وزیراعظم عمران خان نے چند دن پہلے یہ بیان دیا کہ تصوف کا نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ ویسے تووزیراعظم کی سطح کی شخصیت ”چاہیے “والا بیان دینے کے بجائے ہمیں صرف یہ بتائے کہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔یہ ہونا چاہیے، وہ ہونا چاہیے وغیرہ کی خواہشات تو ہم عام لوگ کرتے ہیں۔ وزیراعظم فیصلہ ساز ہیں،وہ تو فیصلہ کر کے اس پر عملدرآمد کرائیں۔ خیر تصوف کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے اور الگ سے کسی ادارے میں اس کی اعلیٰ تعلیم کی بات پر ہمارے ہاں سنجیدہ بحث ہونی چاہیے تھی۔ اس کے بجائے یہ اہم تجویز ٹھٹھے کی نذر ہوگئی۔ یار لوگوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسے چھیڑ چھاڑ اور طنز وتشنیع کے طورپر استعمال کیا۔ کسی نے کہا کہ اب یونیورسٹیوں میں بھنگ گھوٹنے اور بھرے سگریٹ پینے کی تربیت دی جائے گی، کسی نے کچھ اور شگوفہ چھوڑا، بعض نے اسے پیری مریدی کے تناظر میں دیکھا۔ جو مسلک یا حلقے تصوف کے مخالف ہیں یا اسے سرے سے دین کا حصہ ہی نہیں مانتے ، ان کے کاٹ دار طنز دیدنی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے بہت اہم بات کی ہے ۔ان کی تجویز کو سیاسی یا ذاتی اختلاف کی بنیاد پر رد نہیں کرنا چاہیے۔بات سادہ ہے۔ تین سوال ہیں ۔ تصوف کیا ہے؟ آج کے دور میں اس کی کیا اہمیت ہے اور تیسرا مگر سب سے اہم سوال کہ تصوف کو کس طرح تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جا سکتا ہے؟
ہمارے ہاں تصوف کواکثر غلط سمجھا جاتا ہے۔ اس میں بہت سا قصور مسلکی منافرت کا ہے ۔سوچے سمجھے بنا،مناسب معلومات کی عدم موجودگی میں محض فتوے بازی کا انداز ہمیشہ غلط نتائج پیدا کرتا ہے۔ بعض اوقات کسی فکر کے حوالے سے خواہ مخواہ کے تعصبات بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔کچھ غلط فہمیاں تصوف کی حمایت یا اس کی پیروی کرنے والوں کی غلطیوں سے بھی پیدا ہوئی ہیں۔ تصوف کی حقیقی روح کے بجائے اگر صرف کرامات، کرشموں اور خرق عادت واقعات کو گلوریفائی کیا جائے گاتب نقصان پہنچنا فطری امر ہے۔ ماضی کے بعض نامور بزرگوں کی خانقاہیں جس طرح گدی نشینی کے گورکھ دھندے میں تبدیلی ہوئیں ،اس نے بھی تصوف کے پورے سکول آف تھاٹ کو مسخ کیا۔ ایک ایک گدی کے تین تین چار چار امیدوار پیدا ہوگئے، وسائل پر قبضہ کرنے کی خواہش نے آپس کی لڑائیوں اور فساد کو جنم دیا۔یہ سب غلط ہے، اس کا تصوف سے دور دور کا تعلق نہیں۔
تصوف کو سمجھنا بہت ہی آسان ہے۔ اپنی بنیاد میں یہ محض اصلاح اور تزکیہ نفس ہے۔اللہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنانے ، شریعت پر عمل درآمد کرنے اور” احسان“ کی کیفیت حاصل کرنے کاطریقہ۔ممتاز روحانی سکالر اور صاحب عرفان بزرگ سرفراز اے شاہ صاحب نے غیر مبہم اور واضح الفاظ میں اسے بیان کیا،” تصوف ایک تربیتی ادارہ ہے ، ایک طرح کی پری سکول اکیڈمی، جس کا مقصد طالب علم (سالک)کو شریعت کے راستے پر خوش اسلوبی سے سفر کرنے کی تربیت دینا ہے۔“ سرفراز شاہ صاحب کا تعلق اگرچہ چشتیہ وارثیہ، صابریہ سلسلہ سے ہے، انہیں جنیدیہ سلسلے میں بھی خلافت حاصل ہے، تصوف کے کلاسیکل سلسلوں سے وابستگی کے باوجود وہ کبھی اپنے لیکچرز، گفتگو اور تحریر میں وظائف اور عملیات وغیرہ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ خانقاہی نظام میں بھی اصل زور تربیت پر ہوتا تھا۔تصوف کے بارے میں صوفیوں کا یہی کہنا ہے کہ جس طرح بعض کمزور طلبہ کو سکول داخل کرانے سے پہلے کچھ عرصہ کسی اکیڈمی میں پڑھایا جاتا ہے تاکہ ان کی کمزوریاں دور ہوجائیں، ڈسپلن آ جائے اورپھر یہ سکول کے نسبتاً مشکل تعلیمی نصاب کے ساتھ عمدگی سے چل سکیں۔ تصوف بھی یہی کام کرتا ہے۔یہ یاد رہے کہ کسی طالب علم کو اس پری سکول ٹریننگ یعنی تصوف کی ضرورت نہیں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ تصوف کوئی لازمی چیز نہیں۔ مقصود تصوف نہیں بلکہ شریعت کے راستے پر چلنا ہے۔ جو تصوف کی تربیت کے ساتھ یہ کرتا ہے وہ بھی ٹھیک ہے، جسے اس تربیت کی حاجت نہیں پڑی، وہ بھی ٹھیک ہے۔ اللہ دونوں کو کامیابی عطا کرے۔
تصوف کے سکول آف تھاٹ میں آنے والے کی شخصی کمزوریوں کو دور کرنے کی سعی ہوتی ہے۔ کینہ، بغض، خود غرضی، غیبت ، چغلی ، بخل وغیرہ جیسے امراض کو دور کر کے ایثارکی تربیت دی جاتی ہے۔ اپنے نفس کو قابو کرنے کی مشق، اپنی بھوک رکھ کر اپنی آدھی روٹی کسی دوسرے بھوکے کو کھلانے کا ایثار۔سب سے بڑھ کر اللہ کی بندگی کے احساس کو بھرپور بنا دینا۔یہ تصوف ہے۔ اخلاقی تعلیم وتربیت ۔ دلوں کے زنگ اتارنے کا نسخہ۔ انسان میں سختی اور سردمہری کو پگھلا کر نرمی، محبت اور ہمدردی بھر دینا۔ارباب تصوف آسان ترین نسخہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ سیرت مبارکہ ﷺ کی پیروی کی جائے۔ زندگی کے ہر معاملے میں یہ دیکھا جائے کہ عالی جناب ﷺ کا طرزعمل کیا تھا؟ اسے اپنی بساط کے مطابق فالوکیا جائے۔ اس سے روحانیت پیدا ہوگی، اسی سے اللہ کا قرب حاصل ہوگا اور ان شااللہ یہی دنیا وآخرت میں کامیابی ہے۔
تصوف کے بنیادی تصور کو سمجھ لینے کے بعد اس سوال کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ آج کی دنیا میں اس کی کیا اہمیت ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ آج کے انسان کی اخلاقی حالت کیا ہوچکی ہے؟ کس قدر کمزوریاں، خودغرضی ، نفس کی غلامی کے طوق گردن میں پڑے ہیں۔ تصوف کی اخلاقی تربیت ہی ان تمام خرابیوں سے نکال سکتی ہے۔ اس لئے تصوف کی تعلیمات کو ہماری انفرادی ، اجتماعی تعلیم اور تربیت کا لازمی حصہ ہونا چاہیے ۔ البتہ اس کے لئے کلاسیکل انداز کی خانقاہوں کی ضرورت نہیں۔ ہر زمانے کا اپنا مزاج، دستور اور اصول ہوتے ہیں۔اخلاقی تربیت اور خرابیوں کی اصلاح کا طریقہ تو صدیوں پرانا بھی چلے گا کہ مرض وہی ہے ، علاج بھی اسی طریقے سے ہوسکتا ہے۔ علاج گاہ یعنی مطب کی شکل وصورت اب بدل جائے گی۔ آج تصوف کو نئی ڈکشن سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام سرفراز شاہ صاحب نے نہایت اعلیٰ انداز سے کیا ہے۔ ان کی تصوف اور اس کی بنیادی اصطلاحات پر سات کتابیں شائع ہوچکی ہیں، بلامبالغہ ان کے سینکڑوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ تصوف کے ایک طالب علم کے طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ تصوف کی جدید تاریخ میں ایسے آسان، عام فہم اور مدلل انداز میں کسی نے ان علوم کو نہیں کھول کر بیان کیا۔ پروفیسر احمد رفیق اختر کی بھی درجنوں کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ اپنے اپنے انداز سے مختلف صوفی حضرات یہ کام کر رہے ہیں۔