گجرات میں اسکول ٹیچر شراب پی کر کلاس میں بچوں کو پڑھانے پہنچ گئی
سورت :
وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے سورت میونسپل ایجوکیشن بورڈ کی ایک خاتون ٹیچر شراب کے نشہ میں دھت ہوکر کلاس روم پہنچی اور بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔
سورت میونسپل ایجوکیشنل بورڈ نے 38 سالہ ٹیچر کی اس حرکت کے مطابق اطلاع ملنے کے بعد تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
میونسپل اسکول میں اس خاتون ٹیچر نے مبینہ طور پر 31 جنوری کے دن شراب نوشی کے بعد نشہ میں کلاس روم پہنچی۔
جب یہ مسئلہ سورت میونسپل ایجوکیشن بورڈ کے اجلاس میں اٹھایا گیا تو حکام نے تحقیقات کا حکم دیا۔ رپورٹس کے مطابق ٹیچر اپنے ذمہ داروں کو اطلاع دیئے بغیر اسکول سے چلی گئی۔
مقبوضہ جموں کشمیر میں پولیس کے لئے ہائی ٹیک ریموٹ کنٹرول روبوٹ گاڑیوں کی خریداری کے لئے ٹینڈر جاری
سرینگر
مقبوضہ جموں و کشمیر میں پولیس وادی کشمیر میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ہائی ٹیک گاڑیاںخرید رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق پولیس نے وادی میں انسداد عسکریت پسندی کی کارروائیوں کے لئے ریموٹ کنٹرول گاڑیوں کی خریداری کے لئے ٹینڈرز جاری کردیئے ہیں۔
ان گاڑیوں میں ہر ایک پر کم از کم ایک کروڑ روپے لاگت آئے گی ،اور یہ انسداد عسکریت پسندی کی کارروائیوں کے دوران تلاشی اور نگرانی کے لئے استعمال ہوں گی۔
دور سے چلنے والی گاڑی یا ROVایک روبوٹ کی طرح کام کرتی ہے جو سیڑھیاں چڑھ کر کسی بھی عمارت میں نقل و حرکت کر سکتی ہے۔
پولیس کے مطابق ، ROV میں ہائی ٹیک سینسرز ہوں گے جن میں دوربین ، لیزر بیم اور مائکروفون شامل ہیں ۔ اور یہ کنٹرول روم کو اس جگہ کے بارے میں لمحہ لمحہ کی تفصیلات بھیجیں گی جو گاڑی کی نقل و حرکت دیکھ رہے ہوں گے۔
ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آر او وی مشین گنوں کو بھی استعمال کر سکے گی ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گاڑی خود دہشت گردوں سے لڑنے کے لئے کافی ہوگی۔
عہدیداروں نے بتایا کہ اس بات کا امکان ہے کہ ایسی ہی ایک گاڑی کو جنوبی کشمیر میں اور دوسری گاڑی کو دارالحکومت سری نگر میں رکھا جائے گا۔
جموں و کشمیر پولیس نے نے سرمائی دارالحکومت جموں میں ایسی ہائی ٹیک گاڑیوں کے استعمال کے بارے میں ابھی فیصلہ نہیں کیا۔
ماہرین نے کہا کہ جموں کے ساتھ امتیازی سلوک ختم ہونا چاہئے۔ جموں سے تعلق رکھنے والے ایک سابق پولیس عہدیدار نے کہا کہ اگر اس طرح کی دو گاڑیاں خریدی جارہی ہیں تو ، جموں و کشمیر کے ہر علاقے میں اسے مہیا کیا جانا چاہئے۔
مقبوضہ کشمیر میں ویب سائٹ کی وائٹ لسٹ کاا قدام غیرقانونی
سیکورٹی فورسز کشمیریوں کو ان کے موبائل فون سے وی پی این ہٹانے پر مجبور کررہے ہیں
سرینگر،
سینٹر فار انٹرنیٹ اینڈ سوسائٹی میں اظہار رائے سے متعلق قانونی اور تکنیکی تحقیق کے نگران گرشاباد گرور کے مطابق جموں کشمیر میں 6 ماہ کے بعد انٹرنیٹ بحال کیا گیا لیکن حکومت کی جانب سے ویب سائٹس کی وہائٹ لسٹ جاری کرنا قانونی نقطہ نظر سے صحیح نہیں ہے کیونکہ حکومت کو صرف کچھ ویب سائٹس کو بند کرنے کا اختیار ہے۔
بھارت کی مرکزی حکومت نے مقبوضہ جموں کشمیر میں 4 اگست 2019 کو ٹیلی مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ سروسز کو معطل کرنے کا حکم دیا۔ اس کے نتیجے میں لگ بھگ ایک کروڑ لوگ اظہار رائے کی آزادی اور آن لائن نظام سے وابستگی کے اپنے بنیادی حق سے یک لخت محروم ہوگئے۔
سافٹ ویئر فریڈم لا سینٹر کے انٹرنیٹ شٹ ڈان ٹریکر کے مطابق جموں کشمیر میں گزشتہ چھ برس کے دوران 180 بارانٹرنیٹ سروس جزوی یا کلی طور معطل کی گئی ہے۔یہ حیران کن اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہے کہ
