ستمبر 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رعایا اور عوام میں فرق ہوتا ہے ۔۔۔حیدر جاوید سید

جمہوریت محض لذت دہن ہے ،اور دستور،اس کے بارے میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ارشادات موجود ہیں

سول سپرمیسی،جمہوریت،نیشنل ازم وخدمت گاری کس میں مجال ہے کہ زمینی حقائق سے منہ موڑ کر”زندہ”رہے۔یہاں زندگی کے طلبگار کتنے فیصد متفق ہیں
” جدھر دیکھوں بیچارے بیٹھے ہیں۔ہزاروں مر گئے سینکڑوں تیار بیٹھے ہیں”
دوچار ملاقاتوں اور معاملات پر کھلنے والا معاملہ ہر گز نہیں کہ دوست جذباتی ہوئے کشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں اور کچھ ایک دوسرے پر طنز کے تیر برسانے میں جتے ہوئے ہیں۔
بہت ادب سے عرض ہے کہ سیکورٹی اسٹیٹ میں آزادی کی حدودکا فیصلہ دستور نہیں مفادات سے مشروط ہوتا ہے۔

رائے دہند گان کی اہمیت جمہوریت میں ہوتی ہے۔جرنیلی جمہوریت اور اس کی خالہ زاد طبقاتی جمہوریت میں فقط چہرے بدلتے ہیں
جوانی کے دنوں میں ہم بہت زور وشوق اور جذبہ سے ساتھیوں کے ساتھ ملکر الاپاکرتے تھے۔
”لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے”
اورپھر خوب دیکھا کیسے سمجھوتوں سے عبارت سیاست اور اس کی مخالفت،دلیلوں کے ایسے انبار کہ کبھی کبھی رشک آنے لگتا تھا۔
اس لیئے اب کس ہونی یا انہونی پر خوشی اور غم والی کوئی صورت ہوتی ہے نا چہرے کے تاثرات۔
سامراج دشمنی نہیں رہی کیونکہ ہم سب نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق چھوٹے چھوٹے سامراج پال رکھے ہیں

جمہوریت محض لذت دہن ہے ،اور دستور،اس کے بارے میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ارشادات موجود ہیں۔
سو فقیر راحموں کی یہ بات ہمیشہ مان لیتا ہوں کہ جب کبھی ایسی باتیں دل دکھانے کا سبب بننے لگیں تو کافی پیو ساتھ سگریٹ کے کش لو۔زیادہ دکھی ہو جائو تو کتابوں کے اوراق پر سجے حروف سے حظ لو
دیکھئے حقوق اور فیصلے عوام کرتے ہیں رعایا کے حقوق نہیں ہوتے اور یہ رعایا کے نمائندے ان کے کیا حقوق ہوں گے

