کسے معلوم تھا اور کون جانتا تھا کہ تقسیم کا طوفان ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں اور مضافاتی بستیوں کو اکھاڑ کر وہاں کے لاکھوں انسانوں کو اپنے اپنے آبائی علاقوں کو خیر با دکہہ کر خوف و ہراس میں بہ عالم مجبوری کسی انجان مقام پر آ سرا ڈھونڈنے پر مجبور کر دے گا۔
جہاں مشرقی و مغربی پنجاب کی پوری انسانی پٹی میںاتھل پتھل ہوئی وہیں صوبہ سرحد کے سرائیکی علاقے(بنوں، ٹانک،کلاچی،پہاڑ پور،ڈیرہ،پروآ) بھی اس سے متاثر ہوئے ۔
صوبہ سرحد کے سرائیکی علاقوں سے نقل مکانی کرکے آنے والی ہندو آبادی پانی پت، سونی پتم ، ہری دُوار،ہاپڑ، میرٹھ،پٹیالہ کے نزدیک راج پورہ، راجھستان میں الور اورجے پور میں سکونت پذیر ہوئی جبکہ ایک کثیر تعداددِلی اور اس کے گردو نواح کے علاقوں فریدآبا د،گڑ گاﺅ ں، غازی آباد وغیرہ میں آن بسی ۔ہندوستانی حکومت نے پاکستانی مہاجرین کی آبادکاری اور بحالی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے۔
اس مقصد کیلئے راجندر نگر، پٹیل نگر،ڈیرہ وال نگر،سمیت نیو دہلی کے مغربی علاقوں میں نئی بستیاں اور کالونیاں تشکیل دی گئیں اور مہاجرین کو یہاں کلیموں کے عوض ز مینیں الاٹ ہوئیں ۔دِلی کے یہی وہ علاقے ہیں جہاں پر پاکستان سے آئے شرنارتھی(مہاجرین) آج بھی بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
بٹوارے کے بعد دلی آکر سکونت پزیرہونے والے مہاجرین نے کچھ مدت بعد اپنی سیاسی، سماجی اور فلاحی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو اپنے پیچھے چھوڑ کر آنے والے شہروں کے گلی کوچوں کی یادیں انہیں ستانے لگیں۔
حکومت ہند نے ڈیرہ اسماعیل خان سے آئی مہاجرآبادی کی درخواست پر راجندر نگر میں واقع آر بلاک سے ملحق ساڑھے چھ ایکڑ رقبے پر محیط ایک وسیع خطہ اراضی خیراتی سکول کیلئے وقف کردیا جو دراصل ڈیرہ اسماعیل خان کے بھاٹیہ خاندان کے کلیموں کے عوض تفویض ہوا ۔جہاں پر ڈیرے وال کمیونٹی نے اپنے شہر ڈیرہ کے بھراتری سبھا سینئر سیکنڈری سکول (جو تقسیم سے قبل قائم کیا گیا تھا)کے نام کی مناسبت سے ڈی آئی خان سکول کی بنیاد رکھی، جو اُن کی اپنے آبائی شہر سے جذباتی وابستگی اوراپنی مٹی سے اندھی عقیدت کا آئینہ دار تھا۔
ابتداءمیں یہ سکول ”رائے بہادر جیسا رام بھاٹیہ ٹرسٹ“ کے سپر دتھا۔ڈیرہ اسماعیل خان کے بھاٹیہ خاندان کی علمی ، سماجی اور فلاحی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے، خصوصاً تقسیم سے قبل جیسا رام بھاٹیہ المعروف جیسے لوٹاکا بھاٹیہ بازار میں قائم کردہ جمنا دیوی گرلز سکول،بھاٹیہ گیٹ کے باہر عوامی سہولت کی خاطر میٹھے پانی کے د وکنوئیں،درابن روڈ پر کو ٹلہ سیداں میں ایک کنواںاوراپنے ذاتی خرچ سے بھاٹیہ بازار میں” سیٹھ جیسا رام بھاٹیہ اینڈ برادرز خیراتی ہسپتال “ آج بھی کام کر رہا ہے اور ’ ’ جیسے لوٹے کا ہسپتال “ کے نام سے مشہور ہے۔
جیسا رام کی اولاد میں جب جائیداد کی تقسیم مکمل ہوئی تو سکول کے انتظامی امور چلانے کیلئے بھاٹیہ خاندان نے خوشی بہ رضا اسے ”گوسوامی ستی کیول رام بوہڑیاں والہ تھلہ میموریل سوسائٹی رجسٹرڈ اِ ندر پوری، نیو دہلی“ کی تحویل میں دے دیا اور یوں یہ سکول براہ ِراست فرزندانِ کلاچی (شری تخت رام ودیوی دیال ) کی نگرانی میں آگیا۔راجندر نگر میں کھولے گئے سکول کی کوئی چھت اور چار دیواری نہ تھی بلکہ کھلے میدان میں شامیانے لگاکر مستحق و نادار بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی ۔
1958ءمیں حکومت ہند نے سکول کی تعمیر کیلئے فنڈ مہیا کئے اور پھر ایک خوبصورت عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی ۔ڈیرہ اسما عیل خان ہائی سکول راجندر نگر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں پر اپنے وقتوں کی عظیم سیاسی و سماجی شخصیات اورہندوستان کے قومی رہنما مثلاً جواہر لعل نہرو، مہر چند کھنہ اورخان عبدالغفار خان جیسی ہستیاں تشریف لائیں ۔