ریاست میں مواصلاتی پابندیاں نافذ کیا جانا ایک معمول ہے۔ لیکن شاید کشمیریوں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ ایک جمہوری ملک کی جانب سے سب سے طویل انٹرنیٹ شٹ ڈاون کا سامنا کرنے والے ہیں۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ موجودہ دور میں انٹرنیٹ جمہوری عمل میں شرکت کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بن چکا ہے۔
انٹرنیٹ پر پابندی کے نتیجے میں عوام کو سماجی اور معاشی نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں طلبا اہم تعلیمی ذرائع تک رسائی سے محروم ہوجاتے ہیں، اسپتالوں اور دیگر ایمرجنسی شعبوں کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ جاتی ہیں۔
جان ریڈزک کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق انٹرنیٹ کو بند کرنے کے نتیجے میں امن وقانون کی صورتحال کو قابو میں رکھنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔ ریڈزک کا کہنا ہے کہ پر امن احتجاج کے انتظامات میں انٹرنیٹ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے،
جبکہ انٹرنیٹ بند ہوجانے کی وجہ سے پر تشدد مظاہروں کا احتمال پیدا ہوجاتا ہے اور اسے روکنا محال بن جاتا ہے۔ جب ریاست میں دیگر کئی اقدامات کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر پابندی عائد کی گئی جس کے بعد کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر انو رادھا بھسین نے اس کے خلاف سپریم کورٹ کی طرف رجوع کیا ۔
اس طرح سے سپریم کورٹ کو انٹرنیٹ پر قدغن سے متعلق ان ساری باتوں پر غور کرنے اور اس ضمن میں قانون کا جائز ہ لینے کا موقعہ ملا۔ سول سوسائٹی کو اس خاص صورتحال میں شدید تشویش لاحق ہوگئی۔ حکومت قواعد و ضوابط کی صریحا خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ،
یہاں تک کہ وہ انٹرنیٹ پر پابندی کے احکامات کو مشتہر کرنے اور عوام کو اس فیصلے سے باخبر کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے 10جنوری کے اپنے آخری حکم نامے میں بنیادی آئینی اصولوں کی وضاحت کی ہے اور مستقبل کے لیے اصول بھی مرتب کیے ہیں ۔
سب سے پہلے اور سب سے اہم بات سپریم کورٹ نے یہ واضح کردی کہ آئین کی دفعہ 19کے تحت کسی بھی پیشے سے وابستہ لوگوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے اظہار خیال اور اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ انٹرنیٹ پر قدغن غیر معینہ عرصے تک کے لیے عائد نہیں کی جاسکتی ہے۔
بلکہ ہر ہفتے اس پر انتظامیہ کی جانب سے غور و خوص کیا جانا چاہیے جبکہ اس طرح کی پابندی کا جائزہ عدالت بھی لے سکتی ہے۔ اس طرح سے سپریم کورٹ نے مستقبل میں حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ پر قدغن لگانا ایک مشکل کام بنا دیا ہے۔
کئی ماہرین نے بھی نوٹ کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اہم شعبوں کی انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کا حکم تو دیا ہے لیکن اس نے عام کشمیری شہریوں کو کوئی سہولت نہیں دی ۔ جوں ہی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا، جموں کشمیر میں حکومت نے مواصلاتی کمپنیوں کو ٹوجی رفتار کی انٹر نیٹ سروس بحال کرنے کا حکم دیا
لیکن صارفین کو صرف 301 ویب سائٹس تک رسائی دی گئی ۔ ان ویب سائٹس پر مشتمل ایک ‘وائٹ لسٹ’ جاری کردی گئی ۔ ان قابل رسائی ویب سائٹوں کی فہرست میں اہم شعبوں کی ویب سائٹس بھی شامل کردی گئیں۔ اس ضمن میں موجودہ قواعد و ضوابط ان تکنیکی باریکیوں سے میل نہیں کھاتے ہیں، جن کی بنیاد پر جدید دور میں انٹرنیٹ نظام چلتا ہے۔ اس میں کئی تکنیکی باریکیاں ہیں۔
اِن تکنیکی باریکیوں کے ہوتے ہوئے اگر انٹر نیٹ سروس فراہم کرنے والے مخصوص ویب سائٹس تک ہی رسائی دیں گے، تب بھی وائٹ لسٹ میں شامل دیگر ویب سائٹوں تک رسائی ناممکن بن جاتی ہے۔ اس ضمن میں روہنی لکشانی اور پرتیک واگرے نے ایک حالیہ تجربے کے بعد اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 301ویب سائٹس میں صرف 126ہی کچھ حد تک قابل رسائی ہیں۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کے احکامات کو سپریم کورٹ کی ہدایات کا تسلسل دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ پابندی کے حوالے سے حکومت کے پاس معمولی سا آئینی جواز ہے۔
