نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جموں اینڈ کشمیر کی خبریں

جموں اینڈ کشمیر کی خبریں،تبصرے،تجزیے اور مسائل

کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی بھارتی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے
برٹش ہاوس آف لارڈز میں کشمیر سیمینار کا انعقاد

لندن،

برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ، نفیس زکریا نے کہا کہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے ۔یہ بات انہوںنے برطانیہ کی پارلیمنٹ میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

برطانیہ کی پارلیمنٹ میں منعقدہ سیمینار میں مقررین نے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کیا۔

ذرائع کے مطابق بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن کے انسانی حقوق انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر ، بیرونس ہیلینا کینیڈی نے اس سیمینار کی میزبانی کی۔

پارلیمانی سکریٹری ، قانون و انصاف ، بیرسٹر ملیکا بخاری ، برطانوی پارلیمنٹیرینز ، بیرونس سعیدہ وارثی ، لارڈ قربان حسین ، اسٹیو بیکر ، مارک ایسٹ ووڈ اور عمران حسین اور سکونا جولی نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ۔

نفیس زکریا نے 5 اگست 2019 سے مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں اور فوجی محاصرے میں زندگی گزارنے والے لوگوں کی حالت زار کی طرف عالمی برادری کی توجہ دلائی۔

ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا کہ ہندوستانی حکومت کی جانب سے میڈیا ، انٹرنیٹ اور مواصلات کے دیگر ذرائع کو ختم کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بیرونی دنیا خوراک اور ادویات کی کمی کی وجہ سے انسانی جانوں کے ضیاع سے بے خبر ہے۔

نفیس ذکریا نے سامعین سے کہا کہ وہ عالمی حقوق اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ہیومن رائٹس واچ ، انٹرنیشنل پیپلز ٹریبونل برائے ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس کشمیر ،ایسوسی ایشن آف پیرنٹس کی انسانی حقوق کی پامالیوں دستاویز کا مطالعہ کریں

بیرسٹر ملیکا بخاری نے کہا کہ گذشتہ سات دہائیوں سے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی قانون کے ساتھ ساتھ بھارتی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے کشمیر کو زمین کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل قرار دیا۔


مجھے ایس ایس جی کے ذریعہ ہراساں کیا جارہا ہے ، محبوبہ مفتی

سرینگر،

مقبوضہ کشمیر کی کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد جموں و کشمیر میں احتیاطی اقدام کے طور پر لگ بھگ 500 سیاسی رہنماوں کو حراست میں لیا گیاتھا۔ ریاستی سیاستدانوں کی طرف سے احتجاج اور اشتعال انگیزی کی توقع کرتے ہوئے ، ان میں سے بہت سے افراد کو اپنے گھروں یا دوسری جگہوں پر نظربند کیا گیا ہے ۔

ذرائع  کے مطابق جموں و کشمیر کی سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی گذشتہ اگست سے گھر میں نظربند ہیں ۔مفتی ، جو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ بھی ہیں ، نے ٹویٹر کے ذریعے الزام لگایا ہے کہ انہیں خصوصی سیکیورٹی گروپس کی طرف سے ہراساں کیا جارہا ہے۔

انہوں نے ایس ایس جی ، کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) اور انٹلیجنس بیورو (آئی بی)کی نگرانی کرنے کا بھی ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ سری نگر میں ایس ایس جی ، آئی بی اور سی آئی ڈی میری مسلسل نگرانی کرتے ہیں۔ کاش وزارت داخلہ اپنے وسائل کو زیادہ اہمیت کے حامل معاملات پر مرکوز کرے ۔ مجھ جیسی خواتین کو ڈنڈے مارنے کے لئے ٹیکس دہندگان کا پیسہ کیوں ضائع کیا جائے؟

کشمیر میں غیر قانونی طور پر نظربندی کے بعد ، اب مجھے ایس ایس جی کے ذریعہ ہراساں کیا جارہا ہے جو میری سرگرمیوں کی رپورٹ وزارت داخلہ کو رپورٹ کرتا ہے۔

میرے حق رائے دہی کو سیکیورٹی اینڈ سیفٹی کی آڑ میں کم کیا جائے گا۔ میں پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے بغیر یقینی طور پر زیادہ محفوظ ہوں۔

محبوبہ مفتی کا ٹویٹر اکاونٹ ان کی بیٹی التجا مفتی چلاتی ہیں ۔القمرآن لائن کے مطابق اس سے قبل التجانے بھی ایک انٹرویو میں کہا کہ انہیں بھارتی جبر کے خلاف آواز اٹھانے پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

