میں طبیعت کی خرابی کے باعث فاضل پور کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ایڈمِٹ تھا۔ دن میں سینکڑوں مریض آتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ میں فرسٹ فلور پر بستر پر لیٹا ہوا تھا اور بوتل لگی ہوئی تھی۔ ایک بڑھیا اپنے بوڑھے شوہر کو ہاتھ سے پکڑے ہوئے آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آئی اور میرے بستر کے قریب پڑے ہوئے دوسرے بستر پر اسے لٹادیا۔ اس نے بوڑھے کی ٹانگیں سیدھی کیں اور اس پر پتلی سی چادر ڈال دی۔ پھر پرچی لے کر نیچے چلی گئی، تھوڑی دیر بعد واپس ہانپتی ہوئی آئی اور بولی کہ
اَوّے 430 روپے اور دینے ہیں۔”
بوڑھا بولا، ” او نامُراد تُو بس ٹیکے لے آ ابھی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ پہلے ٹیکے لگا کر چیک کرو۔”
وہ پھر چلی گئی اور دوبارہ جلدی میں واپس آئی، "120 روپے اور دینے ہیں”۔ بوڑھے نے نکال کر دیے، وہ چلی گئی۔ ٹیکوں سمیت واپس آئی۔ بار بار سیڑھیاں چڑھ کر شاید تھک چکی تھی، سر کو پکڑ کر بیٹھ گئی۔
"او نامُراد بُلا کر آ ٹیکہ لگانے والے کو”، بوڑھا بولا۔ اپنے لیے نامُراد کا لفظ بار بار سن کر مایوس ہوجاتی تھی ایسا لگتا تھا کہ سالوں کی تھکی ہوئی ہو۔
وہ ٹیکہ اُٹھا کر چلی گئی۔ کمپوڈر بولا یہ ٹیکے الگ نہیں لگیں گے، بوتل کے ساتھ لگیں گے۔ وہ ٹیکے اور پرچی لے کر پھر نیچے چلی گئی۔ واپس آئی، بولی "360 روپے اور دینے ہیں۔” بوڑھے نے دے دیے۔ پھر گئی اور کافی دیر تک نہ آئی۔ بوڑھا چلاتا رہا، ” او نامراد کہاں رہ گئی ہو؟ (میری بوتل کی طرف دیکھ کر) دیکھو سب کی بوتلیں ختم ہو رہی ہیں اور مجھے ابھی تک لگائی نہیں۔”
تھوڑی دیر بعد بڑھیا ہانپتی ہوئی نمودار ہوئی۔ کہنے لگی، "بڑی تھک گئی ہوں یہ سیڑھیاں چڑھ چڑھ کر۔ اگلی باری اِدھر نہیں لاؤں گی تجھے۔”
کمپوڈر آیا اور اس نے بوڑھے کے بازو پر رَگیں تلاش کرنی شروع کر دیں۔ بڑھیا بڑی محبت سے اس بوڑھے کی ٹانگیں اور پاؤں دبانے لگ گئی۔ کمپوڈر نے تین جگہ سوئی لگائی پر بے سود۔ بوڑھے نے بازو کھینچ لیا اور کراہتے ہوئے کہا، "نامُراد تجھے یہی تو کہا تھا کہ ڈاکٹر نے کہا پہلے چیک کرا لو، ٹیکہ لگ سکتا ہے تو ٹھیک ورنہ کوئی اور دوائیں لکھ دوں گا۔”
"نامُراد کوئی تو اولاد پیدا کی ہوتی۔” بوڑھے نے مایوسی سے کہا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