حکومتی حکم نامے میں انٹرنیٹ پابندی کے لیے سنہ 2017 میں جاری کردہ ٹیلی کام سروس ( پبلک ایمرجنسی یا پبلک سیفٹی ) رولز کا حوالہ دیا گیا ہے۔یہ ضوابط سامراجی دور کے انڈین ٹیلی گراف ایکٹ کے حوالے سے جاری کیے گئے ہیں۔
یہ قوائد و ضوابط حکومت کو مواصلاتی نظام یاانٹرنیٹ سروسز کو معطل کرنے کی اجازت تو دیتے ہیں لیکن یہ حکومت کو اس طرح سے وائٹ لسٹ مرتب کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں ، جیسا کہ جموں کشمیر میں کیا گیا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی شق 69 اے کے مطابق مرکزی حکومت یا عدالتیں کچھ ویب سائٹس کو بند کرنے کا حکم دے سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ حکومت اور مواصلاتی کمپنیوں کے درمیان معاہدوں کی رو سے بھی سرکار قومی سلامتی کے نام پر چند آن لائن ذرائع یعنی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے احکامات دے سکتی ہے۔
اس لیے حکومت کی جانب سے ویب سائٹس کی وائٹ لسٹ جاری کرنے کے اقدام کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ کیونکہ اسے صرف کچھ ویب سائٹوں کو بند کرنے کا اختیار ہے۔ اب کشمیریوں نے ایک نئی راہ نکالی ہے۔ یعنی اب وہ ورچیول پرائیویٹ نیٹ ورک( وی پی این ) کے ذریعے حکومتی وائٹ لسٹ کو چکمادے رہے ہیں اور اس طرح سے تمام ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
لیکن یہ اطلاعات آنے لگی ہیں کہ سیکورٹی فورسز کشمیریوں کو ان کے فون سے مذکورہ اپلی کیشنز(وی پی این)ہٹانے پر مجبور کررہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی قانون ہی نہیں ہے ، جو وی پی این استعمال کرنے سے منع کرتا ہویا انٹرنیٹ پابندی کو جھل دینے کے عمل سے روک سکتی ہے۔
کشمیر میں انٹرنیٹ اور مواصلاتی سروسز کوبند ہوئے اب تقریبا سات ماہ گذر چکے ہیں ۔ اس طر ح سے کشمیریوں کو ایک طویل عرصے تک ایک بنیادی حق سے محروم رکھنا غلط قدم ہے ۔ ایک ایسا غلط اقدام جس کا ازالہ مستقبل میں بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
مہینوں تک مکمل مواصلاتی قدغن کے بعد حکومت اب محدود اور جزوی طور پر یہ سروسز فراہم کرنے کے لیے کچھ بہتر اقدامات کرنے چاہئے کیوںکہ ہم ایک نئی دہائی میں داخل ہوچکے ہیں
اور دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے۔ تاریخ ان لوگوں کو اچھے طریقے سے یاد نہیں کرے گی جواس وقت قومی سلامتی یا امن و قانون کے نام پر شہری کی آزادی کو چھین رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر:سوشل میڈیا بلاک کرنے کے لئے بی ایس این ایل کی پانچ کروڑ روپے مالیت کی فائر وال کی خریداری
سرکاری انٹرنیٹ کمپنی کو شدید خسارے کا سامنا
سرینگر،
مقبوضہ جموں و کشمیر میں سرکاری مواصلاتی کمپنی بھارت سنچار نگم لمیٹڈ (بی ایس این ایل)کی 6 ماہ سے بند براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروسزممکنہ طور پر ایک ہفتے کے اندر بحال ہوں گی کیونکہ کمپنی نے مالی بحران کے باوجود صارفین کی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک رسائی کو روکنے کے لئے قریب پانچ کروڑ روپے مالیت کی ہارڈ ویئر فائر وال نصب کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔
تاہم بی ایس این ایل ذرائع کے مطابق ہارڈ ویئر فائر وال کی تنصیب پر پانچ کروڑ روپے صرف کرنے کے باوجودصارفین وی پی این ایپلی کیشنز کے ذریعے سماجی رابطوں اور دیگر ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرپائیں گے۔
