بنوں کے سرائیکی پریوار سے ملاقات : ڈیرہ اسماعیل خان سکول دیکھنے کے بعد ہماری اگلی منزل راجندر نگر میں مقیم بنوں کے سرائیکی خاندان سے ملاقات تھی۔ ہماری گاڑی کسی مضافاتی کالونی میں رینگنے لگی تھی ۔
وسیع گلیوںکے دونوں اطرف بنی کو ٹھیوں کو دیکھ کر مجھے لاہور کے گلبرگ کا گمان ہوا۔انکل گاڑی چلاتے ہوئے مجھے بتانے لگے کہ یہ دِلی کا مشہور مضافاتی علاقہ ہے جسے پرانا راجندر نگر کہتے ہیں، اسے تقسیم کے بعد پاکستان سے آنے والے ہندوﺅں نے آباد کیا تھا ، سرائیکی بھی یہاں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
کوئی پندرہ منٹ کے اندرایک سفید رنگ کی کوٹھی کے سامنے گاڑی روک دی گئی اور ہم دونوں کوٹھی کے داخلی دروازے سے متصل ڈرائنگ روم کے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ ڈرائنگ روم کا در کھلا تھا۔ انکل نے باہر کھڑے ہوکا بھرا ۔
چاولہ جی کِتھاںہیو ے؟ اندر سے کسی عورت کی آواز آئی۔ آندے پے ہیں اور اسی کے ساتھ ہی ایک ادھیڑ عمر عورت اپنے سینے کو سفید چادر سے ڈھا نپتی باہر نکلی اور بڑے تپاک سے ملنے کے بعد ہمیں ڈرائنگ روم کے اندر لے گئی ۔ اندر صوفے پر بٹھانے کے بعد وہ خود بھی سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئیں ۔
انکل میرے سامنے بیٹھی خاتون کا تعارف کرواتے ہوئے بتانے لگے:” یہ ہیں سبھاش چاولہ ،دیش بندھو چاولہ کی پتنی، اس گھر کی مالکن اور خالص ڈیرے وال“ ۔وہ عورت مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہی تھی۔
اس کی توجہ ہٹانے کیلئے مجھے بولنا پڑا، آنٹی کیسی ہیں آپ؟۔میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔ آ میڈے نال آکے بے ونج، کافی ورھیاں بعد میں کیں دیرے وال نال ملدی پئی ہاں۔
میں فوراً اٹھ کر جیسے ہی ان کے ساتھ بیٹھا ، انہوں نے فرط ِجذبات سے میرا ہاتھ دبوچ لیا۔ اُس کے کپکپاتے ہاتھوں کی گرفت کافی مضبوط تھی، یہ منظر دیکھتے ہی انکل نے اپنی نظر کا چشمہ اتار کر سامنے دھری میز پر رکھا اور آنکھوں کی نمی صاف کرنے لگے۔وہ جب مجھے دیکھ کر مسکراتی تو اس کے ہونٹ کھل جاتے اور آنکھیں بھیگ جاتیں۔
چندمنٹ پورے کمرے میں خاموشی کا راج رہا، یکایک دروازے کے باہر سے قدموں کی آہٹ نے سب کی توجہ مرکوز کر دی، ایک عمر رسیدہ آدمی جھکی کمر کے ساتھ بیٹھک میں داخل ہورہا تھا، اُسے دیکھ کر ایسے لگا جیسے کسی تاریخی کتاب کے بوسیدہ صفحے کے اندرسے کوئی قدیم شخص ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل رینگتا باہر نکل رہا ہو ۔
ٹیڑھی کمر اور جھکتے کندھوں کو سفید ٹی شرٹ سے چھپائے، سر کے درمیانی اور سامنے کے بال غائب،ناک پر موٹے شیشوں والی نظر کی عینک لگائے تاریخ کی کتاب سے برآمد ہونے والے شخص کا نام دیش بندھو چاولہ تھا جو میرے ساتھ بیٹھی خاتون کا پتی نکلا ۔
