نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی کے معروف شاعر امان اللہ ارشد کے اعزاز میں یادگاری تقریب

رومانونیت اور احتجاج ،لاشعوری یا شعوری طور پر کوشش کرتاہوں کہ دوہڑے اور غزل میں میرا رنگ منفرد اور جداگانہ ہو

سرائیکی کے معروف شاعر امان اللہ ارشد کے اعزاز میں یادگاری تقریب

رپورٹ: محمد شاہد دھریجہ

سرائیکی زبان کے ساتھ عشق کی حد تک پیار ہے۔ یہ بات معروف شاعر امان اللہ ارشد نے نیشنل پریس کلب کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب”امان اللہ ارشد کے ساتھ ایک شام“ میں کی۔ شکیل قرارصدرنیشنل پریس کلب، ڈاکٹر سعدیہ کمال نائب صدر نیشنل پریس کلب،

دانشور و اسکالر محمود مہے، صحافی غضنفر عباس نے ان کی شخصیت اور فن و ادب کے حوالے سے گفتگو کی جبکہ صحافیوں اور دیگر احباب نے سوالات کیے۔ معروف شاعر امان اللہ ارشد نے کہا کہ میری شاعری میں سرائیکی دھرتی، روہ ، روہی ،تھل دمان ، بیٹ ، بیلا کا رنگ بہت نمایاں ہے ۔

رومانونیت اور احتجاج ،لاشعوری یا شعوری طور پر کوشش کرتاہوں کہ دوہڑے اور غزل میں میرا رنگ منفرد اور جداگانہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ جب میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا تو تب سے مجھے شاعری کرنے کا شوق ہوا تاہم 1981ءسے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا ،

صوفی فیض محمد دلچسپ میرے استاد ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ دوہڑہ میری پسندیدہ صنفِ سخن ہے تاہم غزلیں ،قطعے، سرائیکو بھی بہت لکھےں ۔ انھوں نے کہا کہ اب تک میری شاعری کی پانچ کتابیں ”دھمال“ سک دا ساون“، اکھیں خواب جگارے،ارشد دے ڈوہڑے“چھپ کر مارکیٹ میں آ چکی ہیں

جبکہ نعتیہ مجموعہ کلام بہت جلد کتابی شکل میں سامنے آ جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اُردو میں بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن سرائیکی زبان سے میرا عشق کی حد تک پیار ہے میری زیادہ تر شاعری سرائیکی زبان میں ہے ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے فوٹو گرافی بھی کی ہے لیکن میری ہر شام مشاعرہ پڑھتے اور صبح سفر کرتے گزرتی ہے جس کی وجہ سے اس کام کو جاری نہ رکھ سکا۔

انھوں نے کہا کہ میں 1972ءمیں کھائی خیر شاہ تحصیل خان پور ضلع رحیم یارخان میں پیدا ہوا اور یہیں سے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ 1986ءمیں میری پہلی کتاب شائع ہوئی جس کا نام ”ارشد کے دوہڑے“ تھا۔

ریڈیو پاکستان بہاولپور اور ملتان کے معروف گلوکار میرے دوہڑے اور گیت بڑے شوق سے گاتے ہیں جنھیں بہت زیادہ پذیرائی ملتی ہے۔

نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل قرار نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔ انھوں نے کہا کہ امان اللہ ارشد سرائیکی زبان کے میٹھے اور دھیمے لہجے کے بہت اچھے شاعر ہیں۔ سرائیکی وسیب کے لیے اُن کی خدمات قابل ستائش ہیں۔

اُن کی شاعری میں محبت اور مٹھاس کے عناصر فطر ی ہیں۔ ڈاکٹر سعدیہ کمال نے کہا کہ اُن کی شاعری میں رومانیت اور مزاحمت کا حسین مرقع ہے۔ وہ ملنسار، شائستہ مزاج اور خوش گفتار انسان ہیں۔

محمود مہے نے کہا کہ امان اللہ ارشد نے اپنی شاعری میں عام لوگوں کے دُکھ درد کی بات کی ہے۔ اُن کی شاعری میں سرائیکی وسیب سے ہونے والی محرومیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔

تقریب میں نذر عباس بلوچ، خادم حسین، غضنفر ہاشمی،ساجد دمانی، حمید لنگرا،جاوید غفاری، صابر ملک، دلشاد محور، جنید بزدار، شاہد قریشی،محمد عمران ، ظفر قادر، رزاق سیال، محمد ریاض،ظفر بھٹہ،یعقوب علوی، خالد ایازمحمد رفیع کے علاوہ جڑواں شہروں اسلام آباد،

راولپنڈی میں مقیم سرائیکی کمیونٹی نے بھرپور شرکت کی۔ صدر نیشنل پریس کلب شکیل قرار نے معزز مہمان کو اعزازی شیلڈ پیش کی جبکہ محمدرفیع نے سرائیکی پگ اورشاہد دھریجہ نے سرائیکی نیلی اجرک پہنائی۔ یوں یہ پُروقار تقریب خوبصورت یادیں سمیٹتے اپنے اختتام کو پہنچی۔

About The Author