ستمبر 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تجاوزات تماشہ، انتظامیہ اور عوام ۔۔۔جام ایم ڈی گانگا

اب کچھ عرصہ قبل میونسپل کمیٹی کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دلوانے کے لیے مجبورا وہ پہلے دانستہ محروم کیے گئے علاقے شامل کیے گئے ہیں.

رحیم یار خان میں سالانہ اور ششماہی تجاوزات تماشہ کے علاوہ خصوصی گرینڈ تجاوزات تماشہ گذشتہ کئی سالوں سے تواتر کے ساتھ جاری و ساری ہے. سالانی ششماہی تجاوزات تماشہ بھتہ بڑھانے کی غرض سے ہوتا ہے جبکہ گرینڈ تماشہ نئی آنے والی حکومت اور نئے آنے والے کسی صاحب کی کارکردگی اور ڈھاک بیٹھانے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے.

پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ تجاوزات کی بیماری کم ہونے کی بجائے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق تجاوزات کی بیماری پھیلتی بڑھتی دکھائی دیتی ہے. اسے قانون کی لاغری اور انتظامیہ کی کمزوری کا نام دیا جائے یا تجاوزات مافیا کی سینہ زوری کا نام . بہرحال وجوہات کچھ بھی ہوں منہ چڑاتی دندناتی ناکامی انتظامیہ کے آپریشنز پر بڑا سوالیہ نشان ہے.

بار بار اور ہر بار کی ناکامیوں کے بعد کیاانتظامیہ ناکامی کی وجوہات اور اسباب تلاش کرنے کے لیے دھیان نہیں دیتی یا اسے سیاسی اور معاشی مجبوریاں گھیر لیتی ہیں.جن کی وجہ سے مہینوں اور ہفتوں نہیں بلکہ چند دنوں میں ہی تجاوزات کے میلے ٹھیلے دوبارہ نئے پیکیجز کے ساتھ شروع ہو جاتے ہیں.

میں اپنی بات کو آگے بڑھانے سے قبل ہر نئے ضلعی کپتان اور ان کی ٹیم کی جانب سے ادا کیے جانے یہ روایتی الفاظ یہ فقرے اور یہ بیان آپ کے ساتھ شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں.

ُ ُ ڈپٹی کمشنر علی شہزاد کے تجاوزات کے خلاف ضلع ہذا کے تمام اسسٹنٹ کمشنرز کو سخت کارروائی کے احکامات، ڈپٹی کمشنر کے حکم کے تحت ضلع بھر میں اسسٹنٹ کمشنرز کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنی تحصیلوں میں سڑکوں پر تجاوزات ختم کروائیں اور گزرگاہوں /شاہرات کو صاف کروائیں تاکہ شہریوں کو آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا نہ ہو اور تجاوزات کے باعث ہونے والے حادثات کی شرح میں کمی آ سکے۔

ڈپٹی کمشنر کی ہدایات پر اسسٹنٹ کمشنر چوہدری اعتزاز انجم کا ناجائز تجاوزات کے خلاف کریک ڈاﺅن، ہسپتال روڈ سمیت ملحقہ شاہرات سے تمام اقسام کی تجاوزات ختم کر دی۔ناجائز تجاوزات کے خلاف اپریشن میں میونسپل کارپوریشن کے عملہ نے بھاری مشینری کے ہمراہ حصہ لیا

اس موقع پر پولیس کی نفری بھی موجود تھی۔اسسٹنٹ کمشنر چوہدری اعتزاز انجم نے تجاوزات کے خلاف جاری اپریشن کی نگرانی کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی کمشنر علی شہزاد کی ہدایات پر ضلع بھر میں تجاوزات کے خلاف بلا تفریق اپریشن کیا جائے گا۔سڑکوں پر تجاوزات کے باعث ڈپٹی کمشنر کو شہریوں کی شکایات موصول ہو رہی تھی جس پر ڈپٹی کمشنر نے بلاتفریق اپریشن کرنے کے احکامات جاری کئے۔

تجاوزات کے باعث شاہرات اور بازاروں میں ٹریفک کی روانی متاثر اور پیدل چلنے والے شہریوں کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔تجاوزات کے خلاف جاری اپریشن کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ہر اہم شاہراہ، بازاروں میں سے ناجائز تجاوزات کو ختم کیا جائے گا۔انہوں نے تاجر برادری اور دکانداران سے کہا کہ وہ از خود اپنی تجاوزات ختم کر لیں تاکہ دوران اپریشن انہیں نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے ٗ ٗ

محترم قارئین کرام،، بلاشبہ ہر نیا آنے والا ڈپٹی کمشنر بہت کچھ کرنے کے دعوے کرتا ہے. کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ آہستہ آہستہ شہریوں کے مختلف طبقات اور اُن سب کے ساتھ قائل مائل اور مانوس ہونا شروع ہو جاتا ہے.

پھر وہی پرانے اور نئے سارے دھندے اپنی اپنی ڈگر اور روٹین پر دھوم دھام سے چلتے رہتے ہیں.وہ ایرانی سمگل شدہ تیل کا وسیع کاروبار ہو یا آٹا گندم وغیرہ کا. تعمیراتی کاموں میں ہونے والی کرپشن کو روکنا تو شاید کسی کے بس کا روگ نہیں رہا کیونکہ اس کا سلسلہ تو خیر سے اوپر سے نیچے کو آتا ہے. پھر اوپر والوں سے کون پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے.

میں ضلع میں تعمیر ہونے والی بلڈنگز اور سڑکات میں سے کس کس کا نام لوں. جس معاشرے اور ملک میں کرپشن کی بجائے کرپشن کی نشاندہی کرنے والے ہی نشانہ یا نشان عبرت بنا دیئے جانے کا رواج ہو. وہاں ایسے بے وقوفانہ، نقصان دہ اور پریشان کن کام شاذ نادر ہی کوئی کوئی کملا آدمی کرتا ہے.

اساڈا کیا? یہ کہہ کر ہر محب وطن اپنی جان چھڑا کر ادھر ادھر ہو جانا ہی بہتر سمجھتا ہے. یہ صرف ہمارے ضلع کا مسئلہ نہیں. یہ ہمارا سانجھا اور قومی المیہ ہے. سر دست ہم چونکہ ناجائز تجاوزات کے خلاف انتظامیہ کے تازہ ترین آپریشن کی بات کر رہے ہیں. اس لیے باقی باتوں کو پھر کسی وقت تک کے لیے موخر کرتے ہیں.

ناجائز تجاوزات کے خلاف صرف آپریشن نہیں بلکہ بھر پور اور ملیامیٹ قسم کا آپریشن ہونا چاہئیے. آپریشن کی کامیابی کے لیے اس کا بلاتفریق ہونا تو ازحد ضروری ہے. برائی کے درخت کو جڑوں سمت نکالیں.

صرف ٹہنیوں کی کانٹ چھانٹ سے تو مسئلہ حل ہونے کی بجائے نئی اور گھنی ٹہینوں کے ساتھ نئی طاقت اور جوش و جذبے سے بڑھتا ہے. ناجائز تجاوزات میں ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ متعلقہ اہلکاروں آفیسران اور ادارے کے تعاون اور درگرز کی پالیسی ہی بنیادی وجہ ہے.

یہ تعاون فی سبیل اللہ ہرگز نہیں ہوتا.جائز تجاوزات اور ناجائز تجاوزات کی طرح اس کی باقاعدہ اور بے قاعدہ فیس، بھتہ وصولی وغیرہ ہوتی ہے. سرکاری ملازمین کے علاوہ اس تجاوزات کے دھندے میں سیاسی سماجی کاروباری شخصیات اور دکاندار حضرات بھی پوری طرح ملوث ہوتے ہیں.

دکانوں کے آگے تجاوزات کے مکمل ذمہ دار دکاندار اور تاجر ہیں.فٹ پاتھوں پر تک ہوٹل قائم ہیں. گلیوں محلوں وغیرہ میں سیاسی و سماجی شخصیات کا عمل دخل ہے. چوکوں سڑکوں شاہراہوں پر سرکاری ملازمین ماہانہ بھتہ وصولی اور اشتراکی کاروبار کی شکل میں قبضہ گیر ہیں.

گویا یہ گروہ در گروہ ایک پورا مافیا ہے. جس کی جڑیں شہر کی میونسپل کمیٹی کے دفاتر کے اندر موجود ہیں.سال ہا سالہا سے پرکشش سیٹوں اور عہدوں پر بیٹھے لوگ ان مافیا کے سب سے بڑے محافظ اور سرپرست ہیں. ذرا ٹٹول کر تو دیکھیں.گھنٹی کہاں سے بجتی ہے اور ڈوریاں کہاں کہاں سے ہلتی ہیں. یہ تو کاروباری پوائنٹ ہیں ہم نے تو شہروں میں بھیک مانگنے والے بھکاریوں اور فقیروں کو بھی مختلف جگہوں اور اڈوں پر لڑتے قبضے کرتے دیکھاہے.شہر میں صرف بسوں اور ویگنوں کے اڈے نہیں بلکہ درجنوں قسم کے دیدہ اور ان دیدہ اڈے ہیں. جہاں چھوٹے بڑے کھڈے بھی ہیں اور رنگ برنگے پھڈے بھی ہیں.

ہماری مختلف ایجنسیوں کے پاس ہر قسم کی تفصیلات موجود ہیں. پر مارنے کی کسی کو جرات نہیں. جو کسی گھمنڈ اور تکبر کا شکار ہو کر پر مارنے کی کوشش کرتا ہے اس کے پر باندھنے اور پر کترانے کا بھی ہر لحظہ معقول بندوبست موجود ہوتا ہے. باقی عوام کو مطمئن کرنے اور دلاسہ دینے والی باتیں ہیں. سچی بات تو یہ ہے کہ ہم لوگ انتہائی منفاقانہ معاشرے میں جی رہے ہیں.یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنے اپنے حقوق کے نعرے لگانے والے اپنے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے غافل ہیں یا پھر ادھر دھیان دینا ضروری نہیں سمجھتے.

کون کہتا ہے کہ وطن عزیز میں کرپشن کا خاتمہ ہو گیا ہے. رشوت لینے اور دینے کا کاروبار بند ہو گیا ہے.سچ تو یہ ہے کہ نہ خاتمہ ہوا ہے اور نہ کنٹرول ہوئی ہے بلکہ صرف اور صرف انداز بدلہ ہے نئے رنگ و ڈھنگ میں منیج کی جا چکی ہے. میں اپنے ٹاپک سے ایک بار پھر بھٹک گیا ہوں. کیا کروں بھٹکے ہوئے معاشرے میں جی رہا ہوں اور اس کا حصہ ہوں.

رحیم یار خان شہر کا کوئی ٹاون آبادی گلی اور سڑک تجاوزات سے پاک نہیں ہے. اس کا میرے نزدیک سیدھا سیدھا مطلب یہی ہے کہ ہم سب مجرم ہیں. منافق ہیں. غلط اور صحیح کی تمیز تو ہے مگر غلط کے خلاف صحیح کا، جھوٹ کے خلاف سچ کا ساتھ دینے کی جرات نہیں، اخلاقی اور ایمانی قوت سے محروم ہیں.
یہ ناجائز تجاوزات تماشہ ہو یا دیگر دفتری اور عوامی تماشے ان کا خاتمہ تب ہی ہوگا ہم میں سے ہر کوئی سچ کا ساتھ دینے کا عہد کرکے پہلے خود ہی عمل کرے گا.

میرا رحیم یار خان صاف شفاف اور گرین پنجاب کے مقابلے میں بھی شریک ہے.مگر حال یہ ہے کہ شہر کو آللہ پاک نے تین نہروں سے نوازا ہے. جو اس شہر کی خوبصورتی کے لیے مثالی اہمیت اور تفریح کے لیے بھر پور افادیت کی حامل ہوتے ہوئے کچرے گندگی و غلاظت کے نالے بنا دی گئی ہیں. جس طرح ہمارا ضلع کچے اور پکے کی تقسیم پر مشتمل ہے اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ شہروں کے اندر بھی امیر غریب آبادی کے علاوہ اکثریتی سرائیکی اور پنجابی آبادی کی بنیاد پر یہاں ہونے والے ترقیاتی کاموں میں بھی زمین آسمان کا فرق موجود ہے.

یہ فرق ان علاقوں کے نام نہاد نمائندگان کی نااہلی کی وجہ سے ہے یا بالادست طبقے کی بالادستی اور تفریقی سوچ کی وجہ سے. بھٹہ کالونی عیسی کالونی اتحاد کالونی، اندرون شہر کے پرانے محلہ جات، تھلی روڈ اور گرد و نواح کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے فرق کی اگر کوئی اور وجہ ہے تو ہمیں بھی بتائی اور سمجھائی جائے.

نہر صادق برانچ کو دیکھ لیجئے خان پور اڈا سے بجانب شمال بابا غریب شاہ اور بجانب جنوب دڑی سانگھی کتنا فرق ہے. حالانکہ اولالذکر پرانی آبادی ہے. یہاں تو بہت سارے علاقوں کو ڈی سی آفس کے قریب ترین ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے کے باوجود بلدیہ کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا.

اب کچھ عرصہ قبل میونسپل کمیٹی کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دلوانے کے لیے مجبورا وہ پہلے دانستہ محروم کیے گئے علاقے شامل کیے گئے ہیں.انہیں ترقیاتی اور کلین اینڈ گرین سکیم کے تحت کب اور کیا ملتا ہے یہ آنے والے وقت ہی بتائے گا. ڈپٹی کمشنر صاحب شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے بابا غریب شاہ سے ہیڈ امین گڑھ تک نہر کے دونوں اطراف کی کچی سڑکوں کو کسی سکیم میں شامل کرکے پختہ کروا دیں.غریب لوگوں کو کیچڑ زدہ کچے راستے سے نجات مل گی.

یہ لوگ آپ کو دعائیں گے.ووٹ لینے والے تو مطلب نکل جانے کے بعد مڑ کر نہیں دیکھتے .بابا غریب شاہ نہر کی غربی سائیڈ کی آبادی دیرہ گانگا وغیرہ اس جدید دور میں بھی بجلی گیس اور سیوریج تک کی سہولیات سے محروم ہے. ان مسائل کے حل سے ہی ان کے احساس محرومی میں کمی آئے گی.اس سے نئے بس اڈے پر ٹریفک کے دباؤ میں بھی کمی آ جائے گی.

About The Author