بی ایس این ایل کے پی آر او مسعود بالا نے بتایا کہ وادی میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کو ایک ہفتے کے اندر اندر بحال کیا جائے گا ۔اس کے لئے درکار کروڑوں روپے مالیت کا ساز وسامان منگوایا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے صارفین کی سماجی رابطوں اور دیگر غیر اجازت شدہ ویب سائٹس تک رسائی روکنے کے لئے قریب پانچ کروڑ مالیت کی ہارڈ ویئر فائر وال حاصل کی ہے جس کی انسٹالیشن کا عمل جاری ہے۔
ہارڈ ویئر فائر وال پر بھاری رقم صرف کرنے کے متعلق پوچھے جانے پر مسٹر بالا کا کہنا تھا کہ اس عمل سے کمپنی کو فائدے کے بجائے خسارہ متوقع ہے تاہم بقول ان کے حکومتی احکامات پر تعمیل کو یقنی بنانے کے لئے فائر وال کا حصول ضروری تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بی ایس این ایل کی طرف سے کروڑوں روپے مالیت کی فائر وال انسٹال کرنے کے باوجود بھی وی پی این ایپلی کیشنز کے ذریعے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔
بی ایس این ایل ذرائع نے چند روز قبل بتایا تھا کہ کمپنی کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بلاک کرنے میں اب تک کامیابی نہیں مل پائی ہے نیز بنگلور میں بیٹھے افراد، جنہیں یہ کام سونپا گیا تھا، نے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں۔
بی ایس این ایل کی طرف سے براڈ بینڈ انٹرنیٹ خدمات کی بحالی میں تاخیر کمپنی کے لئے کاری ضرب ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ وادی میں جہاں اس کے صارفین براڈ بینڈ انٹرنیٹ خدمات کے لئے نجی سروس پرووائیڈرس کی طرف رجوع کررہے ہیں وہیں ریلائنس جیو فائبر بھی وادی میں ایمرجنسی بنیادوں پر اپنے نیٹ ورک کا جال بچھا رہا ہے۔
بی ایس این ایل کے ایک صارف نے بتایا کہ میں نجی سروس پرووائیڈر کی سروس حاصل کرنے کے لئے مجبور ہوں کیونکہ بی ایس این ایل والے سروس بحال کرنے میں فی الوقت ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ میں بی ایس این ایل کا صارف ہوں لیکن میں نے اب براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کے لئے ایک نجی سروس پرووائیڈر کی طرف رجوع کیا ہے کیونکہ بی ایس این ایل سروس بحال کرنے میں ناکام ہوئی ہے اور میں مزید انتظار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔
ذرائع کے مطابق بی ایس این ایل کی طرف سے سروس بحال کرنے میں مزید تاخیر کمپنی کے لئے گھاٹے کا سودا ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ صارفین دوسری کمپنیوں کی طرف تیزی کے ساتھ رجوع کررہے ہیں۔ ریلائنس جیو فائبر کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کے لئے ہزاروں کی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ زور شور سے جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ جیو فائبر اپنا نیٹ ورک جنگی بنیادوں پر نصب کررہا ہے اور بہت جلد سروسز شروع کرے گا۔
جموں وکشمیر میں اکثر موبائیل انٹرنیٹ صارفین وی پی این ایپلی کیشنز کا استعمال کرکے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور دیگر ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق انتظامیہ نے اگرچہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک صارفین کی رسائی کو روکنے کے لئے وی پی این ایپلی کیشنز کو بند کرنے کے لئے کوششیں جاری رکھی ہیں
تاہم سافٹ ویئر انجینئروں کا کہناہے کہ تمام وی پی این اپلی کیشنز کو بند کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن امر ہے۔سافٹ ویئر انجینئروں کا ماننا ہے کہ تمام وی پی این اپیلی کشنز کو بند کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بات ہے اور خریدی گئی
وی پی این اپلی کیشنز کو کسی بھی صورت میں بند نہیں کیا جاسکتا۔
جموں و کشمیر پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ وی پی این ایپلی کیشنز کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ ہم نے آپ سب کی سہولت کے لئے ٹو جی انٹرنیٹ بحال کیا ہے۔ رپورٹیں ہیں کہ ٹو جی کی بحالی کے بعد وی پی این ایپلی کیشنز کی برسات ہوئی ہے۔
محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ پرپی ایس اے کااطلاق جمہوریت کا ناقص قدم:پی چدمبرم
دہلی ،
بھارت کے سابق مرکزی وزیر داخلہ اور کانگریس کے رہنما پی چدمبرم نے جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ لگائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا دونوں رہنماوں پر پی ایس اے لگائے جانے سے وہ حیران ہیں۔
سابق بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا کہ الزامات کے بغیر نظربند رکھنا جمہوریت میں ایک بدترین عمل ہے، جب غیر منصفانہ قوانین منظور ہوجاتے ہیں یا ناجائز قوانین نافذ کیے جاتے ہیں تو لوگوں کے پاس پرامن احتجاج کرنے کے لیے کیا راستہ ہے؟
پی چدمبرم نے کہا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ احتجاج انتشار کا باعث بنے گا۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے منظور کردہ قوانین پر عمل پیرا ہونا پڑے گا، وہ مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا کی تاریخ اور متاثر کن مثالوں کو بھول گئے ہیں۔
جمعرات کو سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی اور عمر عبد اللہ کی چھ ماہ بعد گرفتاری ختم ہونے کو تھی لیکن حکومت نے ریاست کی سلامتی کا حوالہ دے کر ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ لگا دیا۔ محبوبہ نے اس سلسلے میں ٹویٹ کیا، اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلی پر سخت قانون پی ایس اے لگانے کی ہی اس خود مختار حکومت سے توقع ہے۔
واضح رہے کہ محبوبہ مفتی نے اپنے آفیشیل ٹویٹر ہینڈل سے ٹویٹ کیا ہے جسے نظر بندی کے بعد ان کی بیٹی التجا مفتی چلا رہی ہیں۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق کرناٹک کے شاہین اسکول والے واقعہ پر انہوں نے لکھا کہ یہ حکومت نو برس کے بچے پر غداری کا الزام عائد کرتی ہے، سوال یہ ہے کہ ہم کتنے زیادہ سمجھدار لوگوں کے لئے کام کریں گے جو قوم کے لیے کھڑے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کو منسوخ کیے جانے کے بعد سے ہی دونوں سابق وزرائے اعلی محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو نظر بند رکھا گیا ہے۔محبوبہ مفتی کی بیٹی نے لکھا کہ کشمیر کا خصوصی ریاست کا درجہ ختم کر اسے رہنے کے لیے جہنم جیسا بنا دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ 180 دن گزر جانے کے بعد بھی ہم بنیادی حقوق سے محروم ہیں، ہمیں معاشی اور نفسیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، حالیہ تخمینوں کے مطابق تجارت اور صنعت کو قریب 18 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اعداد و شمار 2014 میں جموں وکشمیر میں آنے والے سیلاب سے ریاست کی معیشت کو ہونے والے نقصانات سے تقریبا تین گنا زیادہ ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘بھارتی حکومت نے ہماری معیشت کی کمر توڑ دی ہے’۔انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت ہند کا دعوی ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کی بہتری اور معاشی خوشحالی کے لیے دفعہ 370 کو ختم کیا گیا تھا لیکن حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں، بدعنوانی اور انتشار بی جے پی کے لئے ایک ماڈل ہے لیکن یہ واضح ہے کہ ان کے پاس کمزور خیال کے فیصلے سے نکلنے کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔
کچھ سیاستدان بھارت کا کھاتے ہیں لیکن تعریفیں پاکستان کی کرتے ہیں: رویندر رینا
جموں ،
رویندر رینا نے کہا کہ سیاست دانوں کو ملک کی طرف سے سہولیات اور تحفظ ملا ہے لیکن ان کے باوجود وہ ملک مخالف پروپیگنڈہ میں شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ سیاستدان کھاتے بھارت کا ہے لیکن تعریفیں پاکستان کی کرتے ہیں۔
