روٹھی ہوئی دھوپ، کُہر کی چادر اوڑھے تمازت سے محروم سورج، یخ بستہ اور کڑاکے کی سردی، دھند سے دھندلے منظر، زمین پہ کُہرے کی بچھی ہوئی سفید چادر، زرد پتّوں کی ’’بُکل ‘‘ مارے بیمار درخت، سردی کی اُداس شامیں اوریخ بستہ طویل راتیں، صحن میں اگر رات کو پانی گر جائے تو صبح کے وقت وہ شیشے کی طرح جما ہوا نظر آتا ہے۔ سردی میں آنسو تو نہیں جمتے مگر سردی اتنی شدید ہے کہ رگوں میں خون جمتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور یخ بستہ ہوائیں اس سردی کو دو آتشہ کئے ہوئے ہیں۔ نظام زندگی متاثر، ہم جیسے لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے۔ ایسے لگتا ہے سردی نے زندگی کے سارے رنگ چھین لیئے ہوں۔ ان حالات و مناظر کے باوجود بھی جس نے مجھے گرم رضائی اور دہکتی انگیٹھی کوفورا چھوڑنے پہ مجبور کیا وہ تھی جناب گلزار احمد خان کی ٹیلی فون کے بس کچھ بھی ہو آپ نے ضرور آنا ہے میرے تہہ خانے (بُھورے میں) قلمکاروں کی کہکشاں جمع ہو رہی ہے۔ میں بھی اس ادبی محفل میں ادب کی دھمال ڈالنے کے لیئے فورا تیار ہوگیا کیونکہ میں ثوابِ دارین سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا۔ واقعی گلزار صاحب کی اس سجی محفل سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا بلکہ علمی تشنگی بجھانے کے ساتھ ساتھ ان کی بہترین تواضع سے پیٹ کی بھوک بھی مٹائی۔
دسمبر کے آخری دن ہیں اور جنوری میں بیٹے دارین عمرانی کی سالگرہ ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی بیٹے کو سالگرہ کا تحفہ کتابیں ہی دوں گا۔ پچھلے سال تحفے میں اشفاق احمد کی کتابوں کا مکمل سیٹ دیا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اس سال کون سی کتابیں دوں ؟ آپ بھی کہیں گے کہ یہ کیا سالگرہ پر بھی کتابوں کا تحفہ؟ کوئی موبائل ، کوئی موٹر سائیکل یا کوئی اور مہنگا تحفہ دو۔ تو سُنیں، کبھی آپ نے سوچا ؟ ہمارے بچے اسکول میں تو بہت ہی شاندار نتائج حاصل کرتے ہیں لیکن کسی قسم کے مباحثے میں تعمیری حیثیت میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوتے؟ ان میں سے کئی بچے اپنے اساتذہ، والدین، گھروالوں اور دوستوں کے آگے بولنے سے اتنا گھبراتے کیوں ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ بچّوں کے ہاتھوں میں وہی گھسی پٹی درسی و نصابی کتابیں ہیں، اکتانے والی اور ذہن کی تربیت میں کسی کام کی نہیں۔ایسے میں ضرورت اور شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کے کردار، ذہن اور انداز ِ فکر کو تبدیل کرنے کے لیئے ادبی کتابیں جو کہ مہان ادباء اور دانشوروں نے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر لکھی ہیں وہ بچوں کو پڑھنے کے لیئے دی جائیں تاکہ بچوں کے شعور و ادراک کے دریچے کھلیں، سوچ وسیع ہو، اپنی رائے کا پورے اعتماد کے ساتھ کھل کر اظہار کر سکیں۔ تو میرے بھائیو بچوں کو سالگرہ اور دیگر مواقع پر کتابیں تحفہ میں دیں۔ بلکہ ہر گھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری ہونی چاہیے جس میں بچوں کی کتابیں تسلسل کے ساتھ شامل ہونی چاہیں۔
