نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

1فروری2020:آج ضلع مظفر گڑھ میں کیا ہوا؟

ضلع مظفر گڑھ سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں ،تبصرے اور تجزیے۔

کوٹ ادو(تحصیل رپورٹر)

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آب گاہوں کا عالمی دن آج منایا جا ئے گا،اس دن کے منانے کا مقصد لوگوں میں آب گاہوں سے متعلق معلومات، ان کو لاحق خطرات اور ان کی حفاظت کے مختلف طریقوں کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے،

وزارت ماحولیات کے پاکستان ویٹ لینڈز پروگرام کے تحت اس حوالے سے مختلف انواع کے پروگرام ترتیب دئے جاتے ہیں،

ان پروگراموں میں پاکستان ویٹ لینڈ پروگرام کے مطابق پاکستان میں پائی جانے والی آب گاہیں مختلف خطرات کی وجہ سے انحطاط کا شکار ہیں،

آب گاہوں اور ان سے ملحقہ علاقوں کا دوسرے مقاصد کے لیے استعمال، دریاوں پر بند باندھے جانے اور پانی کے بہاو میں تبدیلی،

نامیاتی اور غیر نامیاتی کثافت، ان علاقوں میں درختوں کی کٹائی سے ان کے ختم یا کم ہونے کا خطرہ لاحق ہے،


کوٹ ادو

نو منتخب نمائندوں کا یونیورسٹی کا وعدہ پورا نہ کرنے پر تحریک یونیورسٹی کوٹ ادو کا پریس کلب کوٹ ادو کے سامنے منتخب نمائندوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ،

تحصیل کوٹ ادو پسماندہ ترین تحصیل آبادی کے لحاظ سے یونیورسٹی ہمارا حق ہے، مظاہرین کا مطالبہ،مظاہرہ سے مین شاہراہ بلاک ہو گئی،مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے جن پر یونیورسٹی دینے کا مطالبہ درج تھا،

مظاہرین نے ”ساڈا حق ایتھے رکھ“لیکر رہیں گے یونیورسٹی کے نعرے بھی لگائے،اس بارے تفصیل کے مطابق تحریک یونیورسٹی کوٹ ادو کے زیر اہتمام پریس کلب کوٹ ادو کے باہر مظاہرہ کیا گیا

حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے سرپرست تحریک ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ کا کہنا تھا کہ کوٹ ادو پنجاب کی پسماندہ ترین تحصیلوں میں شمار ہوتی ہے ہمارے نوجوان باشعور ہو چکے ہیں ہم نے یونیورسٹی کے لیے آواز اٹھائی تو الیکشن میں تمام امیدواران نے اسے منشور کا حصہ بنایا

لیکن ایوان میں پہنچنے کے بعد یہ اپنا وعدہ بھول گئے ہم ان کو وعدہ یاد دلانے آئے ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق تعلیم ہر شہری کا حق ہے،ضلع مظفرگڑھ پنجاب کا سب سے بڑا ضلع ہے جہاں یونیورسٹی کی اشد ضرورت ہے،

انہوں نے کہا کہ منتخب نمائندوں نے تبدیلی کے نعرے پر ووٹ لیا تھا اور کوٹ ادو یونیورسٹی ان کے منشور میں شامل تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے ووٹ لئے تھے،منتخب ہونے کے بعد وہ نالی سولنگ کی سیاست میں پڑ گئے ہیں

خدا کیلئے نالی سولنگ اور سلفی کی سیاست سے نکل کر عملی کام پر توجہ دیں اور اسمبلی میں اس کیلئے آواز بلند کریں،انہوں نے کہا کہ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ منتخب نمائندوں نے تعلیم پر آج تک توجہ نہ دی،انکی سیاست صرف تھانہ کچہری تک محدود ہے،

انہوں نے کہا کہ حکومت نے وہاں پر دوبارہ یونیورسٹیاں بنانے کا علان کیا ہے جہاں پہلے سے یونیورسٹیاں موجود ہیں جبکہ ان کے علاقہ کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اب وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے اور یونیورسٹی منظور نہ ہونے تک آواز بلند کرتے رہیں گے،

انہوں نے ضلع مظفرگڑھ سمیت تحصیل کوٹ ادو کے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حسہ لیں،اس موقع پہ وائس چئیرمین بیت المال کاشف ممتاز گشکوری، نوجوان کالم نگار رضوان ظفر گورمانی، امیدوار چئیرمین یو سی پتل شہباز غوث بخاری،

وکیل رہنما طیب طاہر پتل اور صدر تحریک آصف رضا چانڈیہ ایڈوکیٹ نے بھی خطاب کیا،سرائیکی شاعر نواب مضطر گورمانی نے یونیورسٹی کے حوالے سے اپنا کلام سنایا، حاضرین نے یونیورسٹی نہ ملنے تک احتجاج کا حق استعمال کرنے کے عزم کا اعادہ کیا،

اس موقع پہ تحریک کے عہدیداران کاشف گورمانی، عتیق احمد، قاضی وقاص اور مدنی بلوچ سمیت ریاض خان گورمانی، عبداللہ سرویا،محمد عمران،احسان دانش،نعیم شہزاد،مہر انصر،مہر الطاف،عبداللہ مشوری،چودھری وقاص،مقصود چانڈیہ،

عمران چانڈیہ،سلمان بشیر، ملک الطاف کھر،محسن کہتر اور باصر لاڑ سمیت دیگر موجود تھے،مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے جن پر یونیورسٹی دینے کا مطالبہ درج تھا،مظاہرین نے ”ساڈا حق ایتھے رکھ“لیکر رہیں گے

یونیورسٹی کے نعرے بھی لگائے،مظاہرہ سے مین شاہراہ بھیبلاک ہو گئی جس سے ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوئی اور لوگوں کو آنے جانے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا.