جموں میں آج بی جے پی کے صدر رویندر رینا نے تروکوٹا نگر میں واقعہ پارٹی دفتر میں پریس کانفرنس منعقد کی جس میں انہوں نے کہا کہ ملک سے غداری کرنے والوں کو ہرگز بخشا نہیں جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ غدار کسی بھی سیاسی جماعت یا طاقتور سیاسی خاندان سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو، غداری کی سزا موت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاست دانوں کو ملک کی طرف سے سہولیات اور تحفظ ملا ہے لیکن ان کے باوجود وہ ملک مخالف پراپیگنڈہ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ سیاستدان کھاتے بھارت کا ہے لیکن تعریفیں پاکستان کی کرتے ہیں۔کچھ سیاستدان بھارت کا کھاتے ہے لیکن تعریفیں پاکستان کی کرتے ہیں رویندر رینا نے کہا کہ عسکریت مخالف آپریشنز میں آرمی اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کی کامیابی سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ عسکریت پسندوں کے عزائم کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔
رینا نے اپنی بات مزید بڑھاتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ جموں و کشمیر کے حالات پر ازخود نظر بنائے ہوئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں بی جے پی صدر نے کہا کہ وادی کے گرفتار شدہ سیاستداں جموں و کشمیر میں نظم و نسق خراب کرنے کے پاداش میں فی الوقت گرفتار ہیں جبکہ ان کے بیانات جموں و کشمیر میں امن کو آگ لگانے کے مترادف ہیں۔انہوں نے کہا مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے جموں و کشمیر اور لداخ کی یکساں تعمیر ترقی کے لئے فنڈز واگزار کئے ہیں جس کے لئے وہ ان کے شکر گزار ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے طول وعرض میں شہید مقبول بھٹ اور افضل گورو کی برسی سے قبل سینکڑوں پوسٹرز چسپاں
9فروری اور 11فروری کو مکمل ہڑتال کی اپیل
سرینگر
مقبوضہ کشمیر میں نامور آزادی پسند رہنماشہید مقبول بھٹ اور افضل گورو کی برسی سے قبل سینکڑوں پوسٹرز چسپاں کیے گئے ہیں جن میں لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ان دونوں شہدا کی برسی کے دن بھارت کے خلاف ہڑتال کریں۔
یہ پوسٹر سری نگر، بڈگام، گاندربل، بارہ مولا، بانڈی پورہ،پلوامہ،شوپیاں اور دیگر اضلاع کی عام شاہراہوں اور گلیوں سمیت تمام اہم مقامات پر چسپاں کیے گئے ہیں۔
تحریک آزادی جموں و کشمیر، تحریک نوجوانان حریت اورتحریک وارثان شہدائے جموں و کشمیرکی طرف سے لگائے گئے پوسٹرز میں کشمیری عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ 9اور 11فروری کو مکمل ہڑتال کریں۔
پوسٹرز میں کہا گیا ہے کہ شہدائے کشمیر اور تحریک آزادی کے نامور شہید افضل گورو اور محمد مقبول بٹ کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جدوجہد جاری رہے گی۔کشمیری عوام بھارت اورہندوتوا کے کشمیر کے خلاف سازشوں اور گھناونے منصوبوں سے ہوشیار رہیں۔کشمیری عوام کو غیر کشمیریوں کو زمین اور جائیداد فروخت کرنے سے بھی اجتناب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ کیونکہ یہ بھارت کا کشمیریوں کی شناخت کو ختم اور بھارتی قبضے کو مضبوط کرنے کا منصوبہ ہے۔
افضل گرو کو 9 فروری 2013کو جبکہ آزادی پسند لیڈر مقبول بھٹ کو11فروری1984 کوبدنام زمانہ تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی ۔اور ابھی تک ان کے جسد خاکی ان کے ورثا کو نہیں لوٹائے گئے۔
بھارتی انتظامیہ نے سری نگر سمیت پورے مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد کو تعینات کردیا ہے۔
اس سے قبل پچھلے سال ستمبر میں وادی کی شاہراہوں اور گلیوں میں پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے پوسٹرز اور ہینڈبلز آویزاں کیے گئے تھے۔
بھارت کی طرف سے 5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی میں لاک ڈاون کی صورتحال ہے ۔
اے وی پڑھو
پاک بھارت آبی تنازعات پر بات چیت کے لیے پاکستانی وفد بھارت روانہ
لتا منگیشکر بلبل ہند
بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایمرجنسی الرٹ جاری