نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرمد کھوسٹ، تم نے زندگی کیوں تماشا بنائی؟۔۔۔عفت حسن رضوی

پیارے سرمد! یہ تماشے تو یہاں چلتے رہیں گے۔ اب جو تم زندگی کے آئینے میں ہم سب کا ڈراؤنا عکس دیکھو تو چیخنا نہیں، بس گھٹ کر مر جانا۔

تم چاہو تو سرسوں کے کھیت میں لاچا پہنے بھاری بھر کم ہیروئن کو کلہاڑی تھامے ہیرو کے سامنے ناچتے ہوئے دکھا سکتے ہو۔ تم ’وحشی درندہ‘ یا پھر ’کلاشنکوف راج‘ نام سے فلمیں بناؤ یقین جانو نہ سینسر بورڈ کو اعتراض ہوگا نہ کسی اور کو ٹھیس پہنچے

اماں یار سرمد! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ جہاں صبح و شام زندگی تماشا چل رہی ہو تم وہاں اتنے پیسے لگا کر ’زندگی تماشا‘ فلم بنا بیٹھے۔

کچھ ہم سے ہی پوچھ لیا ہوتا کم از کم ہم ایسی فضول خرچی کا مشورہ  ہرگز نہ دیتے۔ تم نے خواہ مخواہ ہی فلم کے اداکاروں کو مٹھی بھر بھر کر نوٹوں کی ادائیگی کی ہو گی. اپنے آس پاس دیکھو اس جیتی جاگتی دنیا میں تمھیں کتنے ہی سچ مچ کے اداکار مل جائیں گے۔ کسی اداکار نے جبہ و دستار لے رکھا ہو گا، تو کوئی سوٹ بوٹ ٹائی میں اداکاری کے جوہر دکھا رہا ہو گا۔

میاں سرمد تم نے جو زندگی تماشا ہی بنانی تھی تو پہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے پوچھ لیا ہوتا، کسی علامہ سے نحس و سعد تاریخ نکلوا لی ہوتی، فلم کا سکرپٹ لے جا کر کسی مولوی سے استخارہ ہی کروا لیتے۔ اور کچھ نہیں تو کسی طوطے سے فال نکلوا لی ہوتی یا کسی میاں مٹھو کا آشیر باد لے لیا ہوتا۔

سرمد، یہاں تو پہلے ہی نمائش پر بڑی بڑی فلمیں لگی ہیں لیکن جو کامیابی ڈرامہ سیریل ’جمہوریت‘ کو ملی وہ بےمثال ہے۔ ایک اور پیشکش ’کٹھ پتلی حکومت‘ ہے جس کی ڈرامہ سیریز بھی نام بدل کر آتی رہتی ہے، وزرا ہر روز پریس کانفرنس کے نام پر جگت بازی کا تھیٹر لگاتے ہیں، سیاست دانوں کو کیچڑ اچھالنے کے لیے سوشل میڈیا کا سٹیج اور پرائم ٹائم ٹاک شوز مل گئے، شادیوں میں تھپڑ بازی کے فائٹنگ سین وغیرہ ہو جاتے ہیں۔

بھیا یہاں تو جدھر دیکھو ادھر تماشا ہے، اور تم ہو کہ سینیماؤں میں ایک نیا تماشا دکھانا چاہتے ہو۔ کہیں مفت روٹی کھلانے کا احسان تو کہیں گوشت چیلوں کو کھلانے کا تماشا۔ کبھی گندم کی اضافی پیداوار پر شادیانے تو کبھی آٹے کے بحران کا تماشا۔

کبھی آئین کی بالادستی کا ڈرامہ کبھی بوٹ کا تماشا، ایک طرف کشمیر کی آزادی کے دعوے تو دوسری طرف جمعے کے جمعے ایک ٹانگ پہ کھڑے ہونے کا تماشا۔ ادھر مفلس باپ کی خودکشی پر گہرا سکوت، ادھر کتے کی آنکھ میں آنسو دیکھ کر دل پگھلنے کا تماشا۔

سرمد تم لوگوں کو زندگی کے ان دیکھے تماشے دکھانا چاہتے ہو نا؟ چلو تمھیں میرے گھر میں کام کرنے والی بیوہ آنٹی کی کہانی سناتی ہوں۔ ان کے 10 سالہ بیٹے کو راولپنڈی کے پیرودھائی بس اڈے پر بطور کلینر کام ملا، زندگی کا تماشا دیکھو کہ کام پر لگنے کے دو ہفتے بعد ہی ان کا بچہ بس اڈے سے غائب ہو گیا۔

پریشان ماں کو مہینے بعد یہ پیغام ملا کہ ان کا چھوٹا بیٹا بچہ بازوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا، یہ بھی یقینی نہیں کہ مر گیا ہے یا یہیں کہیں درندوں کے ہاتھوں روز مرتا ہے۔ وہ دوسرے شہروں میں بھی ماری ماری پھری، تھانوں کے چکر بھی کاٹے۔

اس بات کو پانچ برس گزر چکے ہیں وہ اب بھی اکثر اپنے بیٹے کا پوچھنے پیر ودھائی بس اڈے پر چکر لگا لیتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ وہاں اور بھی کئی گندے جسموں والے بچے بسیں صاف کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ سناتی ہے کہ ان اڈوں پر کیسی نظریں اس کی جانب اٹھتی ہیں۔ بتاؤ سرمد کیا اس ماں کی زندگی کسی تماشے سے کم ہے؟

سرمد اب یہ نہ کہنا کہ تم قصور کی ننھی زینب کو بھول گئے جس کے معاملے پر میڈیا، سیاست دانوں اور مولویوں نے کیسے کیسے تماشے کیے تھے۔ کراچی میں قتل کیے گئے ریحان کی زندگی بھی کسی تماشے سے کم تو نہیں تھی۔ وہ ٹیلر ماسٹر کا بیٹا ریحان جس کی قمیض پہ لکھا تھا، ’اپنا ٹائم آئے گا۔‘ کیسے موبائل کیمرے کے سامنے اسے مار مار کر جان نکالی گئی۔ ہمارے تماش بینوں کو ہر دن ایک نیا تماشا مفت میں مل جاتا ہے پھر کوئی کیوں ٹکٹ دے کر تمہاری فلم دیکھنے جائے؟

تماشوں کی اس بھیڑ میں ایک دو نہیں ایسے ان گنت شیاطین کی ویڈیوز مل جائیں گی جو مذہب کی آڑ میں درندگی کرتے ہیں۔ ڈھونڈیں تو سہی، یہ حقیقی کردار موبائل کیمرے کے سامنے بچیوں اور بچوں سے جنسی بدفعلی کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ربڑ کے پائپ سے بچوں کو مارنے کے لائیو شاٹس، بچی کو جنسی ہراساں کرنے پر قاری صاحب کی درگت کا منظر، قرآن کریم کے مخارج کی غلط ادائیگی پر مار مار کر کان کے پردے پھاڑ دینے کے مناظر، یہ سب آن لائن موجود ہے۔

سرمد تمھاری فلم میں ایسا کیا انوکھا ہے؟ ایسی سینکڑوں کہانیاں ہمارے ارد گرد بکھری ہوئی ہیں جن کی زندگی دنیا کے لیے تماشا بنی، جن کی دکھ بھری کہانی فلمی سٹوری بن گئی، جن کی جانے انجانے میں بنی کوئی ویڈیو وائرل ہوئی اور ان کی زندگی تلپٹ ہوگئی۔ ایسی کہانیاں جن کے کرداروں نے لمحوں کی خطاؤں پر صدیوں لمبی سزا پائی۔

سرمد تم کہتے ہو کہ یہ ایک نہایت شدید مذہبی انسان کی کہانی ہے جس نے اپنے تئیں زندگی کی طرف ایک قدم اٹھایا اور اس کی زندگی تماشا بن گئی۔ مگر کچھ عقل کے اندھوں کو تمھاری فلم پر بن دیکھے اعتراضات ہیں۔

وہ کہتے ہیں تمھاری فلم کے مرکزی کردار کی داڑھی کیوں ہے؟ تم نے نعت خواں کا کردار کیوں لکھا؟ تمھارے کردار نے لفظ ’بچہ بازی‘ کیوں بولا؟ تمھاری فلم میں مردوں کے بیچ ناچتے مرد کو کیوں دکھایا گیا؟ قطع نظر اس کے کہ تمھاری فلم میں دکھائے گئے یہ مناظر وہی ہیں جو ہمارے اردگرد ہو رہا ہے۔ مگر تم نے یہ دکھانے کی جرات بھی کیسے کی کیوں کہ ان مناظر کے جملہ حقوق بحق ’پریشر گروپ‘ محفوظ ہیں۔

تم جو چاہو تو سرسوں کے کھیت میں لاچا پہنے بھاری بھر کم ہیروئن کو کلہاڑی تھامے ہیرو کے سامنے ناچتے ہوئے دکھا سکتے ہو۔ تم ’وحشی درندہ‘ یا پھر ’کلاشنکوف راج‘ نام سے فلمیں بناؤ، یقین جانو نہ سینسر بورڈ کو اعتراض ہوگا نہ کسی اور کو ٹھیس پہنچے گی۔ فلم ٹائم پہ ریلیز ہوگی اور تماش بینوں سے داد بھی ملے گی مگر تم تو کہتے ہو کہ تم پاپ کارن کے ساتھ دیکھی جانے والی فلمیں نہیں بناؤ گے۔

پیارے سرمد! یہ تماشے تو یہاں چلتے رہیں گے۔ اب جو تم زندگی کے آئینے میں ہم سب کا ڈراؤنا عکس دیکھو تو چیخنا نہیں، بس گھٹ کر مر جانا۔ جس کسی نے بھی اس آئینے میں ہمارے معاشرے کو اس کی بدصورت شکل دکھانا چاہی پتا ہے اس کو کیا سزا ملی؟ اس کی زندگی تماشا بنا دی گئی۔

About The Author