مقبوضہ کشمیر:
بی ایس ایف کو جلد ہی جموں و کشمیر سرحد کے لئے اینٹی ڈرون سسٹم مہیا کیا جائے گا
جموں،
مقبوضہ کشمیرمیں جموں سمبا کٹھوعہ بیلٹ میں آئی بی کے ساتھ ہی عنقریب اینٹی ڈرون سسٹم لگائے جائیں گے۔ ایک عہدیدار نے بتایا کہ ابتدائی طور پر جموں کی حدود میں پانچ سے چھ سسٹم نصب کیے جائیں گے۔
ایک سینئر افسر نے پیر کی رات بتایاکہ جموں و کشمیر میں 200 کلومیٹر طویل بین الاقوامی بارڈر (IB) کی حفاظت کرنے والے بی ایس ایف کے دستے عنقریب اینٹی ڈرون سسٹم سے مسلح ہوجائیں گے ۔
یہ سسٹم ریچارج ایبل بیٹریوں پر چلے گا ۔
منگل کے روز ایک اور عہدیدارنے بتایا کہ فورس ان سسٹمز کو سنبھالنے کے لئے فوجیوں کو تربیت بھی دے رہی ہے۔
گذشتہ سال اکتوبر میں ، بی ایس ایف نے ‘اینٹی ڈرون سسٹم’ کے حصول کے لئے ایکسپریشن آف ایسوسی ایشن جاری کیا تھا۔
اس سے قبل سات جنوری کو ذرائع نے خبر دی تھی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پولیس کو نگرانی کے نظام کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے بغیر پائلٹ کی فضائی گاڑیاں (یو اے وی)اور مزید سی سی ٹی وی کیمرے فراہم کئے جارہے ہیں۔
اگلے چند دنوں میں ان کی خریداری کا عمل مکمل ہونے کے قریب ہے۔
مختلف قسم کے ایک سو سے زیادہ یو اے وی یا ڈرون اور 116 کروڑ روپے مالیت کے ہزاروں سی سی ٹی وی کیمرے جلد خریدے جارہے ہیں جبکہ لیز پر ہیلی کاپٹر حاصل کرنے کی کارروائی بھی جاری ہے۔
جنوری کے شروع میں سرکاری ذرائع نے بتایا تھا کہ مختلف خصوصیات کےUAVs کے لئے بولی موصول ہونے کے بعد تکنیکی پڑتال کا عمل جاری ہے اور امکان ہے کہ اس ماہ کے آخر تک کامیاب بولی دہندگان کو خریداری کا آرڈر دے دیا جائے گا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ جموں و کشمیر بھر میں سب ڈویژنل پولیس آفیسر کی سطح پر مختلف کیپیسٹی کے 100 سے زیادہ یو۔ اے۔ وی خریدے جائیں گے اور انہیں انسداد دہشت پسندی کی کارروائیوں اور امن و امان سے نمٹنے کے لیے سب ڈویژنل پولیس آفیسر کی سطح پرفراہم کیا جائے گا۔ القمرآن لائن کے مطابق ہر یو اے وی کی قیمت اس کی خصوصیات پر منحصر ہوگی ،
جیسے پے لوڈ، درستگی ، فلائٹ ٹائم وغیرہ جبکہ ماہرین ان ڈرونز کو چلانے کے لئے اہلکاروں کے ایک گروپ کو تربیت دیں گے۔
جموں و کشمیر پولیس اب تک ڈرون کے استعمال کے لیے آرمی یونٹوں سے مدد لیتی تھی ۔ جنگل کے علاقوں میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے فوج وادی کے مختلف علاقوں اور لائن آف کنٹرول پر کچھ برس سے یو اے وی کا استعمال کررہی ہے۔
فوج نے کشمیر کے مختلف علاقوں خصوصا جنوبی کشمیر میں مقابلوں کے دوران چھوٹے یو اے وی کا استعمال بھی کیا ہے۔ذرائع کے مطابق ذرائع نے مزید بتایا کہ جموں و کشمیر پولیس نے 116 کروڑ روپے کے سی سی ٹی وی کیمرے کے حصول کے لئے ٹینڈرز بھی طلب کیے ہیں۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ ممکنہ طور پر ٹینڈرز اس ہفتے کھول دیئے جائیں گے اور تکنیکی جانچ پڑتال کے بعد خریداری کا آرڈر کامیاب بولی دہندہ کو دیا جائے گا۔
