تیسری آگ اور ہنگامہ 1939 ءمیں برپا کیا گیا جب مسلمانوں کے کسی پیر نے اپنے مریدوں کے ہمراہ بقر عید کے دوسرے دن چوگلہ کے نیچے ہندوﺅں کے سامنے ایک گائے ذبح کر دی ، جس سے شہر بھر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے اور یہ سب بھی اُس وقت انگریز کی سرپرستی میں ممکن ہوا تھا۔ اس ہنگامے کے بعد چوگلے میں پہلی بار مورچے بنائے گئے ،
حالات پھر سے معمول پر آگئے لیکن ہندو مسلم کے بیچ منافرت کا پودا پروان چڑھتے چڑھتے تناوردرخت بن چکا تھا۔ ہمیں مسلمانوں کے علاقے میں جانے نہیں دیا جاتا تھا اور مسلمانوں کو ہندوﺅں سے نہیں ملنے دیا جاتا تھا، تاکہ یہ دونوں اکھٹے نہ ہو سکیں اور ایک دوسرے سے لڑتے رہیں ۔انگریزوں نے چوگلے پر مورچے بنا کر دونوں قوموں کو بظاہر یہی تاثر دیا کہ یہ امن کیلئے یقینی ہے مگر اس کے پیچھے اصل مقصد یہی تھا کہ ہند ومسلم کے درمیان دوریوں کو مزید بڑھاوا دیا جاسکے جس میں انگریز کامیاب رہا ۔
1947 ءوالی آگ مجھے ابھی تک یادہے ۔یہ ڈیرہ کی تاریخ کی سب سے بڑی آگ تھی۔ شاید اپریل کا مہینہ تھا۔ لوگ اپنے کاموں میں مشغول تھے کہ کہیں سے بلوائیوں کا گروہ وی بی سکو ل کی طرف آ نکلا ۔ سکول میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد انہوں نے ٹاﺅن ہال لائبریری کو آگ لگا دی اورپھر نعرے مارتا مشتعل ہجوم مشن سکول کی طرف مڑ گیا مگر پرنسپل کے سمجھانے بجھانے پرسکول کی عمارت کو نقصان پہنچائے بغیر یہ ڈگری کالج کی طرف نکل پڑے ۔
وہاں پر بھی توڑ پھوڑ کی گئی، کتابیں جلائی گئیںاور پھر بلوائی توپانوالہ گیٹ کی طرف بڑھ گئے ۔ ہنگاموں کی اطلاع ملتے ہی اُس وقت کے انسپکٹر پولیس مسٹر ہیلو نے اپنی نفری کے ساتھ بلوائیوں کوگھیرے میں لے لیا مگر وہ انہیں روکنے کی بجائے چپ چاپ بلوائیوں کے ساتھ چلتے رہے ۔مسٹر ہیلو کی سربراہی میں مشتعل ہجوم نے سب سے پہلے گنگا رام کے پلازہ سینما کو آگ لگائی ،ساتھ ہی کتابوں کی دکان تھی اسے بھی نذرِ آتش کر دیا ،اسی دوران انگریزفوج حرکت میں آگئی اور شہر میں کرفیو نافذ کردیا گیا،
مگر یہ اپنی نوعیت کا انوکھا کرفیو تھا جو صرف ہندوﺅں پر لگایا گیا تھا اورہندوﺅں کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ اپنی دکانیں بند کرکے گھروں میں بیٹھ جائیں ،گویا یہ ڈیرہ کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا جب بازار توپانوالہ سے پاوندہ سرائے تک کالے دھوئیں کے بادل بلند ہو رہے تھے۔
دھواں اتنا زیادہ تھا کہ آسمان پورا چھپ گیا تھا ،ہر طرف لوٹ مار مچی ہوئی تھی۔ اس آگ کے بعد ہندوﺅں کو ڈیرہ میں اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا اور وہ دھیرے دھیرے ڈیرہ چھوڑکرجا نے لگے۔کچھ ہندو اس امید میں بیٹھے تھے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا مگر چند ماہ بعد ہی تقسیم کا اعلان ہو گیا۔
اگست کے آخری ہفتے تک ڈیرہ شہر ہندوﺅں سے تقریباً خالی ہو چکا تھا، صرف پندرہ بیس گھرانے باقی بچے تھے جوبضد تھے کہ وہ اپنے وطن کو کسی حالت میں نہیں چھوڑیں گے اور ہمیشہ پاکستان میں ہی رہیں گے۔یہ ستمبر کا پہلا ہفتہ تھا ، پاکستان بنے تین ہفتے بیت چکے تھے ، پیچھے رہ جانے والے آ ٹھ دس ہندو گھرانوں کے سربراہ اپنی دکانیں کھولے بیٹھے تھے کہ ان سب کو دکانوں سے اتار کر وہیں مار دیا گیا۔
