نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خبریں ہی خبریں ۔۔۔حیدر جاوید سید

رپورٹ کے مطابق سروے کے دوران کئے جانے والے سوالات کے جواب میں شہریوں کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی متاثر کن نہیں ہ

سرکاری توشہ خانے سے گاڑیاں اور تحائف کم قیمت پر لینے کے الزام میں سابق صدر آصف علی زرداری’ سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کیخلاف ایک ایک ریفرنس مزید دائر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے وزیراعظم عمران خان کے مشیر سید ذوالفقار علی بخاری (زلفی بخاری) کیخلاف انکوائری کرنے کی منظوری دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے ٹھوس ثبوت نہیں ملے۔

ادھر وفاقی حکومت نے اپنی اتحادی جماعتوں کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ان کے جائز مطالبات پورے کئے جائیں گے۔
جبکہ وزیراعظم نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ان کی حکومت عوام کو مہنگائی سے ریلیف دلوانے کیلئے موثر اقدامات کرے گی۔
دو سروے رپورٹیں اور ایک خبر دلچسپ ہے۔
خبر یہ ہے کہ
"مالی مشکلات کے باعث سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے گھر جاتی امراء میں مختلف خدمات سرانجام دینے والے 40 سے زیادہ ملازمین کو واجبات ادا کئے بغیر ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا۔ فارغ کئے جانے والے بعض ملازمین کو پچھلے چار سے چھ ماہ کی تنخواہیں بھی نہیں ملیں”۔

پہلی سروے رپورٹ یہ ہے کہ
مسلم لیگ (ن) کے 49فیصد ورکروں اور ہمدردوں نے پارٹی قیادت کیلئے حمزہ شہباز شریف اور 12فیصد نے میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ یہ گیلپ سروے کس نے اور کیوں کروایا
اورکیا اس کی ضرورت اس لئے آن پڑی کہ پچھلے چند ہفتوں سے نون لیگ شہباز گروپ اور لندن گروپ کی باتیں زبان زد عام ہیں اور چند ارکان پارلیمنٹ اپنی تقاریر و ٹی وی پروگراموں میں یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ بعض حالیہ فیصلوں میں پارٹی قیادت نے میاں نواز شریف اور پارٹی کی مرکزی نائب صدر مریم نواز کو اعتماد میں نہیں لیا؟۔

دوسرا سروے ایک اور تصویر دکھا رہا ہے اس سروے کے مطابق
پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران مہنگائی سے81فیصد’ بیروزگاری سے79فیصد’ غربت سے 56فیصد اور ٹیکسوں سے 55فیصد شہری پریشان ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سروے کے دوران کئے جانے والے سوالات کے جواب میں شہریوں کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی متاثر کن نہیں ہے۔
فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ وزراء اور محکمے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے اُٹھتے بیٹھتے یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں گمبھیر مسائل ورثے میں ملے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران ان مسائل سے لوگوں کو نجات دلوانے کیلئے حکمت عملی کیوں وضع نہیں کی جاسکی؟
اسی دوران ایک اچھی خبر یہ آئی کہ ا لیکشن کمیشن میں سندھ اور بلوچستان کی نمائندگی کیلئے اپوزیشن کی جانب سے پیش کئے جانے والے ناموں پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے ہوگیا ہے جس سے یہ امید بندھی ہے کہ اگلے چند دنوں میں چیف الیکشن کمشنر کے نام پر بھی فریقین میں اتفاق رائے ہو جائے گا۔
ایک ذریعہ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان اتفاق رائے کیلئے کوشاں حلقوں کی وجہ سے ہی اپوزیشن ارکان چیف الیکشن کمشنر کیلئے حکومت کی طرف سے دئیے گئے سابق وفاقی سیکرٹری سکندر سلطان راجہ کے نام پر متفق ہوئے جس پر حکومتی ارکان نے سندھ اور بلوچستان کیلئے اپوزیشن کے پیش کردہ ناموں پر اتفاق کا عندیہ دیا۔
اپوزیشن نے سندھ سے نثار درانی جبکہ بلوچستان سے شاہ محمود جتوئی کے نام دئیے تھے۔
دونوں اطلاعات درست ہیں تو یہ خوش آئند ہے نامکمل الیکشن کمیشن کی وجہ سے جہاں بہت سارے مسائل پیدا ہو رہے وہیں یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اگر پارلیمانی کمیٹی اپنا کام خوش اسلوبی سے نہ کرپائی تو پھر معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوگا۔
بہرطور یہ اچھی خبر ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے ارکان نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا۔

وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن کا یہ کہنا بجاطور پر درست ہے کہ سیاستدان آپس میں لڑتے رہیں تو اس کا نقصان ہمیشہ جمہوریت کو ہی ہوتا ہے۔
سیاستدانوں اور خصوصاً نوانصافیوں کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی اس پر خود سیاستدانوں اور خصوصاً نوانصافیوں کو غور کرنا ہوگا۔
ماضی کے جھگڑوں اور کردار کشیوں کی مہمیں سیاسی تاریخ کا شرمناک حصہ ہیں گو انہیں بڑھاوا دینے والے اب اس پر شرمندہ ہیں
مگر بدقسمتی سے وہ اب بھی اپنے حامیوں کی سیاسی تربیت کرنے کیساتھ ان کے غیرسیاسی رویوں کی حوصلہ شکنی کرنے کو تیار نہیں
جس سے یہ تاثر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ شرمندگی کا اظہار محض لوگوں کی ہمدردی بٹورنے کیلئے ہے۔
حقیقت میں تو اب بھی مخالفین کی پگڑیاں اُچھالنے اور کردارکشی کو ہی سیاسی برتری سمجھا جاتا ہے۔
اب چلتے چلتے یہ بھی سمجھ لیجئے کہ پنجاب میں حالیہ ”صلح کل” سے عبارت اعلان کے باوجود تحریک انصاف اور ق لیگ میں معاملات اچھے ہرگز نہیں۔
چودہری برادران پچھلے کچھ عرصہ سے نون لیگ کے بعض ارکان پنجاب اسمبلی کیساتھ رابطوں میں ہیں۔
فقیر راحموں کا دعویٰ یہ ہے کہ نون لیگ کے لگ بھگ 31 ارکان پنجاب اسمبلی نے چودھری برادران کو یقین دہانی کروائی ہے کہ اگر وہ عثمان بزدار کو رخصت کروانے اور پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنوانے کیلئے سیاسی داؤ پیچ کھیلتے ہیں تو وہ ان کیساتھ کھڑے ہوں گے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ پچھلی شب ق لیگ کے رہنما اور چودھری برادران کی ”زبان” سمجھے جانے والے کامل علی آغا نے بہت ساری دوسری باتوں کیساتھ یہ کہا کہ ”اگر لوگ یہ کہتے ہیں کہ پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ ہونا چاہئے تو یہ کچھ غلط بھی نہیں
اور یہ کہ چودھری پرویزالٰہی کی پنجاب کیلئے بڑی خدمات ہیں’۔
صاف سیدھا مطلب یہ ہے کہ چودھری برادران پنجاب کے اقتدار اعلیٰ کے حصول کیلئے جاری کوششوں کے حوالے سے پراُمید ہیں کہ تحریک انصاف حالات سے مجبور ہو کر ان کی بات ماننے پر مجبور ہوجائے گی۔

About The Author