ایک روز میں بیجنگ میں چند چینی نوجوانوں کے ساتھ بیٹھا تھا اور وہ فر فر اردو بول رھے تھے میں نے ان سے اردو سیکھنے کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے اگر آپ پڑوسی ممالک کی زبانیں نہیں جان سکتے تو آپ ان سے خوشگوار تعلقات قائم کر سکتے ہیں نہ تجارت کر سکتے ہیں ہم چینی لوگ تمام پڑوسی ممالک کی زبانیں سیکھتے ہیں اور وہاں کاروبار کرتے ہیں۔
میرے پیروں کےنیچے زمین نکل گئی کیونکہ ہم تو اپنے چاروں صوبوں کے لوگوں کی زبان سے نا آشنا ہیں۔خیر میرے دل میں ایک آرزو پیدا ھوئی کہ میں پاکستان کے اردگرد کے ممالک جا کے ان کا کلچر اور زبان دیکھوں۔ اللہ پاک بڑا مسبب الاسباب ھے اس نے میری یہ خواہش پوری کی اور میں ایک ایک کر کے سارے پڑوسی اور کئی دوسرے ملک دیکھ آیا۔
ایک ڈیوٹی کے سلسلے جب تہران گیا تو وہاں قسم قسم کی چیزیں دیکھنے کا موقع ملا۔ وہاں کی کچھ یادیں ذھن میں نقش ھو گئیں۔
پاکستان اور ایران کے تعلقات بہت پرانے اور گہرے ہیں۔پاکستان کے قیام کے بعد ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو ایک آذاد ملک کے طور پر تسلیم کیا۔
اسی طرح شاہ ایران پہلا سربراہ مملکت تھا جس نے پاکستان کا 1950ء میں دورہ کیا۔ پاکستان اور ایران سیاسی۔اقتصادی اور دفاعی سطح پر تعاون بڑھانا چاھتے ہیں اور بھت سے معاملات میں ہم آہنگی پائی جاتی ھے۔ ایران میں 125 بلین بیرل کے تیل کے ذخائر ہیں۔ پاکستان کے بلوچستان کے بارڈر گاوں کے لئے پاکستان بجلی بھی ایران سے خریدتا ھے۔
ایران قدیم تہذیب و ثقافت کا حامل ایک بڑا ملک ھے ۔فارسی میں ایران لفظ کا مطلب ھے ۔۔آرین کی سرزمین۔۔۔۔اس کا دارالخلافہ تہران بہت پرانا شھر ھے۔ تہران آجکل تو بھت جدید عمارتوں ۔ھوٹلوں۔پارکوں اور ریسٹورانوں کا شھر ھے مگر تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کی شکل مختلف تھی۔
شروع میں اس شھر کے اردگرد دروازے بناۓ گئیے تھے اور صرف ان دروازوں سے شھر میں داخلہ ممکن تھا۔ ان دروازوں کی اہمیت دفاع اور سیکورٹی کو مستحکم رکھنا تھی۔ ان دروازوں میں ایک کا نام مشیران تھا۔ ان دروازوں کے اردگرد خندقیں کھود کر اس میں پانی چھوڑ دیا جاتا تھا۔
اور ان کو عبور کرنے کے لئیے لکڑی کے پل بنائے جاتے تھے۔آج ان خندقوں اور ان میں چھوڑے گئیے پانی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔لیکن لکڑی کے پلوں کی نسبت سے اب بھی اس جگہ کو پل چوبی یعنی لکڑی کے پل کہا جاتا ھے۔تہران کے محلوں اور گلیوں کے نام بھی کسی تاریخی واقعات کی نسبت رکھے گئیے ہیں۔تہران کے بازار جدید اور نایاب سامان سے بھرے پڑے ہیں ۔خوبصورت قالین۔
جیولری۔رنگ برنگے برتن اور الیکٹرانک ہر سامان افراط سے مل جاتا ھے۔اگر آپ نوادرات کے شوقین ہیں تو جمھوری سٹریٹ میں جمعہ بازار لگتا ھے جہاں قدیم تاریخی چیزیں فروخت ھوتی ہیں۔تاجرش بازار جدید سامان کی مارکیٹ ھے اور وہاں کباب ریسٹورنٹ اور ٹی ہاوس سیاحوں کی پر کشش جگہ ھے۔
ایران کا میوزیم تو انسان کی غاروں میں رھنے والی تیس ھزار سال پرانی تاریخ سے متعلق بعض اشیا اور نمونے سنبھال کے رکھے ہوئے ھے۔ تہران میں ایک خوبصورت میلاد ٹاور بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ھے جسے برج ء میلاد بھی کہتے ہیں۔
یہ ٹاور 435 میٹر بلند ھے اور دنیا کاچھٹا بلند ترین ٹاور تصور کیا جاتا ھے ۔یہ 2007 میں مکمل ھوا تھا۔ اس کے اوپر ایک ریوالونگ ریسٹورینٹ بنایا گیا ھے جس سے آپ پورے شھر کا نظارہ کرتے ہیں۔تہران کے مشرقی طرف پارک میں ایک اور آذادی ٹاور بھی الٹی y کی شکل میں 1971ء میں ایرانی شھنشاھت کی 2500 سالہ تاریخ کی یاد میں بنایا گیا تھا جس کے بیسمنٹ میں میوزیم بھی ھے۔
تہران کی خوبصورتی میں جمشیدیاہ پارک بڑی اہم حیثیت رکھتی ھے ۔البورز پہاڑ کے دامن میں سر سبز و شاداب یہ پارک حسن کا نمونہ ھے جب سردیوں میں پہاڑ پر برف پڑتی ھے تو یہ پارک بھت سندر معلوم ھوتی ھے اتفاق سے میں جب تہران گیا تو اس وقت بھی برف پڑی ھوئ تھی۔
تہران کے گرینڈ بازار سے نکلیں تو آپکو ایک گلستان محل نظر آتا ھے جو انیسویں صدی میں قاچار بادشاھوں کی رہائش گاہ تھی۔ اس میں سترہ عمارتیں ہیں۔ باغات۔تخت کا کمرہ۔مہمان خانہ۔بادشاہ کی رہایش گاہ ۔میوزیم۔اس محل میں ماربل کا بہترین کام کیا گیا ھے۔
اب آپ کو وہ اہم باتیں بتاتا ھوں جو وہاں کے دانشوروں سے سنی وہ یہ ہیں1۔۔۔۔۔۔ہماری اصلیت وہ نہیں ھوتی جو بتاتے ہیں۔بلکہ وہ ھوتی ھے جو چھپاتے ہیں۔۔۔۔۔2….خواب اور حقیقت کے بیچ جو فاصلہ ہوتا ھے اسے عمل کہتے ہیں۔۔۔۔3…..اخلاق ایک دکان ھے اور زبان اس کا تالا ھے تالا کھلتا ھے تو معلوم ھوتا ھے کہ دکان سونے کی ھے یا کوئلے کی۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