یہ وہ آخری واقعہ تھا جس کے بعد اِکا دُکا بچ جانے والے ہندو اپنا سب کچھ سمیٹ کر ڈیرہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ گئے اور وہ ہمارے پاس پٹیل نگر، راجندر نگر کے شرنارتھی کیمپوں میں آ ملے ۔ کچھ جے پور، ڈیرہ دون، متھرا، کان پور، اَلور،پانی پت، سونی پت اور ہری دوار چلے گئے، ا س طرح ہجرت کی خون آشام کہانی کا انت ہوا ۔لاکھوں مسلمان، ہندو اور سکھ انگریزوں کے منصوبے کی بھینٹ چڑھے۔
منوہر اسیجا نے تاریخ کا باب بند کیا ، کچھ لمحہ خاموش رہے اور پھر اپنے دونوں پوتوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولے: ”تقسیم کے بعد سرحد کے دونوں ا طراف پیدا ہونے والی نسل واقعی خوش قسمت ہے کہ اس نے اپنے پُرکھوں کی طرح ہجرت کا کرب نہیں سہا۔یہ نئی نسل دونوں دیشوں کا مستقبل ہے اور یہ ہم سب پر فرض ہے کہ ہم اپنی نسل کو بتائیں کہ وہ ہماری غلطیوں سے سبق سیکھیں اور اپنے اپنے دھرموں پر قائم رہتے ہوئے انسانیت کا احترام کریں اور امن کے دیپ جلائیں۔
میانوالی نگر میں جشن ِ دیوالی : مکیش اسیجا نے غازی آباد کے قریبی میٹرو اسٹیشن آنند وِہار پر اُتارتے وقت مجھے میانوالی نگر تک جانے کا راستہ سمجھا دیا تھا کہ آنند وِہار سے بلیو لائن والی میٹرو پکڑنی ہے، چھ سات ا سٹیشن گزرنے کے بعد کِیر تی نگر ا سٹیشن اُترنا ہے، وہاں سے گرین لائن کی میٹرو پر بیٹھنا ہے اور پیراں گڑھی اسٹیشن اتر کر سیدھامیانوالی نگر کی طرف چل پڑنا ہے ۔
دِلی کے مغرب میں میانوالی نگر کی تاریخ بھی تقسیم سے جڑی ہوئی ہے کہ جب مغربی پنجاب ، سندھ اور سرائیکی پٹی سے تاریخ کی سب سے بڑی انسانی ہجرت ہوئی تھی تب میانوالی سمیت مضافاتی علاقوں کے ہندو بھی بڑی تعداد میں اپنے گھر بار چھوڑ کر بھارت چل پڑے تھے۔
ڈیرے وال(ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان، پہاڑپور، کلاچی، ٹانک، بنوں)،ملتان، مظفر گڑھ،بہاولپور، علی پور، کوہاٹ، لیہ کے ہندوﺅں کی طرح میانوالی کی ہندو برادری نے بھی دریا خان، بھکر، پپلاں، کوٹلہ جام کے شرناتھیوں کو ساتھ ملا کر دِلی میں آل انڈیا میانوالی ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشن رجسٹرڈ کروائی تھی۔ میانوالی کمیونٹی ہر ماہ اُردو، ہندی، سرائیکی زبانوں میں میانوالی گزٹ کے نام سے ایک میگزین بھی شائع کرتی ہے ۔ڈاکٹر راجکمار ملک کے اجداد چونکہ کوٹلہ جام سے تھے اسی لئے انہوں نے بھی میانوالی نگر کو اپنا ٹھکانہ بنایا بلکہ وہ میانوالی، بہاولپوری اور ڈیرے وال سوسائٹیوں کے روح رواں سمجھے جاتے ہیں۔
پیراں گڑھی اسٹیشن اترنے سے پہلے راجکمار نے فون کرکے تفصیلی راستہ سمجھادیا اور میں اُن کے بتائے نشانات کے سہارے دس منٹ میںمیانوالی نگر کے گیٹ نمبر1 کے سامنے پہنچ گیا۔ پیلے رنگ کے آہنی دروازے پر پہلی نظرپڑتے ہی کسی سرکاری عمارت کا گمان گزراجو در اصل دِلی کے صاحب ثروت گھرانوں پر مشتمل ایک رہائشی کالونی تھی ،جس کے اطراف پرتعیش بنگلے تھے۔
