ننکانہ صاحب میں دومسلم خاندانوں میں جھگڑے گرفتاری اور صلح کے بعد ہوئی رہائی کے بعد ایک خاندان کا اپنے رشتہ داروں سمیت مظاہرہ اور سکھ برادری کے خلاف نعرے بازی کے پس منظر کو جانے بغیر سوشل میڈیا پر کچھ دوستوں کی پوسٹوں سے یہ منفی تاثر مستحکم ہورہا ہے جیسے یہ مسلم سکھ جھگڑا ہے ۔ ننکانہ اور شیخوپورہ کے ذمہ دار صحافیوں سے رابطے اور ان سے معلومات حاصل کرنے کے بعد آج کے اس واقعہ کا پس منظر بیان کرنا بہت ضروری ہے
دوستانِ مکرم !
آج دن میں ننکانہ شہر کے ایک چائے والے سٹال پر موجود دو مسلم خاندانوں کے نوجوانوں کے درمیان کسی بات پر تنازعہ ہوا جو جھگڑے میں بدل گیا باہمی مارکٹائی کے دوران اطلاع ملنے پر مقامی ہولیس نے موقعہ پر پہنچ کر متحارب گروہوں کے افراد کو گرفتار کرلیا دونوں فریقوں کے گرفتار افراد کی تھانے میں پولیس نے روائیتی خدمت بھی کرڈالی بعد ازاں دونوں طرف کے بزرگوں اور شہر کے معززین کی کوششوں سے جھگڑنے والے خاندانوں میں صلح ہوگئی
آپس کے جھگڑے میں گرفتار اور پولیس کی خدمت کا ذائقہ چکھنے والوں میں سے ایک خاندان اُس مسلم خاندان کا رشتہ دار ہے جس کے خلاف مقامی سکھ برادری کی ایک لڑکی کے اغوا کا مقدمہ درج ہے جوابی طور پر اغوا میں
نامزد خاندان کا موقف ہے کہ سکھ لڑکی نے محبت کی شادی کے لیے اسلام قبول کیا ہے
اس اغوا شادی اور تبدیلی مذہب کے حوالے آئندہ سوموار یا منگل کو مقامی عدالت میں فریقین کی پیشی ہے جہاں لڑکی کا آزادانہ بیان بھی ہونا ہے
اس پیشی کو بنیاد بناکر آج کے عام سے جھگڑے میں گرفتار فریقین میں سے ایک کا اصل مسلہ سے توجہ ہٹاکر من گھڑت موقف پر احتجاج کا راستہ اختیار کرکے شہر کی فضا خراب کرنے کی ناپسندیدہ کوشش کی
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی واقعہ کا پس منظر جانے بغیر سوشل میڈیا پر مسلم سکھ تنازعہ کا تصور پیش کرتی پوسٹوں سے گریز کیا جائے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