پنجاب کو تقسیم ہونا چاہیے ۔
تین وجوہات کی بنا پر
1 ۔ ایک تو یہ کہ اتنے بڑے صوبے کی گورننس چلانا ممکن نہیں، 2دوسرا پنجاب کے ایکسٹرالارج سائز کے باعث فیڈریشن کے باقی تینوں یونٹس کو مسائل اور تحفظات درپیش رہتے ہیں،جن میں اضافہ ہی ہوا ہے، کمی نہیں آئی۔
3 تیسرا اس لئے کہ جنوبی پنجاب کے عوام اپنے لئے الگ صوبہ چاہتے ہیں اور وہ اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ نیا صوبہ بنانے کے لئے وہ کچھ لے نہیں رہے ،بلکہ بہت کچھ چھوڑ رہے ہیں۔
وہ لاہور جیسے بڑے ، ترقی یافتہ شہر سے محروم ہو رہے ہیں، اپنے حقوق سے دستبردار ہو رہے ہیں، جہاں صوبے کے بہترین میڈیکل کالج، واحد انجینئرنگ یونیورسٹی، آرٹ کے ادارے اور بے شمار ملازمتوں کے مواقع موجود ہیں۔
نیا صوبہ بنانے کی صورت میں خطہ کے طلبہ لاہور کے تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں لے پائیں گے، سرکاری ملازمتوں کے لئے اپلائی نہیں کر سکیں گے اور بھی بہت سے نقصانات انہیں اٹھانے پڑیں گے۔
وہ لاہور، پنڈی ، فیصل آباد جیسے شہروں کو چھوڑ کر اپنے ٹوٹے پھوٹے شہروں، قصبات کے ساتھ ہی اپنی نئی دنیا بسانا چاہتے ہیں۔اس کے لئے انہیں کچھ اضافی درکار نہیں، صرف اتنا کہ این ایف سی سے پنجاب کو ملنے والے حصے میں سے ان کے حصے کے پیسے انہیں دئیے جائیں ،اسی میں وہ جو کر پائیں، کریں گے۔
پنجاب کی تقسیم کا سوال کوئی انہونا یا گستاخانہ سوال نہیں۔پاکستانی پنجاب سے زیادہ بھارتی پنجاب میں پنجابی زبان، ادب، کلچر سے جڑت اور پیوستگی ہے،
انہوں نے گورمکھی پنجابی کو ایک باقاعدہ ، زندہ لکھنے پڑھنے والی زبان بنا رکھا ہے۔اس کے باوجود وہاں بھارتی پنجاب تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ پہلے ہریانہ کو الگ صوبہ بنایا گیا ، پھر ہماچل پردیش کو بھی الگ کر دیا گیا۔
نئے صوبے بننا وقت کی ضرورت بن جاتی ہے۔ بھارتی سکھوں کا پنجابی شاونزم بھارتی پنجاب تین حصوں میں تقسیم کرنے سے نہیں روک سکا۔ سلیقے کے ساتھ بروقت نیا صوبہ بنانے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر