہیں ہوا، تم سید نہ ہوتے تو میں جواب میں تھپڑ مارتا”
ملتانی لوگ بڑے ہوں یا بچے سادات کا بہت احترام کرتے ہیں، ہمیں ملتان میں خصوصی عزت واحترام ملنے کی وجہ ایک تو سید ہونا ہے اور دوسرا میری والدہ محترمہ جو اپنے وقت کی معروف اور بلند پایہ عالمہ تھیں انہوں نے نصف صدی تک ملتان میں وعظ (خطابات) کئے
ملتانیوں کا بچہ بچہ انہیں بی بی وعظ والی کے نام سے جانتا تھا اور ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ساتھی طالب علم نے پردیس میں تھپڑ مارنے کا شکوہ کیا اس کا گھر دہلی گیٹ کے قریب تھا، سکول سے واپسی پر اس کا گھر پہلے آتا جبکہ میرا سفر چوک خونی برج پر تمام ہوتا جو کہ بعد میں آتا تھا۔
یہ ایک واقعہ ملتانیوں کی اپنے گھر سے شدید انسیت کا ثبوت ہے۔
ظاہر ہے میل بھر کے فاصلے پر خود کو پردیسی سمجھنے والے ملتانی کو گھر سے سینکڑوں کلومیٹر یا ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے پر جاکر رہنا بسنا ہو تو یہ رزق سے بندھی ہجرت سے عبارت مجبوری ہی ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ میں جب بھی ملتان سے ایک دو دن کے بعد پڑاؤ اُٹھا کر واپسی کے سفر کیلئے نکلتا ہوں تو جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتا۔
دل چاہتا ہے کہ کوئی آگے بڑھ کر روک لے یا کوئی یہ کہہ دے اچھا یار آج نہیں ایک دو دن بعد چلے جانا،
لیکن ہائے ری خواہش، خواہش جب حسرت میں بدلتی ہے تو اپنی بے بسی پر رونا آتا ہے۔
یہی دو دن قبل کی شب ملتان سے روانگی کے وقت ہوا،
یہ اپریل1984ء کی بات ہے جب میرے عزیز جان دوست عزیز نیازی ایڈووکیٹ نے مجھے ملتان چھوڑ کر لاہور میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیتے ہوئے کچھ رقم مجھے تھما دی۔
لاہور پہنچتے ہی چند گھنٹوں بعد ملازمت بھی مل گئی یہ تو بہت بعد میں پتہ چلا کہ ملازمت دلوانے والے دوست صفدر بلوچ کا وطیرہ یہی ہے کہ جو بھی دوست سرائیکی وسیب سے لاہور آتا ہے اگر وہ لکھنے پڑھنے میں دلچسپی رکھتا ہے تو اپنی جگہ رکھوا دیتا ہے ورنہ قیام وطعام کی ذمہ داری سنبھال کر نئے ”مہاجر” کو تلاش روزگار کیلئے تعاون فراہم کرتا ہے۔
اپریل1984ء کے بعد رزق سے بندھی ہجرت اور آگے بڑھنے کی جدوجہد نے شہر شہر پھرایا مگر ملتانی کے اندر سے ملتان نہیں نکلتا۔
پچھلے عشرے کے چند برس میں نے کئی وجوہات کی بناء پر اپنی جنم بھومی میں بسر کئے اس چند سالہ قیام ملتان نے جذباتی بنا دیا ہے،
پانچ سال سے پھر لاہور میں ہوں
خاندان کی ذمہ داریاں ہیں لیکن ملتان سے سندیسہ ملتے ہی روانہ ہو جاتا ہوں۔
معاف کیجئے گا آپ بھی کہیں گے یہ کیا داستان لے کر بیٹھ گیا ہے مگر کیا کروں جب بھی ملتان سے پلٹتا ہوں یادوں کی دستک جتنی شدید ہوتی ہے اُداسی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔
آپ اسے ایک زندہ ملتانی کا نوحہ سمجھ لیجئے
اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کہ زندگی کا جتنا سفر باقی ہے یہ جب بھی تمام ہو تو قبر کی مٹی ملتان کی نصیب ہو،
ملتان کی مٹی کی خوشبوں ملتانیوں کی محبت، ملتان کی تاریخ میرے پاس ذکر کیلئے اس کے سوا رکھا کیا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