انکل وِجے کمار نے اُن صاحب سے میرا تعارف کروایا انہوں نے عینک کے اوپر سے مجھے مسکرا کر دیکھا ا ور صوفے کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئے ۔ اسی دوران ایک چھوٹی لڑکی کاجو، بادام اور چائے بنا کر لے آئی۔انکل تنیجا کی زبان سے ڈیرہ کا نام سنتے ہی دیش بندھو چاولہ بول اٹھے۔
©” دیرہ، ٹانک، بنوں ہکو جیں شاہر ہین تے اَساڈے ہک بے نال رشتے داریاں وی ہین۔ میڈی زال دیرے وال ہے ، میں خود بنوچی ہاں، اِیویں میڈے بھرا رنوِیر دِی زال ریکھا وی دیرے دی ہے“۔ ابھی بنوں اور ڈیرہ کے تذکرے چل رہے تھے کہ ایک اور بوڑ ھے شخص نے قدرے بھاری بھرکم عورت کے ہمراہ کمرے کے اندر قدم رکھا۔
سفید دھاریوں والی نیلی ٹی شرٹ میں ملبوس وہ شخص ہم سے ملنے کے بعد سامنے والی دوسری کرسی پر بیٹھ گیا جبکہ ا س کے ساتھ آئی عورت میرے ساتھ صوفے پر جڑ کربیٹھ گئی ۔
تنیجا انکل نے سب کے سامنے ایک بار پھرمیرا تعارف کروایا اور پھر نیلی ٹی شرٹ والے شخص کی طرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتانے لگے کہ یہ ہیں رنویر چاولہ، ریٹائرڈ انڈین سیکنڈ سیکرٹری ہیڈ آف چانسری ہائی کمیشن آف انڈ یااِن اسلام آباد، انڈین فارن سروسز سے ریٹائرڈ ہو نے کے بعد آج کل کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں اور جو تمہارے بائیں طرف بیٹھی ہیں، میری ماسی کی بیٹی ہیں، ریکھا چاولہ ان کا نام ہے اور یہ رنویر کی پتنی ہیں۔ تنیجا انکل کی بات مکمل ہوتے ہی دیش بندھو چاولہ ہلکی سی مسکان کے ساتھ بولے:” عباس جی ذرا سنبھل کے باﺅ ،اج تساں ڈوں دیرے وال زنانیاں اِچ پھس چکے وے تے اے ڈوہیں مل کے وَنڈ دا بدلہ تیڈے کول گھنسن “۔
یہ سنتے ہی ایک بلند و بالا قہقہہ فضا میں بلند ہوا اور ساتھ ہی دیش بندھو نے قہقہے کی گونج میں ایک اور فقرہ کسا۔ اِنہاں ڈوہاں مائیاں کوں آپڑے نال دیرے گدی ونجو تاکہ اساڈی تاں جان چھُٹے ۔ ابھی پہلے قہقہے کی بازگشت کمرے میں گونج رہی تھی کہ ایک اور بھرپور قہقہہ بلند ہوا۔
خوشی اور مسکراہٹ کی محفل میں چائے اور کاجو کھائے جانے لگے اور پھر کچھ دیر بعد رنویرچاولہ نے جیسے ہی انگر یزی بولنے کیلئے لب کھولے، ریکھا نے اسے فوراً ٹوکا۔ اَج اساں دیرے والی الیسوں۔اچھاکوئی گال نیں الا گھندے ہیں، ایسی کیہڑی گال ہے۔اس طرح باقی کی ساری گفتگو سرائیکی زبان میں ہوئی۔
سب سے پہلے رنویر چاولہ اپنے متعلق بتانے لگے:” ہم تین بھائی ہیں ،بڑا بھائی (دیش بندھو) سامنے بیٹھا ہوا ہے ، چھوٹا بھی یہیں دلی کے پرانے راجندرنگر میں ریٹاٹرڈ زندگی گزار رہا ہے ۔ دیش بندھو 90 کے قریب پہنچ چکا ہے، میری عمر 80 ورش جبکہ چھوٹا 75 ورش کا ہے۔میں اگرچہ کینیڈا میں رہتا ہوں مگر ہر دو سال بعد اپنے بھائیوں سے ملنے دِلی ضرور آتا ہوں۔
