نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

2020 کے پہلے تھپڑ کی گونج ۔۔۔ وجاہت علی عمرانی

یہ تھپڑ ، تشدد، جارحانہ انداز وغیرہ ہماری تہذیب و روایت کا حصہ نہیں۔ کچھ بھی ہو تھپڑ مارنے اور کھانے سے مکمل پرہیز کرنی چاہیئے۔

یہ خالصتا میرا زاتی نظریہ ہے کہ کچھ لفظ بعد میں بنے ہوں گے، پہلے ان کی آواز بنی ہوگی۔ جیسا کہ لفظ ہے ’تھپّڑ‘۔ اس تھپڑ کے لیئے ایک طاقتور بازو، توانا ہاتھ ، کھلا پنجا اور غضب کا اشتعال ہونا لازمی ہے ورنہ تھپڑ کسی کام کا نہیں۔ ۔بہرحال جب یہ ساری لوازمات پوری ہوں تو پھر تھپڑ ہوا میں زناٹے بھرتا ہوا جاکر کسی کے رخسارِ محترم پر پڑنے کے ساتھ ساتھ ایسی گونج پیدا کرتا ہے جو سوشل میڈیا پہ سنائی بھی اور دکھائی بھی دیتی ہے۔

ایک اور بات جو سوچنے کی ہے وہ یہ کہ تھپّڑ مارنے کے لئے انسان کا رخسار ہی کیوں؟ زنّاٹے دار ہاتھ گال ہی پر کیو ں پڑتا ہے۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ انسان کو پیدائش ہی سے اکثر پیار اسی رخسار پر ملتا ہے۔ اردو ادب میں بھی ازل سے آج تک کوئی ایسا شاعر یا ادیب نہیں جس نے محبوب کے رخسار یا گال کا زکر اپنے اشعار میں نہ کیا ہوا۔ بس یہی چہرے کا وہ حسّاس علاقہ ہے جہاں پیار اور لمس یکجا ہوتے ہیں تو ثابت ہوا کہ بوسے اور تھپڑ کے لیئے انسانی جسم میں رخسار کے علاوہ دوسری کوئی موزوں جگہ نہیں، ویسے تھپڑ کھانے کے بعد گال سہلانا ضروری ہوتا ہے۔

کیونکہ میں ایک ادبی بندہ ہوں تو سوچا کیوں نہ لفظ تھپڑ پر تحقیق کی جائے تو میری تحقیق کے مطابق
یہ ہندی لفظ اردو زبان میں عربی رسم الخط کے تحت سب سے پہلے اٹھارہ سو تہتر میں اختر کی کتاب ایمان میں مستعمل ملا۔ بہرحال لفظ تھپڑ کی ابتدا جو بھی ہو لیکن ایک دوسرے کو تھپڑ مارنے سے یا تو لڑائی شروع ہو جاتی ہے یا لوگ ایک دوسرے کو تھپڑ مارتے ہی لڑائی کے دوران ہیں۔

تھپڑ مارنے والے اور تھپڑ کھانے والے کے تعلقات مشکل سے ہی ٹھیک ہو پاتے ہیں۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ پچھلے سال میں ایک چینی کمپنی ایک انوکھا فلسفہ لے کر سامنے آئی ہے اور اسکا کہنا ہے کہ تھپڑ مارنے سے لوگوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ اس کے لیے اس کمپنی نے اپنی سالانہ تقریب میں اپنی کمپنی کے خواتین ملازمین کو ایک دوسرے کو تھپڑ مارنے کا کہا اور اس کی ایک وڈیو بھی سوشل میڈیا پر نشر کی ہے کمپنی نے موقف اختیا ر کیا ہے کہ خواتین ملازمین میں ایک دوسرے کو تھپڑ مارنے سے پیار، محبت اور یکجہتی بڑھتی ہے، تو لازمی ہے کہ یہ خبر پاکستان کی خواتین تک ضرور پہنچنی چاہیے۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ تھپڑ مارنے سے جسم پر کوئی زخم نہیں آتا اس لئے یہ کوئی بڑا جرم نہیں۔ یہ بات وہ لوگ کہتے ہیں جن پر یہ واردات کبھی گزری نہ ہو ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ایک بھرپور تھپّڑ انسان کے اندر جو توڑ پھوڑ مچاتا ہے اسے بہت کم لوگ سمجھتے ہیں۔ یہی تو واحد جرم ہے جس میں مجرم اپنی انگلیوں کے نشان نہیں بلکہ مکمل ہاتھ کا پورا چھاپہ چھوڑتا ہے۔

یہی ہاتھ تالی بجانے کے کام بھی آتا ہے لیکن کہتے ہیں کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ تھپّڑ کی خوبی یہ ہے کہ اس کے لئے ایک ہاتھ کافی ہے اور اس کی آواز تالی سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ میرے علم کے مطابق طمانچہ اور تھپڑ کا ایک ہی مفہوم ہے، لیکن طمانچے کا لفط نسبتا مہذب اور شائستہ نظر آتا ہے۔ اس کی ساخت اور املا میں بھی دھیما پن ہے اور طمانچے مارنے والے شخص کو لوگ صرف بدتمیز و بد تہذیب جیسے ہلکے پھلکے الفاظ کا خطاب دیتے ہیں۔

لیکن لفظ تھپڑ لکھنے ، کہنے اور پڑھنے میں کافی وحشیانہ اور متشددانہ دکھتا ہے اور مارنے والے کو لوگ دہشت گرد کی دوسری یا تیسری قسم کے خطابات سے نوازتے ہیں یعنی دو ٹانگوں والا جانور، بیہودہ ، واہیات، غنڈہ، بے شرم وغیرہ وغیرہ۔ دنیا کے مختلف معاشروں میں تھپڑ مارنے والے کو ظالم اور پڑنے والے کو مظلوم کہا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں تھپڑ مارنے والے کو ہیرو اور تھپڑ سہہ جانے والے کو کمزور تصور کیا جاتا ہے۔

آپ اپنے اردگرد ، ٹی وی ٹالک شوز یا کسی بھی جگہ دیکھیں ابے تبے، اوئے توئے سے شروع ہونے والی بات گالی تک کا سفر کرتی ہوئی تھپڑ پر ختم ہوتی ہے کیونکہ پہلا تھپڑ ہی سب کچھ ہوتا ہے اسکے بعد ڈرامہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر عوام کئی دن تک اس ڈرامے کو بڑے شوق سے دیکھتی اور سنتی رہتی ہے۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کا کوئی ایسا شخص نہیں جس نے زندگی میں کبھی کسی قسم کا تھپڑ نہ کھایا ہو کیونکہ پاکستان میں تھپڑوں کی کئی اقسام ہیں مثلا بچپن کا تھپڑ، سکول کا تھپڑ، فیل ہونے کا تھپڑ، جوانی کا تھپڑ، محبت کا تھپڑ ، بے روزگاری کا تھپڑ ، مہنگائی کا تھپڑ، غربت کا تھپڑ، سیاسی تھپڑ، معاشرے کا تھپڑ، بیماری کا تھپڑ، نام نہاد ترقی کا تھپڑ ، لارے لپے کا تھپڑ ، بجلی و گیس کا تھپڑ، ناجائز جرمانوں کا تھپڑ، وغیرہ وغیرہ۔ لگتا ہے سارا سماج ایک دوسرے کو تھپڑ مارنے میں مشغول ہے طاقتور کمزور کو، بڑا چھوٹے کو، با اختیار بے اختیار کو، مرد عورت کو، استاد شاگرد کو، مہنگی گاڑی والا سستی گاڑی والے کو بدقسمتی سے تھپڑ رسید کرتا رہتا ہے۔ کئی اداروں نے تو گناہگار و بے گناہ دونوں کو تھپڑ مارنے میں گویا پی ایچ ڈی کر رکھی ہوئی ہے۔

کبھی کبھی کمزور طاقتور کو یا ہم پلہ طاقتور دوسرے ہم پلہ طاقتور کو تھپڑ مار بھی دیتا ہے تو پھر کہانی بدل بھی جاتی ہے۔ بعض اوقات ہاتھ کے تھپڑ سے لفظوں کا تھپڑ دل پر بہت زور سے لگتا ہے جس کا اثر انسان قبر تک اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔

الحمداللہ ! ہم پاکستانی بڑے سخت جان ہیں پوری زندگی میں ہر قسم کا تھپڑ کھا کر بھی زندہ رہتے ہیں اور وہ بھی بغیر شرمندہ ہوئے ۔ لیکن ایک تاریخی تھپڑ کا زکر ضرور کروں گا۔ ترکی کے سلطان مراد چہارم نے 1634ء میں اپنے وزیرِاعظم پر حملہ کرنے والے 2 محافظوں کو تھپڑ رسید کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس تھپڑ کو تاریخ میں ’عثمانی تھپڑ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عثمانی تھپڑ ایسی دفاعی تکنیک ہے جس کے استعمال سے مدِمقابل کے سر کی ہڈی چٹک جاتی ہے اور وہ موقعے پر ہی مرجاتا ہے۔ یہ تھپڑ اگر کسی گھوڑے کو بھی رسید کردیا جائے تو وہ بھی زندہ نہیں رہ پائے گا۔

یہ تھپڑ ، تشدد، جارحانہ انداز وغیرہ ہماری تہذیب و روایت کا حصہ نہیں۔ کچھ بھی ہو تھپڑ مارنے اور کھانے سے مکمل پرہیز کرنی چاہیئے۔ صرف محبت، امن، سکون اور آشتی تہذیب، روایات اور ادب آداب ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے اور گلی کوچوں سے ہوتی درس گاہوں تک جاتی ہے اور پھر معاشرے میں نظر آتی ہے ۔ آج بھی اگر کسی کو تھپڑ لگتا ہے تو یہ مشہور ڈائیلاگ تھپڑ کھانے والے کے کانوں میں گونجتا ہوا سنائی دیتا ہے ’’تمہیں اس تھپڑ کی گونج جب تک تم زندہ رہو گے یاد رہے گی۔‘

About The Author