ذرائع کی وضاحت کے مطابق ، یہ سی سی ٹی وی کیمرے کسی تخریب کاری سے بچنے کے لئے چوبیس گھنٹے نگرانی کے لئے تمام حساس مقامات پر لگائے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی خریداری کے علاوہ ، جموں و کشمیر پولیس نے طبی ہنگامی صورتحال اور انخلا کے دوران ہوائی نگرانی کے لئے لیز پر ہیلی کاپٹر حاصل کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔
گذشتہ اکتوبر میں ٹینڈرز جاری کیے گئے تھے ، لیکن بولی دہندگان کے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے اس کی تاریخ میں دوسری بار توسیع کی گئی ۔ صرف پون ہنس پرائیوٹ لمیٹڈ نے ای ٹینڈروں میں حصہ لیا تھا ۔
31 دسمبر ، 2019 کے بعد ، ٹینڈر جمع کروانے کی آخری تاریخ میں 21 جنوری 2020 تک توسیع کی گئی تھی۔
نگرانی کے نظام کو بڑھانے کے لئے یہ عمل پولیس کے جدید کاری پروگرام کا ایک حصہ ہے جس کے لئے وزیر اعظم ترقیاتی پیکیج (پی ایم ڈی پی)کے تحت 5000 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے۔
پی ایم ڈی پی کے تحت ،
جموں و کشمیر پولیس نے سرحدی فائرنگ سے متاثرہ افراد کے انخلا کے لیے پانچ بلٹ پروف ایمبولینسوں کی خریداری کے لئے ای ٹینڈرز بھی طلب کیے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ایسی ہر ایک ایمبولینس جموں ، سمبا ، کٹھوعہ ، راجوری اور پونچھ میں مہیاکی جائے گی ،جہاںسرحد پار سے فائرنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ذرائع نے کہا کہ پی ایم ڈی پی کے تحت متعدد بلٹ پروف گاڑیاں اور دیگر سازوسامان پہلے ہی خریداجاچکا ہے۔
جنوری کے آغاز میں مقبوضہ کشمیر میں فوج کو سرجیکل سٹرائیکس میں مددگار امیجنگ سنسر سسٹم اورنائٹ ویژن سسٹم فراہم کیا گیا تھا۔
ایک بھارتی ٹیکنالوجی کمپنی ٹونبو امیجنگ کا بنایا گیا نائٹ ویژن سسٹم سرجیکل سٹرائیکس کے دوران مرکزی نظام کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہ سسٹم 1 کلومیٹر سے زیادہ کے فاصلے پر اہداف پر قابو پانے کے لئے خودکار ہتھیاروں اور فوجیوں کی رہنمائی کرتا ہے۔
ذرائع کے مطابق سمارٹ کیمرے ایکشن کو ریکارڈ کرتے ہیں اور ایک محفوظ ، وائرلیس کنکشن کی مدد سے مرکزی نظام سے جڑے رہتے ہیں۔ایک طرح سے یہ سسٹم ہتھیاروں کے لئے آنکھوں اور دماغ کا کام کرتا ہے۔
بھارتی وزارت دفاع کے ایک اہلکار نے شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر ذرائع کو بتایا کہ بھارتی فوج کے پاس یہ سسٹم پہلے سے موجود ہے،
یہ اب مقبوضہ کشمیر میں تعینات فوجیوں کو بھی ضرورت پڑنے پر دستیاب ہوگا۔یہ نظام بنگلورو کے ایک انجینئرنگ سنٹر سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر:ہزاروں ویب سائٹس بلیک لسٹ کردی گئی
جموں،
مقبوضہ کشمیر میں کم و بیش چھ ماہ تک انٹرنیٹ پر پابندی کے بعد حکام نے مشروط سہولیت بحال کی ہے لیکن صارفین کا کہنا ہے کہ عملی طور انہیں انٹرنیٹ سے استفادہ نہیں ہورہا ہے۔ انکے مطابق ہزاروں ویب سائٹس بلیک لسٹ کردی گئی ہیں۔