التجا مفتی کا کہنا تھا کہ یہ وہ ملک ہی نہیں ہے جہاں میں بڑی ہوئی ہوں، والدہ کا ٹوئٹر اکانٹ استعمال کرنے پر بھی گرفتاری کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں،

آخری سانس تک دنیا کے سامنے مودی حکومت کا مکروہ چہرہ سامنے لاتی رہوں گی، مودی سرکار کے اوچھے ہتھکنڈے سچ بتانے سے نہیں روک سکتے۔


کشمیر میں حالات پر امن ہیں تو سیاسی رہنما قید کیوں؟

جموں ،

جموں کے سابق سول جج نے مرکزی حکومت کی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جموں و کشمیر میں حالات پر امن ہیں تو جموں وکشمیر کے تین سابق وزرائے اعلی کو نظر بند کیوں کیا گیا ہے؟۔

جموں کے سابق سول جج مظفر اقبال خان نے کہا کہ بھارت مرکزی حکومت کی پوری کہانی غلط ہے۔ذرائع  کے مطابق انہوں نے کہا ‘جموں وکمشیر میں کہیں بھی پوری طرح سے انٹرنیٹ خدمات بحال نہیں کی گئی ہیں،

جو ویب سائٹز حکومت کی طرف سے استعمال کرنے کو کہا گیا ہے، انہیں کوئی استعمال نہیں کرتا، جموں و کشمیر میں اب مہینوں اس حالت میں گزر گئے ہیں اور کب تک مرکز کشمیر کو اس حال میں رکھے گا؟

سابق جج نے کہاکہ مرکز کی طرف سے ہر بار یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے جموں و کشمیر میں یہ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

ذرائع  کے مطابق انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں خراب حالات مرکز کی طرف سے پیدا کیے گئے ہیں، مرکزی حکومت نے دفعہ 370 کو منسوخ کیا اور خطے میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا۔

مظفر خان نے مزید کہااگر جموں و کشمیر میں حالات پر امن ہیں تو حکومت کی طرف سے سابق وزرائے اعلی کو نظر بند کیوں رکھا گیا ہے۔

ذرائع  کے مطابق 5اگست 2019 سے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے سابق ریاست جموں و کشمیر کے تین سابق وزرائے اعلی فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو نظر بند کیا گیا ہے۔

سابق سول جج نے الزام لگایا کہ مرکزی حکومت خطے میں نوجوانوں پر تشدد کر رہی ہے۔
سابق ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے دفعہ 370 کو مرکز کی طرف سے پانچ اگست 2019 کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔

جس کے بعد 31 اکتوبر کو جموں و کشمیر کو دو حصوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا ہے۔


بھارت کے مرکزی وزرا کے دورے پر کشمیری عوام میں سردمہری

جموں ،

مرکزی وزرا سخت سکیورٹی بندوبست کے تحت بی جے پی کے کارکنوں سے ملے لیکن انکی عوامی رابطہ میٹنگوں میں لوگوں کی معقول تعداد دیکھنے کو نہیں ملی جس سے وہ مایوس ہوئے ۔

بھارتی مرکزی حکومت کے 36 وزرا گزشتہ ایک ہفتے سے جموں و کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں جس دوران وہ عوامی وفود کے علاوہ تعمیراتی کاموں کا افتتاح یا سنگ بنیاد بھی رکھ رہے ہیں۔

ذرائع  کے مطابق ان وزرا میں وزیر قانون روی شنکر پرساد اور اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے سرینگر میں لالچوک اور جی پی او کا دورہ کیا۔

اس کے علاوہ جونیئر وزرا جی کشن ریڈی، نتن آنند رائے اور شری پد نائک نے بھی گاندربل اور سرینگر کا دورہ کیا۔ ان وزرا کا کشمیر دورہ 24 جنوری کو اختتام ہوگا۔

وزرا نے کہا کہ جموں و کشمیر میں بھاجپا سرکار ترقیاتی کاموں اور منصوبوں میں وسعت اور سرعت لائے گی۔تاہم کشمیر کے عوام میں اس دورے کے دوران سرد مہری دیکھی گئی۔

ذرائع کے مطابق یہ وزرا سخت سیکورٹی انتظامات میں بھاچپا کے کارکنوں سے ملے اور انکی پبلک میٹنگوں میں لوگوں کی خاص تعداد دیکھنے کو نہیں ملی۔

مختلف طبقہ ہائے فکر سے وابستہ افراد نے اس دورہ کے مقاصد پر سوال اٹھائے۔ 36 مرکزی وزرا دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد عوامی رابطہ مہم کے تحت جموں و کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں

جس کا آغاز 18 جنوری سے جموں صوبے سے ہوا، لیکن ان وزرا میں سے صرف پانچ وزرا کشمیر کے تین اضلاع سرینگر، گاندربل اور بارہمولہ میں آٹھ مقامات کا دورہ کر رہے ہیں۔


بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں سرکاری ملازمین کی شرکت لازمی

جموں ،

مقبوضہ جموں کشمیر حکومت نے تین دہائیوں سے جاری روایت کو برقرار و بحال رکھتے ہوئے اس سال بھی بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریبات میں سرکاری ملازمین کی شرکت کو لازمی و ضروری قرار دیا ہے۔

حکومت نے اس سلسلے میں باقاعدہ حکم نامے جاری کئے ہیں جن میں حکم کی عدولی کرنے والے ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لانے کا انتباہ کیا گیا ہے۔

مبصرین کا متذکرہ حکم ناموں کے بارے میں کہنا ہے کہ جموں کشمیر بالخصوص وادی کشمیر میں یوم جمہوریہ یا یوم آزادی کی تقریبات میں عام لوگوں کی طرف سے شرکت کرنے سے بائیکاٹ کرنا حکومت کی طرف سے اس نوعیت کے حکم نامے جاری ہونے کی بنیادی اور اصلی وجہ ہے۔

جموں کشمیر، مرکز کے زیر انتظام خطہ بن جانے کے بعد، میں پہلی بار یوم جمہوریہ کی تقریبات منعقد ہورہی ہیں۔

ذرائع کے مطابق بھارت کی مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ کے علاوہ ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کیا گیا تھا

اوربعد ازاں جموں کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت جموں کشمیر مرکز کے زیر انتظام خطہ بن گیا اور لداخ الگ یونین ٹریٹری کے بطور نقشہ ہستی پر نمودار ہوا۔

جنرل ایڈمنسٹریشن محکمے کی طرف سے اس ضمن میں جاری ایک سرکلر میں تمام محکمہ جات کے سربراہوں سے تاکیدا کہا گیا ہے کہ

وہ یوم جمہوریہ کی تقریبات میں اپنی اور اپنے ماتحت عملے کی شرکت ہر حال میں یقینی بنائیں اور متذکرہ تقریبات میں شرکت کو اپنی منصبی ذمہ داری تصور کریں۔حکم عدولی کرنے والے ملازمین کو انتباہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ

تقریب میں شرکت نہ کرنے کو فرض منصبی کے ساتھ کوتاہی اور حکومتی ہدایات کی نافرمانی متصور کیا جائے گا۔

ذرائع  کے مطابق وادی کے تمام اضلاع کے ضلع مجسٹریٹ دفاتر سے بھی اسی نوعیت کے سرکلرزجاری ہوئے ہیں جن میں تمام سرکاری ملازمین یوم جمہوریہ کی تقریبات میں ہر حال میں شریک ہونے کو یقینی بنانے کی تاکید کی گئی ہے۔

مبصرین نے بتایا کہ حکومت کے یوم جمہوریہ کی تقریبات کے حوالے سے سرکاری ملازمین کے لئے احکامات کوئی نئی بات نہیں ہے اور یہ روش وادی میں نوے کی دہائی میں مسلح آزادی کی جدوجہس کے آغاز سے ہی جاری ہے۔

ذرائع  کے مطابق انہوں نے بتایاکشمیری عوام کی ایسی تقریبات میں عدم دلچسپی کے باعث حکومت کو ایسے موقعوں پر بھیڑ اکھٹا کرنے کے لئے سرکاری ملازمین اور اسکول کے بچوں پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔

القمرآن لائن کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں یوم جمہوریہ کی تقریبات کے حوالے سے سب سے بڑی تقریب جموں کے مولانا آزاد اسٹیڈیم میں منعقد ہوگی

جہاں جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو پرچم کشائی کی رسم انجام دیں گے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ

حریت رہنما ہر سال یوم جمہوریہ یا یوم آزادی کو یوم سیاہ منانے اور مکمل ہڑتال کی کال دیتے تھے لیکن سال گزشتہ کے اگست کی پانچ تاریخ سے تمام رہنما نظر بند ہیں ۔

About The Author