بابری مسجد کی زمین کے بدلہ تاج محل جیسی جگہ پر بھی کوئی جگہ مسجد کیلئے مل جاتی ہے تو وہ بھی ہمیں قبول نہیں ہے :مسلم پرسنل لا بورڈ
نئی دہلی:
نریندر مودی حکومت نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ کابینہ نے رام مندر کی تعمیر کے لئے ایک ٹرسٹ تشکیل دیا ہے۔
سنی وقف بورڈ نے تاریخی ایودھیا کے تنازعہ فیصلے میں مسلمانوں کو دیے جانے والی متبادل اراضی کا انتظام کرنے کے لئے فوری طور پر’انڈیا اسلامک کلچر ٹرسٹ کے نام سے ایک ٹرسٹ تشکیل دے دیا۔ تاہم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سنی وقف بورڈ پر زور دیا ہے کہ
وہ اس اراضی کو مسترد کرے جس کو اترپردیش حکومت نے ایودھیا ٹائٹل سوٹ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے حصے کے طور پر ایک مسجد کے لئے مختص کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئر ممبر کمال فاروقی نے بتایا کہ ہمیں پانچ ایکڑ اراضی کو قبول نہیں کرنا چاہئے خواہ وہ تاج محل کے مقام پر پیش کی جائے۔
یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے بدھ کو سپریم کورٹ کے 9 نومبر کے حکم کے مطابق لکھنو-ایودھیا شاہراہ پر واقع دھنی پور گاوں میں بابری مسجد کی جگہ سے تقریبا 25 کلومیٹر دور پانچ ایکڑ اراضی الاٹ کی تھی ۔
فاروقی نے کہا کہ اگر اس کمپلیکس کے اندر ہی زمین دی جاتی تو وہ بھی ہمیں قابل قبول نہیں ہوتی۔فاروقی نے کہا کہ
مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کیلئے سرکاری رقم کی ضرورت نہیں ہے۔ ہندوستانی مسلمان اتنے فقیر نہیں وہ مسجد تعمیر کرنے کی ضرورتوں کو پورا نہ کرسکیں۔
مسلمانوں کے پاس مسجد کی تعمیر کیلئے خاطرخواہ پیسہ ہے لیکن یہاں پر سوال انصاف کا ہے۔ مسلمانوں کے حق میں انصاف ہونا چاہئے۔
شیعہ وقف بورڈ کے چیرمین وسیم رضوی نے کہا کہ اگر اراضی دی جاتی ہے تو اس مقام پر ایک اور رام مندر تعمیر کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق بورڈ کے رکن عاملہ مولانا یاسین عثمانی نے کہا کہ سنی وقف بورڈ پوری مسلم کمیونٹی کا نمائندہ نہیں ہے۔ اگر یہ سرزمین حاصل کرلیتا ہے تو اسے ملک کے مسلمانوں کے فیصلے پر غور نہیں کرنا چاہئے۔
دہلی اسمبلی انتخابات سے محض تین دن قبل اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی نے بھی اس اعلان کے وقت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اویسی نے کہاکہ مسلم برادری نے 5 ایکڑ اراضی کی پیش کش کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے اور سنی وقف بورڈ کو بھی یہی کام کرنا چاہئے۔
ذرائع کے مطابق جمعیتہ العلمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہاکہ بابری مسجد کی جگہ سے دستبرداری ناممکن ہے۔ بابری مسجد قانون اور عدل و انصاف کی نظر میں ایک مسجد تھی اور آج بھی شرعی لحاظ سے مسجد ہے۔ اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی ،
چاہے اسے کوئی بھی شکل اور نام دیدیا جائے ، اس لئے کہ کسی فرد اور جماعت کو یہ حق نہیںہے کہ کسی متبادل پرمسجد سے دستبردارہوجائے۔
اے وی پڑھو
پاک بھارت آبی تنازعات پر بات چیت کے لیے پاکستانی وفد بھارت روانہ
لتا منگیشکر بلبل ہند
بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایمرجنسی الرٹ جاری