انٹرنیت کی جزوی اور مشروط بحالی سے قبل حکام نے ایک لسٹ جاری کی جس میں وہ ویب سائٹس شامل ہیں جن تک رسائی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس فہرست کو وائٹ لسٹ کہا گیا ہے جبکہ اس سے باہر رہنے والی سبھی ویب سائٹس بلیک لسٹ میں رکھی گئی ہیں۔
حکام کیلئے یہ صورت حال مضحکہ خیز بن گئی ہے کیونکہ دنیا میں کروڑوں ویب سائٹس ہیں اور محض چند درجن ویب سائٹس کو وائٹ لسٹ میں شامل کرکے انٹرنیٹ کی بحالی کا دعوی ہدف تنقید بن رہا ہے۔
حکام اب سوچ رہے ہیں کہ وہائٹ لسٹ کے بجائے بلیک لسٹ جاری کی جائے تاکہ پیدا شدہ ہزیمت کا کسی حد تک ازالہ کیا جاسکے۔
جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ کے ایک سینئر آفیسر کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس صحافیوں، تاجر، طلبا اور دیگر شعبوں سے وابستہ افراد کی جانب سے شکایتیں موصول ہو رہی ہیں کہ
سست رفتار انٹرنیٹ اور وائٹ لسٹ میں ضروری ویب سائٹ شامل نہ ہونے کی وجہ سے صارفین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔القمرآن لائن کے مطابق انہوں نے کہا کہ ویب سائٹس کی تعداد تقریبا لامحدود ہے اور اطلاعات پر سب کا برابر حق ہے۔
اس لیے انتظامیہ وائٹ لسٹ کی جگہ اب ویب سائٹس کو بلیک لسٹ کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ویب سایٹ کو بلیک لسٹ کرنے سے انتظامیہ کے لیے بھی کافی آسانی رہے گی۔ پہلے مرحلے میں 400-500 ویب سائٹس بلیک لسٹ کی جائیںگی ان میں سوشل میڈیا ویب سائٹس بھی شامل ہونگی۔
بعد میں اگر کسی ویب سایٹ کے خلاف غلط خبروں کی تشہیر کرنے یا قوانین کی خلاف ورزی کی شکایت موصول ہوئی تو اس کو بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق موبائل صارفین کی دوبارہ سے جانچ پڑتال کی خبروں کے تعلق سے ان کا کہنا تھا کہ پری ییڈ موبائل صارفین کی فزیکل ویریفکیشن نہیں ہوتی ہے
اس لیے موبائل کمپنیوں کو کہا گیا ہے کہ وہ پوسٹ پیڈ صارفین کی طرز پر ہی پری پیڈ موبائل صارفین کی جانچ پڑتال کریں۔ اس سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ
انتظامیہ ہمیں بلیک لسٹ اور وائٹ لسٹ کے جال میں پھنسا رہی ہے۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق صحافی ارشاد غنی کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کو ان سب باتوں کو دھیان میں رکھ کر فیصلہ لینا چاہیے تھا۔
اب یہ سب بے معنی ہیں۔پری پیڈ صارفین کی جانچ پڑتال کے تعلق سے ان کا کہنا تھا کہ جب ایک شہری اپنے شناختی دستاویز میں پاسپورٹ کی کاپی جمع کرتا ہے تو پھر فزیکل ویریفکیشن کی کیا ضرورت؟ کیا پاسپورٹ بھی غلط ہے۔
مقامی باشندے ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ ہو کیا رہا ہے؟ انتظامیہ کو چاہیے تھا سب کچھ معمول کے مطابق جاری رکھنا چاہیے تھا۔
بلیک لسٹ اور وائٹ لسٹ فلموں میں ہی اچھا لگتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ انتظامیہ کو کشمیری عوام پر شبہ ہے اسلئے فزیکل ویریفیکیشن کروا رہی ہے۔
ملک میں کہیں بھی پری پیڈ صارفین کے لیے فزیکل ویریفکیشن نہیں ہوتی پھر یہاں کیوں؟
مقبوضہ کشمیر: ای کامرس ویب سائٹس تک رسائی ناممکن
