دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لکھاری کیا لکھے ؟۔۔۔وقار حیدر

ویسے فیض صاحب نے یہ ہماری نسل یا یوں کہہ لیجئے نسل نو کیلئے تو نہیں لکھا تھا لیکن انکی نظم کا یہ حصہ میں اپنی تحریر کے کام لایا ہوں

جون ایلیا کہتے ہیں بہت سے لکھنے والوں کو پڑھنے کی ضرورت ہے
دوسری طرف یوسفی صاحب کہتے ہیں جب مصنف کو مطالعہ میں مزہ آنے لگے تو سمجھو نری حرام خوری پر اتر آیا ہے
جب بھی کوئی نو مولود شخص اپنے خیالات کو قافیہ و ردیف کا پیرہن دیتا تو اسے لگتا ہے کہ اسکے الفاظ نے شعر کو جنم دیا ہے جبکہ شعراء حضرات اسکو پڑھتے ہی ۔۔ نانا اسکو دیکھتے ہیں کہتے ہیں میاں یہ خیالات کا مجموعہ تو ہے ،خیال بھی اچھا ہے لیکن اسکو سخن نہیں کہا جا سکتا ۔ مطلب سابقہ و لاحقہ کے خیال کیساتھ اگر قافیہ ردیف مل بھی جائے تو بھی وزن میں انصاف ہونا ضروری ہے۔
کل سے سوچ رہا ہوں لکھوں کچھ ، پھر خیال آتا ہے کہ اپنے بکھرئے ہوئے خیالات کو کس نقطے پر یکجا کروں ؟ کیا لکھوں ؟ کن الفاظ کا چناؤ کروں کہ پڑھنے والے اسکو اچھی تحریر سمجھیں ۔ مجھے تو یہی بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ہم اپنے لیے لکھتے ہیں یا دوسروں کیلئے ؟ میرے خیال میں ہم اپنی عزت و تکریم ، بول بالا ، نام و نمود کی خاطر چند الفاظ کشید کرتے ہیں اور پھر انکو عوامی حلقوں کی نظر اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اسکو پڑھیں انھیں محسوس ہو کہ یہ ان کیلئے لکھا گیا ہے اور ہر لفظ میں انکی کہانی اور انکے احساسات کی ترجمانی ہے۔
پچھلے ایک ہفتے سے خلیل جبران کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں اور آج واصف علی واصف کو پڑھا ۔۔ خلیل جبران محبت کی بات کرتے ہیں اور واصف صاحب زندگی کی ۔۔ کہیں کہیں رائٹ لیفٹ کا کمبینیشن لگتا ہے تو کہیں دونوں سیم پیج پر دکھائی دیتے ہیں ۔ مجھے دونوں ایک ساتھ پڑھنے کا مزہ آیا جب محبت سے تھک جاتا ہوں تو زندگی میں لوٹ آتا ہوں اور جب زندگی سے بیزار ہوتا ہوں تو محبت کے جذبوں ، حدتوں ، تمازتوں ، مصلحتوں اور کارستانیوں کی کہانیوں سے سبق لینے کی ناکام کوشش کرتا ہوں ۔ ناکام اسلیے کہہ رہا ہوں کہ جس زندگی اور محبت کی بات یہ دونوں احباب کر رہے ہیں اب تو وہ صرف کتابوں میں ہی ملتی ہے اور بقول سعود عثمانی یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی ۔ زندگی جدید ہوگئی ہے اور لوگ پریکٹیکل، بقول فیض صاحب کے
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے جو عشق کو کام سمجھتے تھے یا کام سے عاشقی کرتے تھے ۔۔
ویسے فیض صاحب نے یہ ہماری نسل یا یوں کہہ لیجئے نسل نو کیلئے تو نہیں لکھا تھا لیکن انکی نظم کا یہ حصہ میں اپنی تحریر کے کام لایا ہوں ۔۔ یہی دور ہے جب عاشقی کو کام سمجھ کر کیا جاتا ہے اور وصال کے لمحے ہماری نوکری کے اوقات سے ہٹ کر ہوتے ہیں ۔ بقول کسی شاعر کے
ہمارے پیروں میں بیڑیاں ہیں ملازمت کی
ہمارے وعدے ہمارے چھٹی سے منسلک ہیں