کوٹ ادو

چوری کے مقدمہ میں مقید ملزم کی حوالات میں گلے پر آہنی پتری پھیر کر خودکشی کی کوشش،طلاع پر زخمی ملزم کو ہسپتال داخل کرادیا گیا،

مقدمہ بھی درج،اس بارے تفصیل کے مطابق تھانہ چوک سرور شید میں گوندل پورہ گجرات کا رہائشی ناظم شہزاد لودھی چوری کے مقدمہ 508/19زیر دفعہ379میں قید حوالات تھا کہ

گزشتہ شب غسل خانہ کے اندر رکھی پانی کی ترسیل والی پتری اپنے گلہ پر پھیر لی،جس سے ناظم شہزاد کے گلے سے خون جاری ہوگیا،

حوالات میں بند دیگر ملزمان نے پولیس کو اطلاع کی، پولیس نے زخمی ملزم ناظم شہزاد کو حوالات سے نکال کر ہسپتال میں داخل کرادیا جہاں اس کا علاج جاری ہے،

پولیس چوک سرور شہید نے ملزم ناظم شہزاد کے خلاف دوسرا مقدمہ اقدام خود کشی مقدمہ نمبر47/20زیر دفعہ325درج کرلیا ہے،


کوٹ ادو

ڈکیتی کے مقدمہ میں مطلوب اشتہاری کو بھگانے پر بھائی کے خلاف مقدمہ درج،پولیس نے شراب فروش بھی دھر لیا،بھاری مقدار میں دیسی شراب برآمد،

پولیس نے دونوں مقدمات درج کرلئے،اس بارے تفصٰل کے مطابق پولیس سنانواں نے ڈکیتی کے مقدمہ میں مطلوب شاہ صدر دین کے رہائشی عبدالغفار عرف عابد لشاری کی گرفتاری کیلئے چھاپہ مارا

تو اس کے بھائی شاکر لشاری نے اسے بھگا دیا،پولیس نے شاکر لشاری کے خلاف مقدمہ درج کرلیا،جبکہ پولیس محمود کوٹ نے دوران گشت شراب فروش موضع زور کے رہائشی منیر احمد مشوری کو

گرفتار کرکے اس کے قبضہ سے30لیٹر دیسی شراب برآمد کرلی،پولیس سرکل کوٹ ادو نے دونوں واقعات کے الگ الگ مقدمات درج کرکے مقدمات کی تفتیش شروع کردی ہے،


خادم حسین کهر کوٹ ادو

کوٹ ادو یونیورسٹی بناو تحریک ریلی

یونیورسٹی بناو تحریک کے پلیٹ فارم سے آج کوٹ ادو میں پرامن ریلی نکالی گئ .ریلی میں سیکڑوں شرکاء کا ایک ہی مطالبہ تها کوٹ ادو میں حکومت کی طرف سے یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے

یونیورسٹی بناو تحریک کا آگاہی مہم کا آغاز کیا گیا جس کی شروعات سرپرست اعلی ڈاکٹر عمر فارق بلوچ ,تحریک صدر ایڈووکیٹ آصف رضا چانڈیہ چیئرمین کاشف گرمانی ,وائس چیئرمین قاضی وقاص نے بینرز پر دستخط کر کے کی.

سرپرست اعلی ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ,ایڈووکیٹ آصف رضا چانڈیہ چیئرمین کاشف گرمانی کی قیادت میں کالی پل کوٹ ادو سے پریس کلب کوٹ ادو تک سینکڑوں طلباء کی موجودگی میں ریلی نکالی گئ

جس میں سیاسی و سماجی شخصیات، وکلاء اور صحافی برادری کے علاوہ شہریوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ، اور یونیورسٹی تحریک کی جدوجہد کو سراہا اور حمایت کا اعلان کیا

تحریک کے عہدے دراوں نے خطاب میں کہا موجودہ حکمران نالی ، سولنگ کی سوچ سے نکل کر کوٹ ادو میں یونیورسٹی لانے کے لیے قدم اٹھائیں اور پڑها لکھا کوٹ ادو کیلیے ہمارا ساتھ دیں
اگر کوٹ ادو میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں نہ لایا گیا

تو احتجاج کا دائرہ کار بڑھا دیا جائے گا,اور ہم ہر پلیٹ فارم پر اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کریں گے
ریلی کے اختتام پر

صدر ایڈووکیٹ آصف رضا چانڈیہ چیئرمین کاشف گرمانی اور وائس چیئرمین قاضی وقاص نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

About The Author