میری پیدائش 1935ءکے لگ بھگ اندرون بنوں کے محلہ چاولہ میں ہوئی تھی۔ہمارے پتا جی بنوں کے بااثر زمیندار تھے اور ڈیرہ کے معروف شاعر عبدالمجید نازک کے انتہائی قریبی دوست تھے۔ ہم لوگ گھر وںمیں ڈیرے والی(سرائیکی)بولتے تھے ۔جب تقسیم ہوئی تو اس وقت میںپرائمری سکول کا طالبعلم تھا۔ تقسیم کے دوران ہی ہمارا گھرانا چاولہ محلے سے اٹھ کر دلی آگیا دلی کے اعلی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مجھے انڈین فارن سروس میں بطور افسر ملازمت ملی ۔
پہلی پوسٹنگ مصرپھر الجیریا میں ہوئی اور پھرپاکستان کے شہر کراچی کے انڈین قونصلیٹ میں تعیناتی ہوئی، کچھ عرصہ بعد1987 ءمیں مجھے انڈین ہائی کمیشن اسلام آباد میںہیڈ آف چانسری کے عہدے پر ترقی دے کر اسلام آباد بھیجا گیا ، مسلسل تین سالوں تک میں اسی عہدے پر تعینات رہا،میری بیٹی نے قائد اعظم یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور ایک مسلمان لڑکے سے اس کی شادی ہوئی۔
اپنی تعیناتی کے دوران کئی ڈیرے والوں کو انڈیا کے ویزے دلوائے خصوصاً اکبر خان گنڈہ پور کئی بار ویزہ لگوا کر بھارت گھومنے آئے ، اس کے بعد میری پوسٹنگ واشنگٹن کر دی گئی اور وہیں سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد بالآخر کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں اپنے خاندان سمیت مستقل سکونت اختیار کر لی، بس یہی میری رام کہانی ہے“۔
گفتگو مکمل کرنے کے بعد رنویر چاولہ اپنے بڑے بھائی دیش بندھو کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ۔ ہُن تساں بنوں شاہر دے اتہاس بارے کجھ ڈساﺅ ۔دیش بندھو جو دیوار پر لٹکتے وال کلاک پر نظریں جمائے کسی گہری سوچ میں گم تھے ، نظریں اٹھائے بغیرانہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور مدہم آواز میں تاریخ کی ٹوٹی گرہیں جوڑنے لگے ۔
”بنوں شہر کا نام سنسکرتی بھاشا سے نکلا ہے اور یہ شہر اتنا پرانا ہے جتنا آریاﺅں کا اتہاس ۔ اسے آریاﺅں نے سب سے پہلے بسایا تھا اور ہندو وہاں کے قدیمی باشندے تھے،اس بات کا ثبوت بنوں کے قریبی علاقوں کے ناموں سے ملتا ہے جو سنسکرتی بھاشا میںہیں، جیسے کرک، ککی، بھر ت وغیرہ۔بھرت کی پہاڑی پر بھی ہزاروں سال پہلے ہندو آبادی مقیم تھی جہاں سے ملنے والے کتبے ، بت، مہریں ، سکے اور دیگر نوادرات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ سناتن دھرم کے ماننے والوں کی بستی تھی جو حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ ہوئی تھی۔