چھ ہزار نوجوان ابھی تک بے روزگار
جموں،
جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ پر مسلسل پابندی اور محدود رسائی سے کشمیر میں کئی نوجوان بے روزگار ہو گئے۔
مقبوضہ کشمیر کے دونوجوان حسیب اور حذیف ای – کامرس ویب سائٹ چلا رہے تھے۔
لیکن پانچ اگست 2019 سے دوسروں کو روزگار فراہم کرنے والے یہ نوجوان خود ہی بے روزگار ہوگئے ۔
کشمیر کی تمام ای کامرس سائٹس کو حکومت نے بلیک لسٹ میں رکھا ہے
جن تک عوام کو کوئی رسائی نہیں ہے۔حسیب اور حذیف جیسے نوجوانوں کی ای کامرس ویب سائٹس بھی ان میں شامل ہیں۔حسیب کشمیر میں ‘لال چوک ڈان ان’ جبکہ حذیف ‘فاسٹ بیٹل’ نامی ای کامرس کمپنیاں چلا رہے تھے۔ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا کہ
‘وہ مایوس ہیں کہ ان کی ویب سائٹس سرکار نے بلیک لسٹ میں ڈال دی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں تقریبا ایک ہزار نوجوان چھوٹی، بڑی ای کامرس کمپنیاں چلا رہے ہیں
جن کو بلیک لسٹ میں ڈالا گیا ہے اور لوگوں کے ساتھ ساتھ ان کو بھی اس تک کوئی رسائی حاصل نہیں ہے۔ذرائع کے مطابق انٹرنیٹ پابندی پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
ای کامرس سے کشمیر میں چھ ہزار کے قریب نوجوانوں کو روزگار میسر ہوتا تھا لیکن پانچ اگست سے یہ تمام لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔
نئی سیاسی جماعت کے قیام کی خبریں بے بنیاد
سرینگر،
سابق وزیر خزانہ سید محمد الطاف بخاری نے ان میڈیا رپوٹس کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ ان کی قیادت میں جموں وکشمیر میں عنقریب ایک نئی سیاسی پارٹی کا قیام عمل میں آئے گا۔
رہنما کے ایک ترجمان نے میڈیا کے بعض حلقوں میں گردش کرنے والی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ
بخاری کے بارے میں مشتہر کی جانے والی ان خبروں کا مقصد کنفیوژن اور گمراہی پیدا کرنا ہے۔ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا یہ کسی کی اپنی ذہنی اختراع ہے، ایسا لگتا ہے کہ سابق وزیر خزانہ الطاف بخاری کے بارے میں مشتہر کی جارہی ایسی خبروں کا مقصد کنفیوژن اور گمراہی پیدا کرنا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ جیسا کہ میڈیا کو پہلے ہی آگاہ کیا گیا ہے کہ کچھ ہم خیال دوست اور سیاسی ساتھی ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس تناظر میں غیر رسمی میٹنگوں کا بھی انعقاد کیا جارہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ان میٹنگوں میں موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا ہم خیال دوست اور سیاسی ساتھی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اس کو کسی نئی سیاسی پارٹی کے قیام کے طور پر نہیں لیا جانا چاہئے۔
الطاف بخاری کی جنوری کی 7 تاریخ کو جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو کے ساتھ سات سیاسی لیڈروں سمیت ملاقات، جس میں انہوں نے گورنر کو ایک پندرہ نکاتی میمورنڈم پیش کیا تھا ۔