آہنی دروازے کے دونوں پٹ بند تھے مگر چھوٹا دروازہ جان بوجھ کر کھلا چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ کالونی کے رہائشی اندر باہر آ جا سکیں ۔ ملک صاحب کی دعوت پر جب میں نے میانوالی نگر کے اندر قدم رکھا تو مجھے ہرگز اندازہ نہ تھا کہ یہاں چاروں طرف چراغ ہی چراغ روشن ہوں گے۔ جلتی بجھتی رنگین بتیوں سے سجی عمارتوں کی دہلیزوںپرٹمٹماتے مٹی کے دیے اور موم بتیوں کی مدھم روشنیاں دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ستاروں کی کہکشاں میانوالی نگر کے درودیوارپر اتر آئی ہے جس کی روشنی میں ساری کالونی پرستان معلوم ہو رہی ہے۔
جی ہاں یہ 23اکتوبر جمعرات کی شب، چراغوں بھری شام تھی جسے عرف عام میں دیوالی کہا جاتا ہے۔تھوڑا سا آگے چلنے پر دور سے ہی سفید شلوار قمیض میں ملبوس راجکمار گھر کی دہلیز کے ساتھ بنی کنکریٹ کی تھلی پر بیٹھے اپنی ہتھیلی پرمٹی کا جلتا دیا رکھے دیے کی لو پر نظریں ٹکائے بیٹھے تھے،اُن کے عقب میں بنی دیوار پر کئی دیے روشن تھے ۔ملک صاحب مجھے اندر بیٹھک میں لے گئے اور اہل خانہ سے تعارف کروایا۔ملک صاحب کی بیگم نے ذائقے دار آلو چاول پکا رکھے تھے۔چاول کھانے کے بعد چائے پیش کی گئی ۔اسی دوران اُن سے پوچھا۔ ملک صاحب اردگرد کی ساری کوٹھیاں خوب سجائی گئی ہیں،مگر آپ کی کوٹھی پر کوئی خاص چراغاں دیکھنے کو نظر نہیں آیا اور آپ بیٹھک میں بھی فقط ایک دیا جلائے بیٹھے ہیں، باہر بھی چند دیے جل رہے ہیں، اس کنجوسی کی خاص وجہ؟ راجکمار ہلکا سا مسکراتے ہوئے بولے۔ اندھارا مٹاون کیتے ہکو ڈِیو ا کافی ہوندے ( اندھیرا مٹانے کیلئے ایک ہی دِیا کافی ہوتا ہے)۔
اسی دوران دیوالی کے تیوہار کی مناسبت سے انہوں نے میرے علم میں گراں قدر اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ روشنیوں کے تہوار کو اصل میں دیپاولی کہتے ہیں۔ دیپ آولی یعنی جلتے دیپ، دیے،شمعیں،چراغ، موم بتیوں کی قطاریں۔دیوالی ہندو دھرم کے دو بڑے تہواروں میں سب سے بڑا تہوار مانا جاتا ہے۔رامائن کے مطابق ایودھیا کے شہزادے رام اور سیتا کو بن باس دیتے ہوئے جلاوطن کردیا گیاتھا۔ انہوں نے جنگلوں میں کئی برس گزاردئیے ، اسی دوران راون سیتا کو اٹھا کر لے گیا ، جس میں راون کو شکست ہوئی اور چودہ برس کے بن باس کے بعد رام اور سیتا اپنے وطن لوٹے تو ان کی آمد کی خوشی میں ایودھیا کے باسیوں نے دیے جلا کراستقبال کیا، اُسی دن سے دیوالی کی رسم چل نکلی،جو ابھی تک چلی آ رہی ہے۔دیوالی کی آمد سے قبل لوگ بڑے پیمانے پر شاپنگ کرتے ہیں۔گھروں کی مرمت ،تزئین و آرائش وزیبائش، رنگ روغن کیا جاتا ہے ۔ نئے کپڑے، کاسمیٹکس، چوڑیاں، مہندی، کھانے پینے کی اشیاءخریدنے کے علاوہ قریبی رشتے داروں میں تحفے تحائف اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔روشنیوں کے اس تہوار کو منانے کیلئے بڑی تعداد میں آتش بازی کا سامان بھی خریدا جاتاہے اور دیوالی والی رات دولت و خوشحالی کی دیوی لکشمی کی پوجا کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: دلی دل والوں کی (قسط 10)۔۔۔ عباس سیال
جاری ہے
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