ڈیرہ سکول راجندر نگر کی نظامت میں ڈیرہ شہر کی عظیم ہستیاں شامل رہی ہیں،جن میں ایڈوکیٹ شری منوہر لعل بگائی، شری ڈی بی شیام کھتر (رُچی رام کھتر کے بیٹے)،لالہ تخت رام (ریٹائرڈ جوائنٹ چیف کنٹرولر آف امپورٹس ایکسپورٹس،حکومت ہند) اور لالہ دیوی دیال شامل ہیں۔
لالہ تخت رام گوسوامی ستی کیول رام بوہڑیاں والاتھلہ میموریل سوسائٹی کے بانی چیئرمین بھی تھے اور یہ دونوں عہدے زندگی بھر ان کے ساتھ رہے۔ کہتے ہیں کہ تخت رام بہت ہی پیارے اور جنونی شخص تھے ۔ انہوں نے ہر قدم کمیونٹی کی بہتری کیلئے اٹھایا۔30 دسمبر 2008ءکو جب ان کی ارتھی اٹھی توان کی جگہ ان کے چھوٹے بھائی دیوی دیال آگئے جو سونے پر سہاگہ تھے ۔ڈیرہ سکول کو آج جو شہرت اور بلندی نصیب ہوئی ہے اس میں اِن دونوں بھائیوں کا بھرپور حصہ شامل ہے۔
دیوی دیال ہفت روزہ ڈیرے وال سندیش(موجودہ ہند سندیش)کے ا یڈ یٹر اِن چیف بھی رہے اور28 جون2015ءکو ان کی موت کے بعداب ان کے بڑے بیٹے شری ارجن کمار اروڑہ ( ریٹائرڈ سینئر منیجر بینک آف بروڈہ) سکول کے سرپرست اعلیٰ اور ڈیرہ سوسائٹی کے چیئرمین ہیں۔وسیع و عریض رقبے پر پھیلے اس سکول کے میدان میں نہ صرف ہر سال قومی سطح کے کھیل منعقد کئے جاتے ہیں بلکہ ہولی،دیولی، دسہرا،بیساکھی اورعلاقے بھر میں شادی بیاہ کی تقریبات کیلئے بھی سکول کا میدان استعمال کیا جاتا ہے۔
مغربی دِلی کے راجندر نگر میں بنا یہ سکول جہاں اچھی شہرت کا حامل ہے وہیں ڈیرے وال ہندوﺅں کی علم سے محبت اور اپنے آبائی شہر سے عشق کی عکاسی بھی کرتا ہے ۔اس سکول میں ساڑھے چار سو سے زائد طلباءکی گنجائش ہے جس میں زیادہ تر دلی کے پسماندہ گھرانوں کے نادار اور مستحق بچے شامل ہیں،جنہیں جماعت اول سے بارہویں تک مفت تعلیم دی جاتی ہے ۔ سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن سے الحاق شدہ ”ڈی آئی خان سکول “کو سرکار کی طرف سے فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں جو گورنمنٹ آف این سی ٹی(National Capital Territory) دہلی کے احکامات اور ”ڈیرے وال “ انتظامیہ کی زیر نگرانی بڑی کامیابی سے چلایا جا رہا ہے۔
جب ہم کسی تاریخی عمارت کی کھوج میں نکلتے ہیں تو را ستے میں عمارات کے ساتھ ساتھ اُس کے بنانے والے انسانوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔واقعی کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں جو ناگزیر ہوتے ہیں اور جن کے سہارے انسان کی اپنی ذات کی تکمیل ہوتی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان سکول راجندر نگر کے سائے میں کھڑا میں یہی سو چ رہا تھا کہ ہمارے شہرکے ہندوﺅں کے مقدر میں بھی یہاں تک کا سفر لکھ دیا گیا تھا بلکہ یہیں پر آکر ان کی ذات کی تکمیل ہونا تھی۔یہ میری کھوج اور اُن کی تکمیل کا مرحلہ تھا۔اگرچہ میں تو اپنی کھوج کیلئے کاغذ، پین، لیپ ٹاپ ،موبائل اور کیمرہ ساتھ لایا تھا مگر جو لوگ اپنی ذات کی کھوج میں نکلے تھے وہ اپنے ساتھ کچھ بھی لے کر نہیں گئے تھے ۔
سارے مالی اسباب ،ساری دولت و شہرت ، اپناسب کچھ وہیں چھوڑ کر اپنے ساتھ عزم ، ہمت، علم اور دماغ لے کر چلے تھے ۔ تقسیمِ ہند کے نتیجے میں ہندوستان کی واقعی لاٹری نکلی تھی کہ جب اُسے ہمارے خطے کے ذہین و فطین لوگوں کی ایک کھیپ میسر آگئی تھی جنہوں نے ہندوستان کی مادی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ڈیرہ اسماعیل خان میںفقیرنی گیٹ کے اندر بنے وِ دیا بھراتری سکو ل کی طرز پر ہندوﺅں نے راجند رنگر میں اپنا دِیا پھر سے جلایاجبکہ ہم لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا سب کچھ اجاڑ دیا۔ہمارا سو سالہ تاریخی گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول اور ا سکے گرتے درو دیوار ہماری نا اہلی اور اپنی بے بسی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:دلی دل والوں کی (قسط7)۔۔۔ عباس سیال
جاری ہے ۔۔۔۔۔
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر