وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کی درخواست پر آئی جی سندھ کلیم امام کو فوری طور پر ہٹانے سے انکار کردیا ہے۔
آج وفاقی حکومت نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ہدایت پر حکومت سندھ کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ حکومت سندھ کی جانب سے کلیم امام کو آئی جی سندھ کے عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر فوری عمل نہیں کیا جاسکتا۔
سندھ حکومت کی درخواست ابھی زیر غور ہے۔
سندھ کے وزیر اعلی سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم کو ایک خط لکھ کر سندھ کابینہ کی جانب سے کلیم امام کو آئی جی سندھ کے عہدے سے ہٹانے اور ان کی خدمات وفاق کو واپس کرنے کے فیصلے کی منظوری سے آگاہ کیا تھا۔
انہوں نے خط میں آئی جی سندھ کلیم امام پر سنگین الزام عائد کیے تھے۔
الزامات میں سندھ میں امن و عامہ کی صورت حال کی خرابی اورسندھ حکومت کے احکامات نہ ماننے کے الزامات سر فہرست ہیں۔
خط میں کلیم امام کی جگہ تین پولیس افسران غلام قادر تھیبو(گریڈ 21 سابق چیف پولیس افسر کراچی)، مشتاق احمد مہر(گریڈ 22، آئی جی ریلوے) اور ڈاکٹر فضل (گریڈ 21 حال تعینات ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ) کے نام کلیم امام کی جگہ آئی جی سندھ لگانے کے لیے لکھے گئے تھے۔
خبروالے ویب سائٹ کو اپنے زرایع سے معلوم ہوا ہے کہ آج وزیراعظم عمران خان نے جب سندھ کے چیف منسٹر کے خط کے حوالے سے گورنر سندھ، وفاقی وزیر قانون اور وفاقی وزرات داخلہ کے سیکریٹری سمیت اپنے قریبی لوگوں سے مشاورت کی تو انھوں نے وزیراعظم کو فی الحال آئی جی سندھ کے عہدے سے کلیم امام کو نہ ہٹانے کا مشورہ دیا۔
سندھ حکومت کے پیش کردہ تین ناموں پر اس مشاورت میں تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا۔
وفاقی حکومت سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ،ايڈیشنل آئی جی موٹر وے آفتاب پٹھان اور کراچی پولیس کے سابق چیف امیر اے شیخ کے ناموں پر غور کررہی ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت کے اتحادی جی ڈی اے والے، ایم کیو ایم اور خود گورنر سندھ ایڈیشنل آئی جی موٹر وے آفتاب پٹھان کو سندھ کا نیا آئی جی لگانے کی حمایت کررہے ہیں۔
سندھ حکومت کے زرایع کا کہنا ہے یہ تینوں نام ان کو قبول نہیں، خاص طور پر اے ڈی خواجہ اور آفتاب پٹھان کو سندھ حکومت کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔
آئی جی سندھ کلیم امام نے حالیہ تنازعے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ آئین و قانون کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
سندھ پولیس زرایع کا کہنا ہے آئی جی سندھ سے حکومت سندھ کا تازہ ترین تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب حکومت جاپان نے آئی جی سندھ سے اپنے سفارت خانے کے زریعے رابطہ کیا اور کراچی پولیس کو جدید خطوط پر تربیت اور جدید خودکار ہتھیار دینے کے ایم او یو پر سائن کیے۔
سندھ حکومت نے معلوم ہونے پر پہلے آئی جی سندھ سے کہا کہ وہ جاپانی سفارت خانے سے کہیں وہ یہ کام سندھ حکومت کے زریعے کرے۔
آئی جی سندھ نے مبینہ طور پر انکار کردیا۔
چیف منسٹر سندھ مراد علی شاہ جنھوں نے وزرات داخلہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہوا ہے نے وفاقی حکومت سے مداخلت کرنے کو کہا جو نہیں کی گئی۔
ابھی یہ تنازعہ چل ہی رہا تھا کہ شکار پور میں تعینات ایس ایس پی رضوان احمد خان نے پریس کانفرنس کے دوران سندھ اسمبلی کے رکن اور وزیر امتیاز شیخ پر شکار پور میں جرائم پیشہ افراد کے گروہ کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کیا۔
انھوں نے شکار پور پولیس کے مختلف عہدوں پر تعینات 60 سے زائد پولیس اہلکاروں کو ڈاکوؤں کے لیے مخبری کرنے کے الزام میں ضلع بدر کردیا اور انکوائری بٹھادی۔
سندھ حکومت اور پولیس کا ٹکراو
کہا جاتا ہے کہ یہ پی پی پی کے رکن اسمبلی امتیاز شیخ کے من پسند پولیس اہلکار تھے جن کو معطل کیا گیا۔
رضوان احمد خان ایس ایس پی شکار پور سے ضلع شکار پور سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے اراکین اسمبلی اور عہدے داران پہلے ہی ناخوش تھے-
کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اراکین اسمبلی کے کہنے پر پولیس افسران کی تعیناتی اور تبادلے کرنے سے انکار کردیا تھا-
سندھ کے چیف منسٹر سید مراد علی شاہ نے کلیم امام آئی جی سندھ کو ایس ایس پی شکار پور کو ہٹانے کے عمل ميں ساتھ دینے کو کہا تو کلیم امام نے صاف انکار کرڈالا تھا۔
جب چیف منسٹر سندھ کے حکم پر سیکریٹری داخلہ سندھ نے ایس ایس پی شکار پور رضوان احمد شیخ کو ان کے عہدے سے ہٹایا تو وہ سندھ ہائیکورٹ سے اس فیصلے کو کالعدم قرار دلوانے میں کامیاب ہوگئے- یہ صورت حال سندھ حکومت کے لیے کافی شرمندگی کا سبب بن گئی اور سندھ حکومت اور آئی جی سندھ کے درمیان اختلافات کو گہرا کرگئی۔
ایس ایس پی رضوان احمد خان سپریم کورٹ کے حکم پر نقیب اللہ محسود کیس میں راؤ انوار کے خلاف بنائی گئی جے آئی ٹی کا ممبر بھی بنایا گیا تھا۔
آئی جی سندھ آفس زرایع سے کئی ٹی وی چینل اور نیوز ویب سائٹس پر یہ خبریں سامنے آئیں کہ آئی جی سندھ کلیم امام کو سندھ حکومت سے جہاں پولیس میں سیاسی مداخلت کی شکایت تھی وہیں ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے پولیس کے نان سیلری بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت 20 فیصد کمی کردی ہے-
کراچی پولیس کو6 ماہ گزرنے کے باوجود ایک گولی خریدنے کے لیے بجٹ نہیں دیا گیا۔
سندھ حکومت کی بجٹ دستاویزات کے مطابق مالی سال 2019-20 میں سندھ پولیس کے لیے 98 ارب پچاس کروڑ اکیانوے لاکھ اناسی ہزار روپے رکھے گئے جن میں تنخواہوں وغیرہ کی مد میں 82 ارب 92 کروڑ 16 لاکھ 22 ہزار روپے مختص کیے گئے ہیں-
گزشتہ مالی سال میں سندھ حکومت نے سندھ پولیس پر کل 84 ارب 68 کروڑ سے زائد رقم خرچ کی تھی- ایسے کی گزشتہ سال سندھ حکومت نے کراچی پولیس پر 44 ارب 83 کروڑ سے زائد خرچ کیے۔
اس سال 54 ارب 55 کروڑ 71 لاکھ روپے سے زیادہ رقم مختص کی ہے جس میں نان سیلری بشمول آپریشنل بجٹ 12 ارب 94 کروڑ 43 لاکھ 2 ہزار روپے مختص کیے ہیں جو گزشتہ سال سے 4 ارب روپے زائد ہیں- جبکہ سندھ حکومت نے گزشتہ مالی سال میں آئی جی سندھ آفس کو سات ارب روپے سے زیادہ جاری کیے تھے۔
سندھ پولیس کی ویب سائٹ پر گزشتہ مالی سال 2018-19 کے اعداد و شمار تو ہیں لیکن رواں مالی سال کے حوالے سے کچھ بھی اپ ڈیٹ نہیں ہے۔
سندھ کے وزیر سعید غنی نے خبروالے ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بعض میڈیا میں جو پولیس ٹریننگ کے لیے رکھے بجٹ میں کمی کی خبریں چلی ہیں وہ مغالطہ آمیز ہیں-
گزشتہ مالی سال میں فنانس ڈیپارٹمنٹ نے سندھ پولیس کی ٹریننگ پر اخراجات کا تخمینہ 2 ارب 12 کروڑ 78 لاکھ 42 ہزار روپے لگایا تھا لیکن خرچ 2 ارب 69 لاکھ ہوا-
اس سال بجٹ تخمینہ دو ارب 44 لاکھ سے زائد ہے جو سال کے آخر میں بڑھ سکتا ہے-
یہ کہنا کہ پولیس کی ٹریننگ کے لیے پیسے کم رکھے گئے ہیں غلط ہے-
انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے میں کسی سے بھی میڈیا پر براہ راست بحث و مباحثہ کرنے کو تیار ہیں۔
یاد رہے کہ ایس ایس پی رضوان شیخ نے امتیاز شیخ سمیت سندھ حکومت کے کئی وزراء کے جرائم پیشہ گروہوں سے تعلق کا انکشاف کرنے والی ایک خفیہ پولیس رپورٹ کی نقول پریس کانفرنس میں موجود صحافیوں میں تقسیم کی تھی جس میں سعید غنی اور ان کے بھائی کے بھی منشیات فروشوں سے روابط کا الزام لگایا گیا تھا-
سعید غنی نے جوابی پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایس پی رضوان شخص کو گرا ہوا شخص قرار دیتے ہوئے ان پر کئی الزامات عائد کردیے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو رپورٹ میڈیا کو دی گئی یہ رپورٹ دو سال قبل جنوری 2018ء میں تیار ہوئی تھی اور یہ اس وقت سامنے لائی گئی جب میں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے میڈیا کو سندھ کابینہ کی جانب سے آئی جی سندھ کلیم امام کو فوری ہٹانے کی منظوری دینے کی خبر دی-
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس رپورٹ کی کیا حثیت ہے۔
وزیر اعلی کا موقف لینے کے لیے ان کے مشیر برائے قانون مرتضی وہاب سے فون پر رابطے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہوسکا لیکن چیف منسٹر ہاؤس زرایع کا کہنا ہے کہ مراد علی شاہ کی طرف سے وفاقی حکومت کو صاف پیغام بھیجا گیا ہے جن افسران کو وفاقی حکومت آئی جی سندھ تعینات کرنا چاہتی ہے وہ نام قطعی قابل قبول نہیں ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