مطلب اب ملنے ملانے کا کوئی پروگرام ہو تو عموما ویک اینڈ پر بنایا جاتا ہے اور اگر Distance Relationship ہو تو پھر تو مہینوں بعد ملاقات ہو گی اور تو اور اب تو فون پر بھی گھنٹوں کال کرنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اس منڈی میں یوسف کیساتھ زلیخائیں بھی ہیں ۔ گذشتہ رات کو ہی نیوز روم میں ایک لطیفہ پیش کیا گیا کہ سہاگ رات شوہر فخریہ انداز میں بیوی کو اپنے سابقہ افیئرز بارے بتا رہا تھا تو بیوی جھٹ سے بولی جب ہماری بات طے ہوئی تھی تب ہی میں سمجھ گئی تھی کہ جب کنڈلیاں ملی ہیں تو کرتوت بھی ملتے ضرور ملتے ہوںگے۔
کامیاب زندگی کیا ہے ؟
تو بات ہو رہی تھی زندگی اور محبت کی کہ بیچ میں نوکری نے لچ تل دیا ۔۔ آجکل سوشل میڈیا پر اسی حوالے سے ایک ویڈیو کلپ گردش کر رہا ہے ،ثمینہ پیرزاد انٹرویو لے رہی ہیں ڈاکٹر عارفہ سید سے اور کامیاب لوگوں کی بات ہورہی ہے، عارفہ کہتی ہیں کہ میں جب کامیاب لوگوں سے متعلق سنتی تھی تو سوچتی تھی کہ بہت محبت کرنے والے لوگ ہوں ، اچھا بولنے والے لوگ ہوں گے ، عزت کرنے اور گفتگومیں بہترین الفاظ کا چناو کرنے والے لوگ ہوں لیکن میں نے دیکھا کامیاب بہترین نوکری اور پوسٹ والے کو کہا جاتا ہے ، علم بھی بہترین نوکری کیلئے حاصل کیا جا رہا ہے۔ اگلا جملہ بہترین تھا کہ زندگی کو ملازمت چاہیئے، ملازمت کو زندگی نہیں۔ لیکن ایک پریکٹیکل نوجوان نے اسی پوسٹ کے نیچے لکھ دیا۔۔ ہاں، یہ باتیں اگرچہ دل کو چھو لیتی ہیں ، لیکن بھوک تہذیب بھلا دیتی ہے، اور تو اور ایک اور جواب دیا گیا کہ یہ امیروں کی باتیں ہیں ۔ اب عوام کی بات کو پلو میں باندھیں یاخواص کی ؟ اور بقول افتخار عارف صاحب کے یہ عقدہ تب کھلے جب تماشہ ختم ہوگا۔

میرا مسئلہ ہی یہی ہے لکھنا کچھ ہوتا ہے اور لکھا کچھ اور جاتا ہے ، سفر شروع کرنے سے پہلے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ منزل کیا ہے لیکن جونہی الفاظ کے گھوڑے پر سوار ہوتا ہوں تو پھر یہ الفاظ بے لگام ہوکر مجھے اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں اور جہاں دل کرتا ہے رک جاتے ہیں ، دوبارہ سوچنے لگتا ہوں کہ سفر کہاں کیلئے اختیار کیا تھا اور اب ان الفاظ کے منہ زور گھوڑے نے کہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
آجکل سوشل میڈیا پر اسی حوالے سے ایک ویڈیو کلپ گردش کر رہا ہے ،ثمینہ پیرزاد انٹرویو لے رہی ہیں ڈاکٹر عارفہ سید سے اور کامیاب لوگوں کی بات ہورہی ہے، عارفہ کہتی ہیں کہ میں جب کامیاب لوگوں سے متعلق سنتی تھی تو سوچتی تھی کہ بہت محبت کرنے والے لوگ ہوں ، اچھا بولنے والے لوگ ہوں گے ، عزت کرنے اور گفتگومیں بہترین الفاظ کا چناو کرنے والے لوگ ہوں لیکن میں نے دیکھا کامیاب بہترین نوکری اور پوسٹ والے کو کہا جاتا ہے ، علم بھی بہترین نوکری کیلئے حاصل کیا جا رہا ہے۔ اگلا جملہ بہترین تھا کہ زندگی کو ملازمت چاہیئے، ملازمت کو زندگی نہیں۔ لیکن ایک پریکٹیکل نوجوان نے اسی پوسٹ کے نیچے لکھ دیا۔۔ ہاں، یہ باتیں اگرچہ دل کو چھو لیتی ہیں ، لیکن بھوک تہذیب بھلا دیتی ہے، اور تو اور ایک اور جواب دیا گیا کہ یہ امیروں کی باتیں ہیں ۔ اب عوام کی بات کو پلو میں باندھیں یاخواص کی ؟ اور بقول افتخار عارف صاحب کے یہ عقدہ تب کھلے جب تماشہ ختم ہوگا۔
میں اورآپ کئی برسوں سے سفر کر رہے ہیں سب کو ہی کامیابی چاہیئے، سب اپنی اپنی خواہشوں کو پورا کرنے میں مگن ہے ، سب کی اپنی اپنی کہانیاں اور کارستانیاں ہیں ،کچھ دن کے پارسا راتوں کو شیطان بن جاتے ہیں ۔
خلیل جبران جب محبت بارے عوام کی رائے جاننا چاہتے تو کو کلیسا کے باہر جا کر کھڑے ہو گئے اور ہر آنے والے محبت کیا ہے ؟ کا سوال کرتے رہے سب کا جواب مختلف تھا سب کے تجربات و احساسات مختلف تھے سو انھوں نے سب کو ہی لکھ ڈالا ۔۔
میں اب زرا مسلمان واقعہ ہوا ہوں مسجد کی راہ تو نہیں لی لیکن ہاں سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کی رائے کیلئے سوال لکھ بھیجا کہ کامیاب زندگی کیا ہے ؟ جواب کچھ یوں تھے ۔۔ سہیل رشید لکھتے ہیں
کامیاب زندگی کا ہر شخص اپنا پیمانہ ہے ۔ کامیابی اور ناکامی کی تعریف بھی ہر دل میں الگ، ہر دماغ میں جُدا۔ کہیں ڈگری تو کہیں اچھی نوکری، کوئی شادی کو تو کوئی اپنے بچوں کو تمام سہولیات مہیا کرنا یا پھر اپنے والدین کے چہرے پر خوشی دیکھنے کو کامیاب زندگی کی علامت قرار دیتا ہے ۔ دراصل اس معاشرے کی بھیڑ میں ہر شخص نے اپنے لئے جو ہدف مقرر کر رکھا ہے اسی کو حاصل کر لینا اس کے لئے کامیاب زندگی ہے۔ایک پہلو مذہبی بھی ہے، آفاقی پہلو وہی ہے۔ انسان کم ہی دنیا میں بھیجے جانے کے مقصد پر غور کرتا ہے اور یوں بظاہر سب کچھ حاصل کر کے بھی ناکام لوٹ جاتا ہے
“دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں”
خالق اس سے راضی ہو اور وہ خالق سے راضی ہو،اگر زندگی ایسی گزار لی تو کامیاب زندگی ہے ،اگر ایسا نہ ہوا ہوا تو زندگی ناکام ہے پھر بھلے آپ اپنی فیلڈ کے بل گیٹس ، شیکسپئر ، غالب ، کسنجر ، چانکیا کیوں نہ ہو جائیں
عدیل سرفراز لکھتے ہیں ۔ زندگی کی کامیابی یا ناکامی میں فرق واضح کرنا اگرچہ زرا پیچیدہ معاملہ ہے، تاہم اسکا اندازہ ذہنی سکون سے ضرور لگایا جا سکتا ہے۔ جو شخص اپنی زندگی میں پرسکون نہیں ہے اسے کامیاب قرار دینا مناسب نہیں ہو گا۔
عرفان کہتے ہیں کہ انسان اپنی محنت سے جو وسائل زندگی حاصل کرتا ہے اگر وہ ان حاصل کردہ وسائل سے مطمئن ہے تو میرے خیال میں وہ انسان ایک کامیاب زندگی گزار رہا ہے ۔ کامیابی کا تعلق آپ کے اطمینان سے ہے جس مقام پر آپ اپنی زندگی میں اطمینان محسوس کریں گے وہ آپ کی حقیقی کامیابی زندگی ہے۔ مظفر احمد کہتے ہیں زندگی میں سکون ہی سکون ہے اور یہی کامیاب زندگی ہے
سدرہ سعید لکھتی ہیں ہر شخص کیلئے کامیاب زندگی کے معنی مختلف ہیں یہاں یہ پوچھ کر کہ کامیاب زندگی کیا ہے میرے سامنے ایک اور سوال کھڑا کردیا ہے کہ کامیاب زندگی حقیقت میں ہے کیا؟ کامیاب زندگی پر مزید سوچنا پڑے گا جبکہ سدرہ اختر نے کہا میرے نزدیگ کامیاب زندگی بندے کے پاس اتنا پیسہ ہو کہ اپنی ضروریات پوری کر سکے اور اندرونی طور پر خوش ہو
ثنا نقوی نے لکھا کہ آج کے دور میں کامیابی اور اسٹیٹس کا جتنا موازنہ کیا جاتا ہے کامیابی کی آخری حد مقرر نہیں کی جا سکتی اسی لئے زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا محور آپکی اپنی سوچ ہے آپکے پاس جو ہے اس سے قلبی و ذہنی طور پر مطمئن ہونا ہی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔۔۔
اور ہمارے ایک استاد ہیں انھوں نے زندگی کیا ہے ؟ کے سوال پر ایک شعر لکھ بھیجا
‏بڑا باریک نکتہ ہے اگر سمجھ پاؤ
‏سقراط اگر زہر نہ پیتا، تو مر جاتا
اب سکون اور مطمئن رہنا زندگی یا زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے سوال باقی ہے ؟

About The Author