مئی 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کشمیر کی آزادی !۔۔۔ رؤف لُنڈ

جیسے خود ہمارے حوالے سے برِصغیر کے باسیوں کی برطانوی راج سے نکل کر امریکی سامراج میں لٹنے کی آزادی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔

ایک طبقاتی نظام میں معاشی ، معاشرتی اور سیاسی آزادی ، غلامی کی بد ترین صورت ہوتی ہے۔۔۔ غیر طبقاتی سماج ہی حقیقی اور سچی آزادی کی ضمانت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے اندر آزادی کی تلاش کی بات اور آزادی کی تلاش ایک بَلا کے منہ سے نکل کر دوسری بَلا کے منہ میں جانے کی آزادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ طبقاتی نظامِ زر پنپتا، پھلتا اور پھولتا ہی استحصال اور لوٹ کھسوٹ پر ہے تو اس نظام میں آزادی بھی صرف لوٹ مار اور استحصال کرنے والوں کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ سو اس نظام میں کسی محروم و مظلوم اور غلام کو کوئی بھی آزادی نصیب ہوتی ہے تو وہ سوائے لٹنے کی آزادی کے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ لُٹنے والا کوئی فرد ہو، طبقہ ہو، قوم ہو یا کوئی ملک اس کے کسی ایک لوٹنے والے کے قبضے سے نکل کر دوسرے کے قبضے میں جانے کے ناٹک کو آزادی کے خوشنما لفظ سے منسوب کیا جاتا ہے۔۔۔۔

جیسے خود ہمارے حوالے سے برِصغیر کے باسیوں کی برطانوی راج سے نکل کر امریکی سامراج میں لٹنے کی آزادی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ برصغیر کے برطانوی راج کی غلامی کے سو سالوں میں یہاں کے عام لوگوں اور عوام کا جو استحصال ہوا تھا۔ برطانوی راج سے نکل کر امریکی سامراج میں اس سے ہزار گُنا زیادہ استحصال گذشتہ بہتر تہتر سالوں میں ہو چکا ہے جو روز بروز ایک نئی سے نئی اور مزید سے مزید شدت کیساتھ جاری بھی ہے۔۔۔۔۔

ایسے حالات میں کسی بھی غلام، مجبور، مقہور اور مظلوم فرد، قوم ،خطے اور ملک کا آزادی کی خواہش کرنا اور اس آزادی کی جدوجہد کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔ اس لئے آزادی کے اس حق کے حصول کی خواہش کو تاریخِ انسانی میں نہ آج تک کے آقا چھیننے میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ آئیندہ کبھی ہو سکیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کا دن چونکہ کشمیر کی آزادی کیساتھ یکجہتی سے منسوب ہے تو اس موقع پر ہم برملاء کشمیر سمیت دنیا بھر کی تمام محروم اور مظلوم قومیتیوں کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں، مگر مشروط حمایت۔ یعنی ایسی آزادی کی حمایت کہ جس کے پیچھے کسی بھی استحصالی قوت کی بندر بانٹ اور محض ایک استحصالی قوت سے دوسری استحصالی قوت کے قبضہ حاصل کرنے کی سوچ نہ ہو۔ ایسی آزادی کہ جیسا کشمیری خود چاہیں۔ اور کشمیر سے مراد پورا کشمیر ہے۔ وہ کشمیر جسے پورے برِصغیر کیطرح چیر کر اس کے حصے بخرے کردئیے گئے تھے۔
کشمیر کی آزادی کے عمل اور خواہش میں انڈیا، چین اور پاکستان کو تھانیدار بننے کی بجائے ان ممالک کا فرض بنتا ہے کہ وہ سارے کشمیر اور کشمیر کے سارے لوگوں کو یہ حق اور اختیار تفویض کریں کہ کشمیر کے لوگ خود فیصلہ کر سکیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اور پھر کس کو پتہ نہیں کہ سارے کشمیر کا سب سے معتبر اور محترم نعرہ ہے کہ سارا کشمیر ، کشمیریوں کا ۔۔۔۔۔۔۔

سو آج ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیر کے پہاڑ ہوں یا وادیاں، ندی نالے ہوں یا دریا، برف پوش چوٹیاں ہوں یا آبشاریں اور کشمیر کی فصلیں ہوں یا معدنیات ان کے مالک صرف اور صرف کشمیر کے قطعی اکثریتی محنت کش طبقے کے طلباء، کسان اور مزدور ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور رہے خود کشمیری ؟ وہ کشمیری کہ جن کے بدن استحصالی قوتوں کے آئے روز کے ہر قسم کے حملوں سے چھلنی ہیں۔ جن کی جذبے ، خواہشیں، امنگیں اور آدرش اب تک مقید ہیں۔ جنکی نسلیں برباد اور عصمتیں تار تار ہو چکی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ان سے بڑھ کر کس کو پتہ ہے کہ جب گھوڑے اور گھاس کی دوستی نہیں ہو سکتی تو اسی طرح طبقاتی نظامِ سرمایہ و استحصال کو جڑ سے اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ سماج قائم کئے بغیر ایک حقیقی اور سچی آزادی بھی محض خیال است ، محال است و جنون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: