یہ سال 96ء کی بات ہے جب اُس نے
” اور گوادر بک گیا” کے عنوان سے سنسنی خیز کہانی لکھی۔ اتفاق سے جن صاحب کو اُس نے اپنی کہانی کا مرکزی کردار اور سورس بنا کر پیش کیا وہ میرے زمانہ طالب علمی کے دوست اور سکول فیلو تھے۔
طالب علم نے ان سے تصدیق چاہی تو انہوں نے اُس کی گوادر آمد’ ملاقات اور خود سے منسوب قصے کی تردید کردی۔
سئیں خدا بخش لہڑی نے صرف ذاتی تردید پر اکتفا نہ کیا بلکہ انہوں نے مذکورہ جریدے جس میں یہ کہانی شائع ہوئی تھی اور اس بڑے اخبار کے مالک کو نوٹس بھی بھیجوا دیا
اس وقت کی بلوچستان حکومت کی طرف سے چیف سیکرٹری نے مذکورہ اخبار کے مالک سے براہ راست رابطہ کیا اور ”گوادر بک گیا” والی کہانی کو پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے اسے ملکی سلامتی کیساتھ کھلواڑ قرار دیدیا۔
موصوف کو لاہور طلب کیا گیا’ اخبار کے مالک اور د و سینئر ارکان پر مشتمل کمیٹی نے ان سے سوالات کئے’ تسلی بخش جواب نہ پاکر ان سے کمرہ میں موجود مگر خاموش بیٹھے شخص بارے دریافت کیا گیا کہ
”ان صاحب کو جانتے ہیں؟”
کہانی باز نے نفی میں سر ہلایا تو اخبار کا مالک چیختے ہوئے بولا ( تیری ۔۔۔۔۔۔۔۔) یہی تو وہ صاحب ہیں جن سے ملاقات اور ان کے حوالے سے چار صفحات کی سنسنی خیز کہانی لکھی گئی۔
کہانی باز نے شرمندہ ہونے کی بجائے کہا مگر مجھے تو گوادر میں کوئی اور شخص ملا تھا۔
اِس پر اُس کے سامنے پی آئی اے کی کراچی گوادر فلائٹ کی مسافر لسٹ رکھ دی گئی۔ اس لسٹ میں اُس کا نام نہیں تھا۔
سوالات دوبارہ ہوئے اور بالآخر فیصلہ ہوگیا کہ کہانی باز جھوٹا ہے اور یہ کہانی اس نے اُسی سرکاری افسر بریگیڈئر (ر) امتیاز بلا کے ایماء پر لکھی گئی جو قبل ازیں محترمہ بینظیر بھٹو کے اولین دور حکومت میں ان کیخلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے بریف کیس لے کر پیپلز پارٹی اور آزاد ارکان قومی اسمبلی کے گھروں کے چکر لگاتا رہا تھا۔
پیپلز پارٹی کے ایک رکن قومی اسمبلی نے بلا کیساتھ ہاتھ کر دیا، اس سے بریف کیس لے لیا اور پیپلز پارٹی کے اجلاس میں وہ بریف کیس محترمہ بینظیر بھٹو کے سامنے میز پر رکھ کر کہا مجھے یہ بریف کیس آپ کی مخالفت میں ووٹ دینے کی قیمت پر دیاگیا ہے اور یہ وعدہ بھی کیا گیا ہے کہ عدم اعتماد کی کامیابی پر مجھے وزیر بھی بنایا جائے گا۔
اس کہانی کے جھوٹ کا پردہ چاک ہونے پر اُسے مذکورہ اخبار سے نکال دیاگیا، دو الزام تھے اولاً یہ کہ ایک ایسی کہانی گھڑی گئی جو ملکی سلامتی کیخلاف سازش تھی ثانیاً یہ کہ اس نے اپنی اہلیہ کے نام پر جس ”ماہنامہ” کا ڈیکلریشن لیا اس پر ادارے کو اعتماد میں نہیں لیا گیا بلکہ اشتہارات کیلئے ادارے کا نام استعمال کیاگیا۔
لاہور کے اخباری گروپ سے نکالے جانے کے بعد موصوف کو ان کے سرپرستوں نے کراچی کے اخباری گروپ میں بھرتی کروا دیا جس کے مالک کا محترمہ بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری سے عشروں پرانا ذاتی تنازعہ تھا۔
اس ذاتی تنازعے کی وجہ سے ہی اس اخباری گروپ نے پیپلز پارٹی کے ہر دور اقتدار میں اسے دنیا کی بدترین پارٹی’ زرداری کو سب سے بڑے کرپٹ انسان اور پی پی پی حکومت کو ناکام ترین حکومت بنا کر پیش کیا۔
چند برس زرداری کے دشمن میڈیا گروپ میں رہ کر وہ ایک نئے اُبھرنے والے میڈیا گروپ سے جا ملے ‘ کیسے ملے یہ ایک الگ کہانی ہے۔
پھر ایک دن انہوں نے ملتان میں مرحوم نواب صادق حسین قریشی کی تاریخی قیام گاہ وائٹ ہاوس میں بھٹو صاحب ( ذوالفقار علی بھٹو) کے حوالے سے ایک واقعہ تحریر کیا۔
مجھ تحریر نویس نے اُس کی کہانی کو رد کرتے ہوئے وائٹ ہائوس میں اس وقت کے کور کمانڈر ملتان جنرل ضیاء الحق اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ملاقات کی تفصیل لکھ دی۔
میرے بہت سارے دوست حیران ہوئے کہ لاہوری گروپ کے اخبار میں یہ تحریر کیسے شائع ہوگئی۔
عرض کیا کہ ملتان ایڈیشن سمیت دیگر ایڈیشنوں میں اس تحریر کی اشاعت کا سہرا برادرم امتیاز احمد گھمن کے سر ہے، ان کا خیال تھا کہ اصل قصہ تاریخ کی امانت ہے اسلئے اگر معاہدہ کے برعکس ایک آدھ تحریر ملتان ایڈیشن کے علاوہ بھی شائع کردی جائے تو اس سے سیاسی تاریخ کے طالب علموں کو حقیقت حال سے آگاہی ہوسکے گی۔
اب پھر چند برس بعد اُس کہانی باز نے پیپلز پارٹی کے 2008ء والے دور کے حوالے سے ایک کہانی لکھ ماری۔ نئی کہانی کا نمک مرچ دھنیا ادرک سے بھرپور مصالحہ یہ ہے کہ آصف زرداری نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بلایا اور کہا کہ گندم ایسے اور اتنے میں خریدی جائے گی
(یاد رہے کہ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تھی تو ابتداء میں نون لیگ بھی وفاقی حکومت میں شامل تھی، اسحاق ڈار اس کے وزیر خزانہ تھے پہلی پریس کانفرنس میں موصوف نے فرمایا تھا ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اس پریس کانفرنس کے آفٹر شاکس پیپلز پارٹی نے اگلے پورے پانچ سال بھگتے)
سال 2008ء کی گندم کہانی 2020ء میں گھڑنے سنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کیلئے اس کہانی کی اشاعت سے قبل کہانی باز کی جہانگیر ترین سے ملاقات کا کوئی تعلق ضرور ہوگا۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ نون لیگ نے 2008ء سے2018تک کے دس برسوں کے دوران کسی بھی سطح پر اس حوالے سے کچھ نہیں کہا۔
کہانی میں دم ہوتا تو زرداری کو لاہور سمیت نصف درجن شہروں کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کرنے والے شہباز شریف چیخ چیخ کر اسے بیان کرتے’ خود اسحاق ڈار نے جو بعد میں نواز شریف حکومت کے وزیر خزانہ بنے اور ساری خرابیوں کا ملبہ پیپلز پارٹی پر ڈالتے رہے اس کا کبھی ذکر نہیں کیا۔
لیکن اب جب ملک میں گندم اور آٹے کا بحران آسمان کو چھو رہا ہے کہانی باز نے کہانی لکھ دی۔
اس کہانی کو پیپلز پارٹی کے مخالفین سوشل میڈیا پر لے آئے اور پانی پت کی ساتویں جنگ شروع ہوگئی۔
کیا عجیب بدقسمتی ہے کہ دو اڑھائی عشروں میں کروڑ پتی ہوجانے والے کہانی باز کی مالی کامیابیوں بارے کوئی نہیں جانتا کہ یہ دولت کہاں سے آئی اور کیسے آئی۔
خیر یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس اشتہاری کمپنی کا جس پر جنرل پرویز مشرف بہت مہربان رہے،
ہمیں فقط یہ عرض کرنا ہے کہ کچھ لوگ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کی نفرت سے گندھے ہوئے جنم لیتے ہیں اور آقائوں کے اشارے پر پیپلز پارٹی کو ڈسنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
کہانی باز میں ”دم” ہوتا تو جہانگیر ترین کے دستر خوان پر نوالے توڑتے ہوئے ان سے پوچھتا کہ گندم اور آٹے کے موجودہ بحران میں لوگوں کی اُنگلیاں آپ کی طرف کیوں اُٹھ رہی ہیں؟۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