دریاؤں کے سیلاب کے دوران جو وقتی طور پر تباہی ہوتی ہے اور اس سے ایک سیزن کی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور مکانات کو جزوی نقصان پہنچتا ہے تو اس کےلئے مقامی و بین الاقوامی این جی اوز فنڈز کو ہڑپنے کےلئے میدان میں کود پڑتی ہیں ۔ جیسا کہ 2010کے سیلاب میں بلا شبہ بہت بڑی تباہی ہوئی ۔ لوگ گھر سے بے گھر ہوئے لیکن عارضی طور پر پانی کی سطح گرتے ہی لوگ اپنے اپنے علاقوں کی طرف واپس چلے گئے لیکن سیلاب کے دوران جس طرح فنڈز کو بے حساب لوٹا گیا اور سیلاب متاثرین کے نام پر اربوں ڈالر کا ہیر پھیر ہو گیا ،ٹھیک ہے مدد بھی کی گئی ۔
لیکن اس بر عکس اگر دیکھا جائے تو دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر تحصیل جتوئی کے علاقوں بیٹ دریائی ،بھنڈہ مہربان ،نو برآمدہ،لنڈی پتافی ،رام پور اور جھگی والا دریائے سندھ نے کٹاو سے جو تباہی مچا رکھی ہے وہ کسی کو نظر نہیں آرہی ۔
2000ء سے شروع ہونے والے اس کٹاؤ نے ایسی تباہی مچائی اور مچا رکھی ہے کہ ہزاروں ایکڑ سونا اگلتی زرعی زمینیں دریا کا حصہ بن گئیں ۔ سینکڑوں ھنستے بستے خاندان گھر سے بے گھر ہوگئے ۔ درجنوں بستیاں دریائے سندھ کی نظر ہوگئیں ۔
سینکڑوں ایکڑ زکے مالکان اب صرف چھت اور چادر چار دیواری کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ جہاں کبھی زندگی کی بہاریں تھیں ۔ ہر طرف رونقیں ہی رونقیں تھیں وہاں اب دریائے سند اپنی پوری آب و تاب سے بہہ رہا ہے ۔ ان بستیوں کے مکین جنگلوں اور بیابانوں میں سرکنڈوں کی جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہیں ۔
جہاں سردیوں کی ٹھنڈی یخ بستہ ہوائیں ان جھونپڑیوں کے ماحول کو برفیلا اور گرمیوں کی گرم لو ان کے جسموں کو جھلسا دیتی ہیں ۔ اور تیز ہوا میں تو یہ سرکنڈوں کی جھونپڑیاں ہوا کے ساتھ مستی کرتی ہوئی ہوا کا حصہ بن جاتی ہیں ۔
اوروہاں کے مکین خاص طور پر بوڑھے مر و خواتین اور چھوٹے چھوٹے بچے درختوں کی اوٹ بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کی نظریں کسی مسیحا کی منتظر ہوتی ہیں جو ان کو ان مصیبتوں سے نجات دلائے ۔
لیکن اسی طرح کٹ گئے شب و روز کسی مسیحا کے انتظار میں اور میری شب غم نہ ڈھل سکی ۔ دریائے سنڈھ کا کٹاءو آج بھی پوری آب و تاب کے جاری ہے ۔ جس میں مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ قبرستان ،مساجد ،سکولز ،مدارس بھی دریا بہا کے لے گیا اور اس وقت گورنمنٹ ہائی سکول محمد والی اور بنیادی ہیلتھ سنٹر بکائینی بیٹ دریائی بھی تباہی کے دہانے پر ہیں ۔ نقل مکانی کرنے والے جنگلات کا رخ کرتے ہیں تو جنگلات والے ان کو سر چھپانے کےلئے جگہ دینے پر راضی نہیں اور آئے روز ان کی جھونپڑیاں توڑ دیتے ہیں ۔
اس کٹاو کی وجہ سے موضع نو برآمدہ سو فیصد ،موضع بیت دریائی اسی فیصد ،موضع بھنڈہ مہربان ستر سے اسی فیصد لنڈی پتافی تقریبا پچاس فیصد دریا برد ہو چکا ہے اور اس جو قو میں زیادہ متاثر ہوئیں ان میں لسکانی ،بلوچ ،بھٹار ،کلو ،گوراہا،سنیدیلہ ،ڈکھنہ ،ککیہ ،ارائیں پنجابی ،سید ،لغاری،و دیگر شامل ہیں ۔ جہاں پر لوگ گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں وہاں سونا اگلتی زرعی زمینوں کے دریا برد ہونے پر لوگوں کا روز گار بھی ختم ہو گیا ہے کیونکہ ان علاقوں میں لوگوں کا گزر بسر اور روز گار کاشتکاری اور اس میں محنت مزدور پر تھا ۔
اس لیے سینکڑوں لوگ بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ بے روز گار ہو گئے ۔ اور مذید اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ سال 2008 میں اس وقت کے مقامی ایم پی اے سردار چنوں خان لغاری نے تین سپر بند منظور کرائے لیکن ان میں سے ایک سپر بند تعمیر ہوا لیکن وہ بھی کرپشن کا کی نظر ہوا اور محض ریت کا پہاڑ ثابت ہوا ۔
اب سب سے زیادہ کٹاو لنڈی پتافی کے علاقوں میں جاری ہے ۔ اس حکومت کو دوسال ہونے والے ہیں لیکن ان دو سالوں میں صرف مقامی ایم پی اے سردار خرم سہیل خان لغاری معاون خصوصی وزیر اعلی پنجاب کے علاوہ کسی نے بھی علاقہ کا دورہ نہ کیا اور نہ ہی ان علاقوں کے مکینوں اور متاثرین کا حال پوچھا ۔
مقامی ایم پی اے کی طرف سے بھی محض تسلیوں کے علاوہ کچھ نہ ملا ۔ ان دو سالوں میں صوبائی عہدیداروں کو چھوڑو کسی کمشنر یا ڈپٹی کمشنر نے بھی ان متاثرہ علاقوں میں جا کر ان مصیبت زدہ لوگوں کا حال پوچھنے کی زحمت گوارا نہ کی ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان علاقوں میں متاثرین کٹاءو اور بے گھر خاندانوں کے لئے کالونی بنائی جائے جہاں پر ان کو چھت میسر آسکے ۔ دوسرا یہ کہ ان علاقوں کو مذید تباہی سے بچانے کےلئے سپر بند کی تعمیر کرائی جائے ۔
اس بارے مقامی ایم پی اے سردار خرم سہیل لغاری سے بات ہوئی تو انہوں نے وہی بات دہرائی کہ حکومت سے کئی بار بات ہوئی ہے اور وزیر اعلی پنجاب نے اسی جنوری میں فنڈز مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہا ہوں امید ہے انشاء اللہ جلد ہی اپنے علاقوں کو کٹاءو سے مذید تباہی سے بچانے کےلئے فنڈز حاصل کر لوں گا ۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی