سرائیکی وسیب میں بہاولپور ایک ایسا ڈویژن ھے جو اپنی خوبصورتی اور خلوص و محبت کی وجہ سے پورے پاکستان میں منفرد حیثیت رکھتا ھے۔
میرا اپنی سروس کے دوران وہاں قیام زندگی کا سنہری دور ھے جو ہماری تمام فیملی کے دل ودماغ پر ہمیشہ کی طرح نقش ھو گیا۔
برصغیر کے ممتاز صوفی شاعر خواجہ غلام فرید نے چولستان کے صحرا میں اٹھارہ سال قیام کیا اور روہی کے حسن سے متعلق درجنوں شعر تخلیق کئیے۔
خواجہ غلام فرید ۔عربی۔فارسی۔اردو۔پنجابی۔سرائیکی۔سندھی۔اور براج بھاشا زبانوں کے ماہر تھے اور ان تمام زبانوں میں شاعری کی۔۔ ثریاملتانیکر اور پٹھانے خان نے خواجہ غلام فرید کی کافیاں اور شاعری کو نغموں کی شکل دے کر پوری دنیا میں روشناس کرایا اور کئی ایوارڈ حاصل کئے۔
میری بہالپور سے محبت وہاں کے لوگوں کا خلوص ۔ کھلا ماحول۔ بہترین تعلیم ۔تاریخی مقامات اور جدت خیال تھی۔
سرائیکی زبان تو شھد کی طرح میٹھی ۔۔۔ جب بھی بہاولپوری آپ سے بات کریں گے ۔۔۔دلھا سائیں ۔۔مخاطب ہو کر بات کریں گے اور دلھا سائیں بھالپور کا خاص محبت بھرا کلام ھے۔
بہالپور ریڈیو نے ایسے ایسے آرٹسٹ۔ سنگر ۔ ڈرامہ نگار۔اور لوک فنکار پیدا کیے جنہوں نے پوری دنیا میں نام پیدا کیا۔
پروین نذر ، استاد معشوقے خان ، استاد حسین بخش خان ڈھاڈھی ،گلبہار بانو ۔جمیل پروانہ نصیر مستانہ یہاں سے نکلے۔اس پر تو مکمل کتاب لکھی جا سکتی ھے۔
میں آج بہاولپور کے وہ گوشے سامنے لانا چاہتا ھوں جس سے میں آج تک حیران ہوں۔ ڈیرہ اسماعیل خان شھر اور بہاولپور شھر میں اتنی مشابہت اور یکسانیت پائی جاتی ھے کہ جیسے یہ دونوں جڑواں شھر ہوں۔
بہاولپور شھر ایک وال سٹی ھے جس کے اندر داخل ہونے کے سات گیٹ ہیں ۔نام اسطرح ہیں ۔۔۔بیکانیریگیٹ ۔بوھڑ گیٹ۔ملتانی گیٹ۔احمدپوری گیٹ۔دراواڑی گیٹ۔۔موری گیٹ۔اور شکارپوری گیٹ۔
اب آپ ڈیرہ کو دیکھیں پوندہ گیٹ۔لغاری گیٹ۔مسگراں گیٹ۔فقیرنی گیٹ۔علی زئی ۔ توپانوالہ۔امانوالہ۔کنیرا والا اور نظام خان گیٹ۔
جیسے ڈیرہ کے تمام بازار چوگلیہ پر ملتے ہیں اور ایک بڑی مسجد ھے اسی طرح بہاولپور بازاروں کے درمیان جامع مسجد ھے جن سے احمدپوری بازار۔صرافہ بازار۔ مچھلی بازار اور الرحمن مارکیٹ منسلک ھے۔
ڈیرہ شھر میں جو چھوٹا بازار ھے ایک زمانے میں یہاں سوڈا والی بوتلیں بنانے کی چھوٹی فیکٹریاں تھیں ۔بالکل ایسا ایک بازار اور سوڈا والی فیکٹریاں وہاں بھی تھی۔
ڈیرہ شھر کے ارد گرد قابل کاشت زمینیں تھیں اسی طرح بہاولپور میں بھی زراعت کے ٹکڑے اور چاہ تھے۔
ایک اور یکسانیت جو وہاں دیکھی ہمارے دامان کے لوگ بارش کا پانی تالابوں میں جمع کر کے پیتے تھے بالکل ہو بہو اسی طرح چولستان کے لوگ روہی میں تالاب میں پانی جمع کرتے ہیں جسے وہ ٹوبہ کہتے ہیں اور اسی ٹوبے سے چرند پرند جانور انسان سیراب ھوتے ہیں۔۔
بہاولپور شھر کی خوشبو تو یوں دل میں پیوست ہوئی ابھی تک پھولوں کی طرح دل پر نقش ھے۔ کئی بہاولپوری دوستوں سے روزانہ فیس بک پر سلام دعا ھو تی ھے۔ بہاولپور کی تاریخی اور ثقافتی بہاروں پر بعد میں لکھوںگا۔
اب تو چولستان کے ڈریم لینڈ کی بات کرنی ھے۔ چولستان بہالپور شھر سے تیس کلومیٹر دور سولہ ھزار مربع کلومیٹر پر پھیلا صحرا ھے جو تھر اور بیکا نیر انڈیا سے جا ملتا ھے مقامی لوگ اسے اس لئیے روہی بولتے ہیں کہ تیز جھکڑدار ہواوں سے یہاں اونچے اونچے ریت کے ٹیلے ہیں جس کو چولستانی روہ بمعنی پہاڑ سمجھتے ہیں۔
انڈس سولائزیشن کا امین یہ وہ صحرا ھے جہاں دریاۓ ہاکڑا گزرا کرتا تھا جو اب خشک ہو چکا۔ چولستانی لوگ خانہ بدوشوں کی طرح اس لق ودق صحرا میں زندگی گزارتے ہیں ۔
جہاں پانی یا مویشیوں کا چارہ نظر آیا خیمے گاڑ لئے اور جب وہ ختم ہوا تو آگے چل پڑے۔ اس صحرا کی سب سے بڑی سرگرمی چنن پیر کا سالانہ عرس ھوتا ھے۔
چنن پیر کا میلہ مارچ کے مہینے مسلسل سات جمعرات تک جاری رہتا ھے جہاں چولستانی مٹھائی نذر کرتے اور تبرک کے طور پر لیتے ہیں۔ چولستان کی زندگی کا زیادہ دارومدار اونٹ۔گاۓ۔بکریاں ۔بھیڑیں پالنے پر ھے۔ مگر وہاں اون سے کھیس۔ چادریں ۔شالیں بھی بنائی جاتی ہیں۔
رنگدار چولستانی عورتوں کے سوٹ بہت خوبصورت بنتے ہیں ۔ اجرک بھی بھت مشھور ھے۔صراف سونے چاندی کے زیور نتھ ۔کٹمالہ۔ کنگن ۔ پازیب تیار کرتے ہیں ۔عورتیں بہت محنت کش ہیں دور دور سے پانی بھر کے لاتی ہیں اور مویشی پالنے ۔کپڑے بننے میں مدد کرتی ہیں۔
لوگ مٹی کے خوبصورت نقش کاری والے برتن بھی بناتے ہیں جو بھت پسند کئیے جاتے ہیں۔
جنگلی جانوروں اور پرندوں کا تو چولستان مسکن ھے ۔عرب شھزادوں نے وہاں اپنے محل بنا رکھے ہیں اور سردیوں میں تلور کا شکار کرنے یہاں آتے ہیں۔ لال سونہاراپارک میں ہرن کی نایاب نسل موجود ھے۔
صحرا میں مور اورچنکارا بھی پاۓ جاتے ہیں۔۔چولستان کے اندر بھت سے قلعے ہیں جو تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ جو نام مجھے یاد ہیں ان میں ۔۔ قلعہ دیراوڑ ۔اسلام گڑھ۔میر گڑھ ۔جام گڑھ۔موج گڑھ۔مروٹ گڑھ۔پھلڑا فورٹ۔ خان گڑھ ۔خیر گڑھ۔نواں کورٹ فورٹ اور بجنوٹ فورٹ شامل ہیں۔
حقیقت یہ ھے کہ بہالپور مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کی ڈریم لینڈ ھے جس کا صحیح علم لوگوں کو نہیں۔۔۔ میں تو لاہور کی طرح اب اس بات کا قائل ھو گیا ھوں کہ۔۔۔۔ جس نے بہاولپور نہیں دیکھا وہ جمیا ہی نہیں یعنی پیدا نہیں ہوا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