ساجھے داری ہے سب ایک دوسرے کے مفادات کے محافظ ہیں۔سب کے پاس اپنے اپنے عمل کے حق میں تاویلات کے دفتروں کا ڈھیر لگا ہوا ہے ۔
پچھلے سولہ سترہ گھنٹوں سے تاویلات ہی بھگت رہے ہیں دست قاتل کی قدم بوسی کوسبھی پر جوش ہیں شکوہ کس سے کیا جائے؟
اچھا ویسے شکوہ کرنے سے کیا ہوگا۔کچھ نہیں۔ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔
میرے دوست ماسٹر مشتاق احمد کا بس نہیں چل رہا کہ وہ2018ء کی ایک تپتی دوپہر میں نون لیگ کو ڈالے گئے ووٹ کو کسی طرح برآمد کروالے وہ اپنے صدمے کو کم کرنے کے لئے تھوڑی تھوڑی دیر بعد جیالوں پر پھبتی کس کر دلپشوری کرلیتے ہیں۔
چار اور یہی صورتحال ہے۔
اپنا اپنا چور بکل میں ڈالے دوسرے کو بتایاجارہا ہے۔
”تیری بکل دے وچ چور”۔
کالم یہیں تک لکھ پایا تھا کہ فقیر راحموں کہنے لگے
”تم کو اُن سے ہے وفا کی امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے”۔اچھا اب وفا کو جمہوریت نہ سمجھ لیجئے گا۔
”جمہوریت چیز دیگر است”
ہماری نسل کے وہ لوگ جنہوں نے اپنی جوانیاں طلوع صبح جمہور اور دستور کی بالا دستی کے لئے آمروں سے لڑنے بھڑنے میں برباد کیں اب بس ہاتھ ملتے ہیں اس سے زیادہ ان کے بس میں کچھ نہیں
یاد پڑتا ہے جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں جمہوریت اور دستور کی باتیں کرتے تھے تو ارد گرد سے آوازیں سنائی دیتی تھیں
”ارے چھوڑو یار یہ بگڑے ہوئے بچے ہیں دین بیزار اس لئے تو اسلامی نظام کے نفاذ کے مخالف ہیں”۔
الفاظ بدلے ہیں اب لوگ کہتے ہیں
”ارے چھوڑو ان بزرگوں کو یہ سدھرنے کے نہیں”۔
سدھرنے کے نہیں کبھی کبھی سوچتا ہوں ہم بگڑے کب تھے۔اور اب سدھر کیوں نہیں پار ہے۔
چلیں چھوڑیں اس بگڑنے اور سدھرنے کی بحث میں کیا رکھا ہے ۔عوام کے حق حاکمیت کا خواب تو کب کا ریزہ ریزہ ہواہونا بھی چاہیئے تھا
جن جماعتوں کے اندر جمہوریت پروان نہیں چڑھ پائی ان سے جمہوری نظام اوردستور کی سربلندی کے لئے توقعات باندھ لینے سے حقائق تبدیل نہیں ہوتے ۔
طبقاتی ضرورتیں اورمفادات مختلف ہوتے ہیں۔
لیکن اس کا کیا کریں کہ پتلی تماشوں سے اب بھی جی نہیں بہلاپار ہے۔
حالانکہ اس وقت صورت یہ ہے کہ
”تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے”
کبھی کبھی فقیر راحموں یہ پوچھ لیتا ہے ۔
شاہ جی!
کیا واقعتاً ہمیں جمہوریت اور دستور کی ضرورت ہے بھی یایہ محض فیشن ہے؟
کڑواسچ یہی ہے کہ سب جی بہلانے کے بہانے ہیں ۔
ہم ازل کے شخصیت پرست ہیں شخصیت پرستی کے اس مرض کی کو کھ سے ہی ناگزیریت والی سوچ نے جنم لیا

ورنہ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ نا گزیرلوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔
چھوڑیں یہ کیا سنجیدہ اور آزردہ کرنے والی باتیں لے بیٹھے ہم۔
چند صدیا ہزار پاگلوں کی بائیس کروڑ میں اہمیت کیا ہے۔
دل گرفتگی کی وجہ یہ ہے کہ چار اور حقیقت کو سمجھنے کی بجائے لوگ ایک دوسرے کو طعنے دے رہے ہیں۔
ہم موضوع بدل لیتے ہیں۔سیاست کے میدانوں اور اقتدار کے ایوانوں میں سمجھوتے ضروری ہوتے ہیں۔
خدا خوش رکھے میاں شہباز شریف کو انہوں نے صاف کہہ دیا
”جھکنا اور راستے دینا ضروری ہے ضد کر کے نہیں بیٹھا جا سکتا”
راستے ایسے ہی ملتے ہیں ورنہ تو حادثات کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔
اس لئے پیارے قارئین آپ بھی کسی بات پر رنجیدہ نہ ہوں

راکھ میں سے ہیرے تلاش کرنے میں ہاتھ کالے کرنے سے بہتر ہے کہ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کر والینے والوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کیجئے۔
یہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس میں بس جیسے تیسے یی سہی رہ لیجئے کہ آپ کے پاس متبادل کوئی نہیں
آپ کوئی جزیرہ خرید کر نئی بستی بسا سکتے ہیں نا زرعی فارم میں آرام کی پرسکون زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
سو جیسا ہے موجود ہے یہی کچھ ہے اور ہمیشہ رہیگا۔
مسائل کا سورج سوانیزے پر ہے ۔
مہنگائی نے بد حال کردیا ہے جو بھی ہے اس پر خوش رہیں۔محسوس کرنا خود کو روگ لگانا ہے اس کا فائدہ ؟۔
جب سارے نفع نقصان دیکھتے سوچتے ہیں تو آپ کیوں منہ موڑ کر جینا چاہتے ہیں عطار کے "بالک” سے دوا لینے میں ہی بہتری ہے۔
پھر بھی چلتے چلتے یہ عرض کردوں کہ سب کچھ کیجئے گا لیکن سوچنا ترک نہ کیجئے گا۔
چلیں دست دعا بلند کرتے ہیں۔
اللہ خیر کرے ہم سب کی اس ملک اور ہمیں رعایا سے عوام بننے کی ہمت کی توفیق عطا کرے ۔

About The Author