واصف علی واصف کا فیض آج بھی جاری ہے۔ آڈیو تقاریر کی صورت میں بھی بعض بزرگوں کے کلپ کئی کئی ملین دیکھے جا چکے ہیں ۔پیر ذوالفقار نقشبندی صاحب کو اس حوالے سے بڑی پزیرائی ملی ہے۔مولانا طارق جمیل کے بعض وعظ بھی بڑے پراثر ہیں اور ان میں صوفی تھاٹس کی جھلک موجود ہے۔ جناب احمد جاوید کا انداز گو فلسفیانہ اور دانشورانہ ہے، مگر تصوف کے مختلف پہلوﺅں پر انہوں نے عمدگی سے کام کیا ہے۔بہت سے اور لوگ بھی موجود ہیں، کالم میں طویل فہرست دینا ممکن بھی نہیں ہوتا۔
اگلا مرحلہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں کس طرح تصوف کو شامل کیا جائے؟ میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔اس سے ہٹ کر بھی چند ممتاز اہل علم پر مشتمل کمیٹی بنائی جا سکتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب، مفتی منیب الرحمن صاحب،سرفراز شاہ صاحب اور اسی طرح کے چند ایک ممتاز سکالرز پر مشتمل کمیٹی یہ طے کرے کہ سکول، کالج کے تعلیمی نصاب میں کس انداز سے تصوف کے اسباق شامل ہوسکتے ہیں؟ یہ کام قطعی مشکل نہیں۔ پہلے ہی پرائمری، ہائی کلاسز کی اردو، اسلامیات وغیرہ میں کئی مفید ابواب شامل ہیں، انہیں مزید بہتر کرنا آسان ہے۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ لاہور کی صوفی یونیورسٹی اور ملک کی بعض دیگر درسگاہوں میں تصوف بطور مضمون پڑھایا جائے۔ تزکیہ نفس کے شارٹ کورسز ہوسکتے ہیں، ایک دن، تین دن ، ہفتے ، عشرے کی ورکشاپ بھی کرانا ممکن ہے۔ایسے کورس جو حقیقی معنوں میں زندگی بدل ڈالیں۔ بڑے سکالرز کے لیکچرز کرائے جائیں جو تصوف کی باریکیوں کو بیان کریں اور طالب علم کو اللہ کے ساتھ جوڑنے کا کام کریں۔ایک اور سطح اعلیٰ فکری سطح پر تعلیم ہے۔ اس کے لئے ظاہر ہے محدودتعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو لیا جائے اور تصوف کی اہم کتابوں کی تشریح کی جائے۔ شیخ ابن عربی کی فصوص الحکم، شیخ ابو طالب مکی کی قوت القلوب، حضرت شہاب الدین سہروردی کی عوارف المعارف اور اسی طرح تصوف کی دیگر امہات الکتب پڑھائی جائیں۔ سیدنا علی ہجویری ؒ کی کشف المحجوب کے بارے میں تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں، یہ توہر مرحلے کے بنیادی نصاب میں شامل ہونی چاہیے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں تصوف کے حوالے سے جو کام کیا جا رہا ہے، وہ بھی شیئر ہونا چاہیے۔ مراکش،تیونس، ترکی، مصر جیسے ممالک سے صوفی سکالرز کوصوفی یونیورسٹی میں مدعو کر کے ان کے علم سے استفادہ کرنا چاہیے۔
پاکستانی معاشرے کو تصوف کی شدید ضرورت ہے، صوفی تھاٹس اور تربیتی نصاب کو سلیقے اور حکمت سے تعلیمی سسٹم کا حصہ بھی بنانا چاہیے، تصوف کے اندر کی مختلف پرتوں کو کھولنے کی سعی بھی ہو اور اعلیٰ فکری سطح پر بھی اس کی تعلم کا ساماں ہو۔ وزیراعظم عمران خان اگر یہ کام کر گزریں تو وہ اپنی بہت سی کمزوریوں اور ناکامیوں کا مداوا کر دیں گے اور کم از کم اس خاص حوالے سے ان کا تاریخ میں نام زندہ رہے گا۔
تصوف کی حقیقی روح کے بجائے اگر صرف کرامات، کرشموں اور خرق عادت واقعات کو گلوریفائی کیا جائے گاتب نقصان پہنچنا فطری امر ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر