مبشر علی زیدی
واشنگٹن ڈی سی میں خبروں کے عجائب گھر نیوزیئم کا آج آخری دن ہے۔ کل سے یہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔ اتوار کو میں اپنے بچوں کو یہاں لے آیا تاکہ وہ حالیہ تاریخ کی جھلکیاں دکھانے والے عجائب گھر کو تاریخ کا حصہ بن جانے سے پہلے آخری بار دیکھ لیں۔
نیوزیئم کی عمارت چھ منزلہ ہے۔ ہر منزل پر کئی نمائشیں ہیں۔ ایک کمرا دہشت گردی اور ایف بی آئی کے بارے میں ہے، ایک دیوار برلن سے متعلق۔ ایک مقام پر کامکس کا گوشہ ہے، ایک جگہ پر ایڈیٹوریل کارٹونز کا۔ ایک فلور پر دنیا بھر کے اخبارات کے صفحہ اول چسپاں ہیں، ایک پر امریکی صدور کے کتوں کی تصویریں جنھیں فرسٹ ڈاگ کا نام دیا گیا ہے۔
تہہ خانے میں سیٹلائٹ وین کھڑی ہے جبکہ اوپر کی منزلوں پر کئی اسٹوڈیو بنے ہوئے ہیں۔ ورچوئل اسٹوڈیو بھی ہیں کہ آپ مائیک اٹھائیں اور اینکر بن کر موسم کا حال بتائیں یا خبریں پڑھیں۔
ایک دیوار پر ان صحافیوں کی تصویریں اور نام درج ہیں جنھیں فرض ادا کرتے ہوئے قتل کیا گیا۔ وہاں پاکستانی صحافیوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ ان میں ایک نام ہمارے ولی خان بابر کا بھی ہے۔
مبشرعلی زیدی نے یہ تحریر اپنے فیس بُک پیج پر ڈالی تو فیس بُک صارفین نے اس پر تبصرے بھی کئے ۔
جواد شیرازی نامی صارف نےتصاویر شئیر کرنے کے ساتھ ساتھ لکھا:
اوہو،یہ تو بہت برا ہوا
میں دو ہزار چودہ میں وہاں گیا تھا۔نائین الیون کے منہدم شدہ ایک بلاک کے ساتھ کچھ وقت بتایا تھا۔وہاں نیوز کی کوریج کیلئیے استعمال شدہ پہلا ہیلی کاپٹر بھی ہوتا تھا۔
اس کی دیواروں پر آزادئ اظہار بارے کی گئی امریکی آئین میں پہلی ترمیم کندہ تھی۔
افسوس یہ سب اب تاریخ بن جاے گا۔
یہ بھی ٹرمپ دور میں ہی ہوا ہے ورنہ کوئ اور صدر ہوتا تو گرانٹ دے کر اس کو چلتا رکھتا۔صحافت سے منسلک یہ ایک شاندار عمارت تھی۔
محمد شہباز میاں نے لکھا نیوزیم آزادی اظہار رائے کے لئے دی جانے والی قربانیوں اور شعبہ صحافت میں بتدریج ہونے والی ترقی کی داستان بیان کرتا تھا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
سنہ 1925 میں ایک ملتانی عراق جا کر عشرہ محرم کا احوال دیتا ہے||حسنین جمال