ان دنوں کی بات ہے جب قومی اسمبلی میں آئین میں اٹھارویں ترمیم کی منظوری کا عمل جاری تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پاکستان آج ہی بنا ہو، ملکی تاریخ سے جہاں آمریت کے دور میں لگنے والے داغ دھوئے جارہے تھے وہیں پر مستقبل میں ملک کو جمہوری ٹریک پر رکھنے کی منظرکشی بھی ہورہی تھی۔
جس رفتار اور جذبے سے ”سب اچھا” ہو رہا تھا ہمارے دل کی دھڑکنیں اس کا ساتھ نہیں دے پارہی تھیں۔
آئین وہ دستاویز ہے جو کسی ملک کے چلانے کے اصولوں اور قواعد پر مشتمل ہوتا ہے جس کے تحت اس ملک کے معاملات کو چلایا جاتا ہے۔
اس وقت آئین میں جو تبدیلی کی گئی اس کے تحت اب کوئی آمر ملک کے آئین کو پامال کرکے ملک پر قبضے کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔ ملکی آئین کی پامالی کے جرم میں جیسے جنرل ضیاء الحق مرحوم کا نام سابق صدور کی فہرست سے نکالا گیا اور جنرل پرویزمشرف کی سترہویں ترمیم اور لیگل فریم ورک آرڈر کو بدلا گیا اور اعلی عدلیہ کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ کسی آمر کی جانب سے حکومت پر قبضے کے کسی اقدام کو قانونی تحفظ نہیں دے سکے گی، اس نے ہمارا سر فخر سے بلند کردیا۔
جیسے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے شمال مغربی سرحدی صوبے کو باضابطہ خیبر پختونخوا کا نام دیا، جیسے انہوں نے اسمبلیاں ختم کرنے کے اپنے اختیار کو سرنڈر کیا، وزیراعظم کو جس طرح ملک کا چیف ایگزیکٹو بنایا گیا اور گورنرز، سروسز چیفس اور چیئرمین پبلک سروس کمیشن کو لگانے کیلئے جس طرح وزیراعظم کا مشورہ لازمی قرار دیا گیا،
مشترکہ مفادات کونسل کا چیئرمین وزیراعظم کو بنا کر اسے باضابطہ اختیار دیا گیا اور جس طرح نیشنل فنانس کمیشن میں وسائل کی تقسیم میں وفاق کے مقابلے میں صوبوں کا حصہ بڑھایا گیا اور کنکرنٹ لسٹ کو جیسے ختم کیا گیا اس نے ہمیں احساس دلایا کہ وہ سحر جس کا انتظار تھا وہ نمودار ہوگئی ہے۔
یہی پر ہمیں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے کردار پر رشک آیا اور ان کی بات سمجھ آگئی کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور معاملے کو روکنے کی بجائے آگے بڑھنے دینا چاہئے۔لیکن یہ فخر کرتے کرتے ہم یہ بھول گئے تھے کہ ہماری تمام تر سیاست اور سمجھ بوجھ بس یہی تک محدود تھی کہ کسی طریقے سے یہ مقاصد حاصل کئے جاسکیں اور جیسے ہی ان پر عمل کا وقت آیا تو وہ حقوق جو ہم نے ”آمروں” سے چھینے تھے جیسے ہی ہمارے ہتھے چڑھ گئے
ہم میں خود ان ”آمروں” کی روحیں حلول کر گئیں جیسے بعد میں منتخب ہونے والے ہر حکمران میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف درآیا ہو، وہ جرنیل جن سے شکوہ تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی کی حکومت اور جمہوریت چلانے کیلئے اپنی خواہش کے مطابق سیاستدان میدان میں اُتارے اور انہیں کامیاب کیا،
جب بھی جی چاہا آئین کی شقوں کو پامال کیا، وہیں سب ان کے نام نکالنے کے بعد پھر شروع ہوا، کھیل ویسے کا ویسا ہی چلتا رہا، جو بھی حکمران آیا اس کو اتنا ہی نظرآیا جہاں تک ان کی ناک تھی۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد فنڈ اور اختیار تو صوبوں کے پاس آگیا لیکن ساتھ ہی انہی صوبوں میں آمروں کی روحیں جمہوری حکمرانوں میں آگئیں، ان جمہوری اور منتخب حکمرانوں میں سے ہر ایک نے وفاق سے این ایف سی میں اپنا حق تو لیا لیکن یہ حق ملتے ہی اس پر ناگ کی طرح بیٹھ گیا،
صوبے کو وفاق سے تو حقوق ملے لیکن پھر صوبے سے یہ حق اضلاع کو منتقل نہ کئے جاسکے۔ ہاں ان دس سالوں میں وہ اضلاع جہاں پر حکمران جماعتوں کے وزراء اعلی رہے یا اہم وزیر ومشیر، گورنر وسپیکر وہ سب اضلاع نوازے گئے،
ان پر فنڈز کی بارشیں ہوئیں، کہیں کہیں تو اضلاع میں فنڈز آئے بھی لیکن وہ بھی صوبوں کی طرح پھر تحصیلوں اور یونین کونسلوں کی سطح تک ”اپنوں” کو ہی ملے اور یہی وہ وقت تھا جب پتہ چلا کہ پارلیمنٹ کے اونچے ایوانوں میں جمہوریت کی بالادستی کیلئے ہونے والے فیصلے اس وقت تک ثمربار نہیں ہوتے جب تک وہ عام آدمی اور پارٹی کارکن کی سطح تک سرائیت نہ کرجائیں ورنہ ایسا ہی ہوتا رہے گا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تو اہم قوانین آئین کا حصہ بنیں گے لیکن بعد میں یہی قوانین بااختیار لوگوں کے پیروں تلے روندتے چلے جاتے رہیں گے۔
اس روئیے میں تبدیلی کی ذمہ داری بھی سب سے زیادہ تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے کہ وہ صوبوں، ضلعوں، تحصیلوں اور یونین کونسل کی سطح پر احساس محرومی کو جنم دینے سے روکے۔ اس حکومت نے تو ہمیشہ سابق حکومتوں کو طرزحکمرانی اور جمہوری رویوں کیلئے تنقید کا نشانہ بنایا تھا ایسے میں ان سے بجا طور پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ان معاملات کے راستے میں ایسے فلٹر متعارف کرائیں کہ آئندہ بھی کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔دوسری جانب خیبر پختونخوا کی بجلی اور پانی تو پنجاب کو جا رہا ہے لیکن پنجاب کا آٹا اس صوبے میں آتے ہوئے رکاوٹوں کی نظر ہو جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کی بجلی کو نیشنل گرڈ میں تو ڈالاجاتا ہے لیکن جب اس کے باسیوں کو بھوک لگتی ہے تو پنجاب کے آٹے کو یہاں نہیں آنے دیا جاتا۔
خیبر پختونخوا میں آج کل گلی اور محلے کی سطح تک یہ بات کی جاتی ہے کہ جب یہاں کے لوگوں نے عمران خان کی جماعت کو دوسری بار حکومت کا موقع دیا تو پھر کیوں نہ انہیں جواب میں ایسی ہی شفقت بھی نصیب ہو؟ یہاں تک کہ اب تو صوبے کے برطرف وزراء کے حوالے سے بھی لوگ کھلے عام یہ بات کرتے ہیں کہ جب وزرا کے احتساب کا عمل شروع کرنا تھا تو یہ صرف خیبر پختونخوا تک ہی کیوں محدود رہا اور پنجاب میں ایسا کوئی اقدام کیوں نہیں کیا گیا۔بات پھر وہی پر آکر ٹک جاتی ہے کہ اٹھارویں ترمیم ہو یا کوئی بھی اور قانون سازی ہو اس کا فائدہ تب ہی ممکن ہوگا جب اس کا فائدہ عام آدمی کو پہنچے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