اتنی شدید سردی، واقعی سچ ہے، خدا دیتا ہے تو چھپّر پھاڑ کر دیتا ہے، سردی کی بدولت رگوں میں خون سفید ہو گیا ہے۔ سردی نے اس طرح آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے کہ بندہ اپنے گریبان میں بھی نہیں جھانک سکتا۔ ایسے موسم میں تو بندہ کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے محاورے کا عنوان نظر آتا ہے۔ سردی کی شدت میں ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز یا ایک توے کی روٹی ، کیا چھوٹی کیا موٹی یعنی سب ہی گھروں میں دبکے نظر آتے ہیں۔ بس یہ کہوں کہ یہ سردی نہیں کوئی آفت کی پڑیا ہے جس نے ناک میں دم کرتے ہوئے سب کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ سونے پہ سہاگہ، دھند اتنی کہ الامان آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل، ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیتا۔ بہرحال سردی سے بچنے کے لیئے جتنی چادر اتنے پاؤں پھیلانا ضروری ہےورنہ چھٹی کا دودھ یاد دلا دے گی۔
قصہ مختصر سو سنار کی ایک لوہار کی فوری رضائی میں گھس گیا کیونکہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر؟ خواب خرگوش کے مزے کیا لیتا۔ بس منہ چھپائے خیالی پلاؤ ہی بناتا رہا اور کاٹھ کے گھوڑے دوڑاتا رہا۔ تیس مار خاں بننے کی کوشش میں دانتوں میں انگلی دبا کر سوچنے لگا کیونکہ میں بھی ہر فن مولا ہوں۔ لیکن ہر کام کے نتائج دیکھ کر انگور کھٹے ہیں ہی کہنا پڑتا ہے۔میں بھی کیا بھینس کے آگے بین بجانا شروع ہو گیا۔ میں جانتا ہوں یہاں اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ ہے، ہر کوئ چاہتا ہے کہ چمڑی چلی جائے دمڑی نہ جائے۔ عوام کا قصوربھی نہیں کیونکہ ان کے آگے کنواں پیچھے کھائی ہے۔ بس ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرنے کے چکروں میں ہے۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے سب طوطا چشم ہیں۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں، بس ایک چُپ سو سُکھ ۔ انہی سوچوں میں غرق تھا کہ آفتاب اعوان کی فون آ گئی، آخر کیوں فون نہ آئے دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ مطلب آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں، ہیلو کر کے سوچنے لگا کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا ویسے بھی تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اور پھر بات کا بتنگڑ بنانا شروع ہو گئے کیونکہ ایک اکیلا دو گیارہ ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ہم یک جان دو قالب ہیں۔ حال احوال پوچھنے کے بعد میں نے بھی اسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مشورہ مانگ لیا کہ کیا لکھوں؟ یقینا میرا سوال سن کے آفتاب نے سوچا ہو گا کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا اور ایک تو کریلا، دوسرے نیم چڑھا۔ ویسے بھی اول فول لکھ کے یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتا ہے۔ آدھا تیتر، آدھا بٹیر والی بات ہے، بس ادب کی دنیا میں ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہا ہے۔ آفتاب کہنے لگا عمرانی بھائی ! جس کا کام اسی کو ساجھے اور آپ ہیں جو ہتھیلی پہ سرسوں جما رہے ہیں۔ اب ادب کی دنیا میں اتنا بھی اندھیر نگری چوپٹ راج نہیں۔ آپ بس گھوڑے بیچ کر سو جائیں اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے ساتھ ڈینگیں مارنا چھوڑ دیں۔ یہ لکھاری بننا آپ کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا رہتا ہے۔ آپ ادبی دنیا میں نیم حکیم خطرہ جاں کے مصداق ہیں۔ آپ اچھے انسان ہیں، انسان بن کے رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔
یہ باتیں سن کر میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، میں بھی آپے سے باہر ہوگیا اور بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کہہ کر شروع ہو گیا، اندھے کو اندھیرے میں دور کی سُوجی اور کہا تو کون میں خوامخواہ، مان نہ مان میں تیرا مہمان، ڈاکٹر صاحب پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اور ویسے بھی آجکل میری پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو، میں نے تو گدڑی میں لعل چھپائے ہوئے ہیں اورکئی لکھاریوں کا ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ میری لکھت کو پڑھ کے کئی لکھاری نو دو گیارہ ہو رہے ہیں۔ یاد رکھو میں کوئی تھالی کا بینگن نہیں اوریہ بھی سچ ہے کہ بوڑھے طوطے نئے سبق یاد نہیں کرتے، بس تم تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔ یہ بھی یاد رکھنا چڑھتے سورج کو سب پوجتے ہیں۔ آفتاب بھائی آپ نے چھوٹا منھ بڑی بات کیسے کر لی؟ کیا چیونٹی کے پر نکل آئے؟ آج کل آپ کا دماغ ساتویں آسمان پر ہے۔ میں تو ایک منٹ میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے دن کو تارے دکھا دوں گا۔ آپ نے خوامخواہ رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ شاید آفتاب موقع کی نزاکت کو سمجھ گیا تھا، کہنے لگا دراصل آجکل سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے۔ میں کون ہوتا ہوں آپ کو مشورہ دینے والا، بیگانی شادی میں عبداﷲ دیوانہ۔ آپ لکھیں لیکن یاد رکھیں جتنا گُڑ ڈالو گے اُتنا میٹھا ہوگا۔ ہم وہ نہیں کہ جس تھالی میں کھائیں اُسی میں چھید کریں۔ لیکن مجھ سے جیتی مکھی نہیں نگلی جاتی اور آپ لکھنے کی بات کرتے ہیں تو سنیں خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ آپ لکھیں پھر دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ میں ڈنکے کی چوٹ پہ کہتا ہوں لیکن دھیمی آواز میں کیونکہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہونے والا۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے۔ مزہ تب ہے جب آپکا لکھا کالم کہیں چھپ جائے۔ دل میں فورا ورد شروع کیا جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو، اونٹ کے منہ میں زیرہ، نصابی کتب میں پڑھا تھا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بنانا ہی پڑتا ہے۔ میں نے پیار سے کہا آفتاب بھائی ! چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات ہے۔ دُنیا اُمید پر قائم ہے، یہ میرا ہی قصور ہے جو بلی سے دودھ کی رکھوالی کا کہا، لیکن بات وہی رسی جل گئی پر بل نہ گیا۔ میں دھیمے انداز میں کہنے لگا کیونکہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھوک پھوک کے پیتا ھے اور چور کی داڑھی میں تنکے والی بات تھی۔ مجھے کہاں معلوم تھا کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑیں گے۔ میں تو آفتاب کے دانت کھٹے کرنا چاہتا تھا۔ پَر میرے اپنے دانتوں پسینہ آگیا۔ میں جانتا ہوں دو مُلاؤں کے بیچ میں مُرغی حرام ہوتی ہے ، وہ بھی ادیب ، میں بھی ادیب۔ سو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، پیار سے سمجھایا کہ رات گئی بات گئی۔ اس نے بھی حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے کہا کہ عمرانی بھائی کل کی چائے میرے ذمے۔ اسکی یہ سخاوت ؟ مجھے تو دُور کے ڈھول سہانے لگنے لگے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سیر کو سوا سیر مل ہی جاتا ہے، ویسے ہی شہر میں اونٹ بدنام ہے۔ آفتاب کا اتنے پیار سے چائے کی دعوت دینا تو سوچا کہ صبح کا بھولا شام گھر آئے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔ یقین ہے کے کل جب اس کے گھر چائے پینے جاؤں گا تو وہ یہ ضرور کہے گا :
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