تمہارے شہر ڈیرہ میں رام ڈھیری بھی آریاﺅں کی بسائی بستی تھی، یہ سارا خطہ دریائے سندھ سے لے کر پشاور، قندھار، کابل تک خالصتاً ہندو علاقہ تھا، جہاں بودھ اور ہندو رہتے تھے ۔تقسیم تو کل کی بات ہے اور تقسیم سے پہلے بنوں شہر کی ڈیمو گرافی دیکھ لیجئے آپ کوبنوں کی فصیل کے اندر بسنے والی آبادی میں نوے فیصد ہندوملیں گے جو سارے کے سارے ڈیرے والی بولتے تھے اور ان کے پشاور، کوہاٹ، کرک، پیزو، ڈیرہ، پہاڑپور،ٹانک تک رشتے داریاں تھیں جبکہ فصیل کے باہر مسلمان قبائل آباد تھے ۔
ان دنوںبنوں شہر ایک محفوظ فصیل کے اندر واقع تھا، شہر میں داخلے کیلئے انگریزوں نے دس بڑے گیٹ تعمیر کروائے تھے ، جن میں پریتی گیٹ، لکی گیٹ، قصائیوں والا گیٹ، پھوڑی گیٹ نمایاں تھے۔ ہر دروازے کے ساتھ ایک چھوٹا دروازہ اور قریب میں پولیس چوکی تھی، جہاں سے رات کے وقت شہر میں داخل ہونے والوں پر نظر رکھی جاتی تھی ۔رات کے سمے جب سارے بڑے دروازے بند ہوجاتے تو باہر سے آنے والے شخص کی شناخت کیلئے صرف چھوٹا دروازہ کھولا جاتا تھا،اس دروازے میں بیک وقت ایک آدمی داخل ہو سکتا تھا۔
تصدیق کے بعد باہر سے آنے والے شخص کو اندر بلا کر دروازہ بند کر دیا جاتا تھا ۔صبح سویرے سارے گیٹ کھول دئیے جاتے اور گہما گہمی ، چہل پہل کے دوران خرید و فروخت شروع ہو جاتی تھی۔ لکی بازار، چائے والا بازار، ٹانچی بازار وغیرہ بنوں کے مشہور بازار تھے۔
ہمارے وقتوں میں بنوں شہر میں پٹھانوں کے حجرے اور ہندوﺅں کی چوکیں مشہور تھیں۔ چوک میں ایک بڑی سی چارپائی، مُوڑھے، حقہ اور تمباکو رکھ دیا جاتا تھا۔ لوگ شام کو تھک ہار کر چوکوں پر بیٹھتے حقہ گڑ گڑا تے اوردن بھر کے قصے سنایا کرتے تھے ۔ ان دنوں نہ ریڈیو تھی نہ ٹی وی تو بس یہی چوکیں سیاست کا کام دیتی تھیں۔
حجرے اور چوکیں بنوں کے کلچرکا حصہ تھیں۔بنوں میں پردہ بھی انتہائی سخت تھا یہاں تک کہ ہماری کمیونٹی کی عورتیں بھی با پردہ رہتی تھیں۔پتا جی پشتو اور ڈیرے والی روانی سے بولتے تھے۔تقسیم کے بعد بنوں شہر کی ڈیموگرافی میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی،سرائیکی ہندوﺅں کے چلے جانے کے بعد اب وہاں بمشکل کوئی سرائیکی ملے گا ۔اب بولنے کی باری رنویر کی پتنی ریکھا چاولہ کی تھی۔
ریکھا کے اجداد تحصیل ٹانک سے ڈیرہ آئے تھے پھر وہیں سے اُن کے دادا نوتن داس گمبھیر بزنس کی غرض سے لاہور میں آباد ہو گئے تھے لیکن ساری جائیداد ڈیرہ میں رہی۔ریکھا لاہور میں پیدا ہوئی اورتقسیم کے دوران تین چار سال کی تھیں جب ان کا گھرانا ہجرت کرکے دلی آبسا۔ریکھا کے دادا اور دیگر رشتہ دار دلی میں شرنارتھی کیمپوں میں رہے اور پھر آہستہ آہستہ دلی میں اپنے قدم جمائے اور راجند رنگر میں اپنا ٹھکانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیے :دلی دل والوں کی (قسط8)۔۔۔ عباس سیال
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