اس کے علاوہ نو جنوری کو وادی کے دورے پر آنے والے غیر ملکی سفارتکاروں سے ملاقات کے بعد وادی میں ایک نئی سیاسی پارٹی کے قیام کی خبریں گرم ہوئیں۔
جموں: گاوں کی دفاعی کمیٹیوں کے ارکان کی حکومت کو ہتھیار ڈالنے کی دھمکی
جموں،
منگل کے روز مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کے حملوں کے خلاف دور دراز اور پہاڑی دیہاتوں کے دفاع کے لئے ” سیکیورٹی آرک ” کے طور پر کام کرنے والی گاوں کی دفاعی کمیٹیوں (وی ڈی سی)کے ارکان نے ہتھیار ڈالنے کی دھمکی دی ہے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے واجبات اور تنخواہیں فوری جاری کی جائیں۔انہوں نے دعوی کیا کہ انہیں گذشتہ آٹھ ماہ سے زیادہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں۔
جموں ویلج ڈیفنس کمیٹی (جے وی ڈی سی)ایسوسی ایشن کے صدر بہاری لال بوشن کی سربراہی میں ، ایک ہزار سے زیادہ ممبران جو ڈوڈہ ، کشتواڑ ، رامبن ، ریاسی ، پونچھ اور راجوری اضلاع کے مختلف علاقوں سے آئے تھے ، نے زیر التوا تنخواہوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے ریلی نکالی۔
.لال نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جموں میں یہ ہماری دوسری ااحتجاجی ریلی ہے۔ اگر حکومت ہمیں فوری طور پر تنخواہوں کی فراہمی میں ناکام رہی تو ہم متعلقہ اضلاع میں پولیس لائنز میں اپنے ہتھیار ڈال دیں گے۔
ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا کہ 2015-16 سے ، ہمیں تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں ، لیکن اس کے باوجود ہم جموں پہاڑیوں میں دیہاتوں کو دہشت گردوں سے بچانے کے لئے سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں
اور پولیس اور فوج کے ساتھ مل کر انسداد عسکریت پسندی کی کارروائیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ کیا یہ ہمارا جرم ہے؟
ایک اور وی ڈی سی ممبر وجے کمار نے کہا کہ وی ڈی سی کو پچھلے کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں اور اس وجہ سے وہ یہاں آکر احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا ہم اپنی تنخواہوں کی فوری گرانٹ کا مطالبہ کرتے ہیں ، جو ہمیں پچھلے کئی مہینوں سے جاری نہیں کی گئی۔
خصوصی پولیس افسران کی اجرت میں 5000 سے بڑھا کر 18000 روپے کردی گئی ہے ، جبکہ وی ڈی سی ممبروں کی تنخواہ روک لی گئی ہے۔
جموں وکشمیر میں تقریبا، 4125وی ڈی سی موجود ہیں اور ان کا کام سرحدوں کے ساتھ ساتھ اندرونی علاقوں اور ان کے آس پاس کے بنیادی ڈھانچے میں شناخت شدہ دیہات کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔
القمرآن لائن کے مطابق1990 کی دہائی کے وسط میں وی ڈی سی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کا مقصد ڈوڈہ، کشتواڑ ، رامبن ، راجوری ، ریاسی ، کٹھوعہ اور پونچھ اضلاع کے
دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں کی سلامتی کو مستحکم کرنا تھا۔
اے وی پڑھو
پاک بھارت آبی تنازعات پر بات چیت کے لیے پاکستانی وفد بھارت روانہ
لتا منگیشکر بلبل ہند
بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایمرجنسی الرٹ جاری