لاہور کے ایک دوست سے کتابوں کے بارے فون کی تو اس نے جواب دیا کے عمرانی صاحب کہاں کتابیں ڈھونڈتے پھریں گے۔ آج کل ہر قسم کے کاروبار کی دنیا اب انٹر نیٹ پر منتقل ہو چکی ہے۔ انٹر نیٹ پر کتابیں بیچنے والی ویب سائیٹس پر آرڈر کریں اور صرف ایک کلک پر خریدی اور اپنی پسند کی کتب براہ راست اپنے گھر کے دروازے پر وصول کریں۔ واہ زبردست ۔ ویسے بھی آج کل آن لائن خریداری کا رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ زندگی اتنی مصروف ہوتی جارہی ہے کہ اب نوکری کرنے والے تو ایک طرف خواتین خانہ کے لئے بھی بازار میں خریداری کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے، بلکہ یوں کہا جائے کہ آن لائن خریداری کا ٹرینڈ چل نکلا ہے۔ تو شروع ہو گیا انٹرنیٹ پر کتابیں ڈھونڈنا۔ ایک ویب سائٹس پر کتابوں کی تفصیل ، قیمت، ٹیلی فون نمبر اور منگوانے کا تمام طریقہ اور معلومات درج تھیں۔ جب اتنی ساری کتابیں دیکھیں تو دل چاہتا تھا کہ ساری کی ساری کتابیں ہی منگوا لوں۔ میری نظر جناب مستنصر حسین تارڑ صاھب کی تین کتابوں “الو ہمارے بھائی ہیں“ ، “قلعہ جنگی“ اور “راکھ“ کے سیٹ پر جا کے رُک گئیں۔ خصوصی رعایت کے ساتھ قیمت بھی کم تھی۔ فوری طور پر آرڈر کر دیا۔
نئے سال 2020 کی آمد میں ابھی 5 گھنٹے باقی تھے کہ گھر سےفون آیا کہ شام کے قریب ایک کورئیر والا آپکے نام کا ایک پیکٹ لایا۔ مطلوبہ رقم دینے کے بعد وہ پیکٹ وصول ہو گیا۔ میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ سج گئی کہ بغیر کسی تلاش و محنت کے کتابیں مل گئیں۔ فورا حکم صادر کیا کہ اس پیکٹ کو کھول کر کتابیں الماری میں رکھ دیں تاکہ میں خود سالگرہ والے دن دارین کو تحفہ دوں گا۔ جب پیکٹ کھولا گیا اور بتایا گیا کہ اس ڈبے میں کتابیں تو نہیں بلکہ کتابوں کے اشتہارات اور تہہ کیئے ہوئے دو پرانے اخبار جہاں کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ خبر سن کر میرے دل میں ایسا بھونچال آیا جیسے جاپان پر ایٹم بم گرنے سے آیا تھا۔ فوری طور پر ویب سائٹ پہ دیئے گئے نمبروں پر کئی فون کئے، شکایات پر جا کے شکایت درج کی، کسٹمر کئیر سے رابطے کی کوششیں کیں۔ لیکن ابھی تک جواب ندارد اور لگتا ہے نہ ہی کوئی جواب آئے گا۔
ترقی یافتہ ممالک میں آن لائن خریداری کا رجحان لوگوں کیلئے کئی آسانیاں پیدا کر رہا ہے اور انہوں نے انسانی زیست کو سہل بنایا لیکن پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں منفی سوچ، ذاتی مفادات کی خاطر اشیاء کا غلط استعمال کرنے والے نہ صرف عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں بلکہ ملک و ملت کا بھی نا قابلِ تلافی نقصان کر رہے ہیں۔ ہمارے اس طرح کے رویوں سے وہ وطن جو اسلام کے نام پر بنا ہمیں دوسروں کے لیے مشغلِ راہ ہونا چاہیے۔ ہماری دیانت داری، ایمانداری سے اقوامِ عالم متاثر ہوں۔ لیکن شومئی قسمت وطنِ عزیز میں کئی ویب سائٹس پر لگی اشیاء کی تصاویر اور موصول کی گئی اشیاء میں فرق ہوتا ہے۔ یعنی جو اشیاء دکھائی جا رہی ہیں وہ بھیجی نہیں جا رہیں۔ ظاہر ہے جب کیش آن ڈلیوری لکھا ہوگا تو پارسل پہنچنے پر قیمت ہرصورت ادا کرنی پڑتی ہے۔ خود سے دیکھ بھال کر خریداری کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دیکھ بھال کر ہی چیز لی جاتی ہے۔ چیز کا معیار کیسا ہے؟ بہترین کوالٹی کی چیز بھی بہت دیکھ بھال کر ہر طرح سے تسلی کرلینے کے بعد ہی خریدی جاتی ہے مگر آن لائن خریداری میں یہ سہولت میسر نہیں ہوتی۔ مستنصر حسین تارڑ کی کتاب “الو ہمارے بھائی ہیں“ تو نہیں ملی لیکن انکا لکھا ہوا یہ جملہ ضرور یاد آیا کہ “خواب تو ٹوٹتے رہتے ہیں پر اعتبار ٹوٹے تو پھر مشکل سے بحال ہوتا ہے“۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر