ابھی جب کالم لکھنا شروع بھی نہیں کیا تھاکہ ایک دوست نے ایک نجومی کی ایک پیشنگوئی کی ویڈیوبھیجی جس میں وہ ملکی سطح کے معروف نجومی کہہ رہے ہیں کہ اگلا سال موجودہ حکومت پربھاری ہوسکتا ہے اورمارچ کے درمیان سے ہی حکومت مشکلات میں دھنسنا شروع ہوجائے گی اورہوتے ہوتے جون میں تحریک انصاف کی حکومت قائم نہیں رہے گی ۔
معلوم نہیں کہ نجومی ستاروں اورسیاروں کی چالوں کی بنیاد پرکیسے اندازے لگاتے ہیں اوراس کا طریقہ کار کیا ہے ہاں ہ میں اتنا معلوم ہے کہ حکومت کیسے چلتی ہے، اس کے لئے سیاسی جماعتیں عوام سے اپنے پروگرام کی بنیاد پرووٹ مانگتی ہیں اوراس پروگرام میں ان کو خواب دکھاتی ہیں کہ اگروہ جیت جائیں گے تو وہ ملک کو کس نظام اورپالیسی کے تحت چلائیں گے ۔ تحریک انصاف نے بھی لوگوں کے ساتھ بہت بڑے بڑے وعدے کئے اوران وعدوں اوردعووں میں جان ڈالنے کےلئے پچھلی حکومتوں کوخوب لعن طعن کا نشانہ بنایا اورکہا کہ وہ پچھلی حکومتوں میں عوام کی دولت کو لوٹنے والوں سے یہ سب کچھ برآمد کرکے عام آدمی کی زندگی میں بہتری لائیں گے ۔ تحریک انصاف نے گذشتہ دورحکومت میں خیبرپختونخوا کے اندرمنتخب نمائندوں اورسرکاری افسران کو پکڑنے کا سلسلہ شروع کیا لیکن اس سے پہلے کہ کچھ برآمد ہوتا ان دونوں طبقوں نے سامنے راستہ بند پاکر آمادہ بہ جنگ ہونے والی بلی کی طرز پرحکومت پروہ جوابی وار کیاکہ پوری حکومت ہی جوابی واروں کے سامنے ڈھے گئی اوروہ کمیشن جسے بے شماربارقانون بدل بدل کرچلانے کی کوشش کی گئی کو ہی آخرکارختم کرناپڑا ۔ ہ میں وہ وقت بھی یاد ہے کہ ان دونوں طبقوں کے لوگوں نے حکومت کے ساتھ تعاون کوختم کردیا تھا اورسرکاری افسروں نے چھوٹے چھوٹے چیکوں پردستخط کرنا بھی چھوڑدیا تھا اورحکومت کو کام چلانا ممکن نہیں رہا تھا ۔ اس سے پہلے کہ نئے انتخابات سے پہلے حکومت ختم ہوتی احتساب کمیشن اوراسکا قانون ہی ختم ہوگیا ۔
یہی سے لئے جانے والے یوٹرن سے ثابت ہوگیا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار ملنے کے بعد ہی بہت کچھ کی سمجھ آگئی تھی اوراب وہ احتساب کو چھوڑ کرنظام کو چلانے تک محدود رہنے پرمجبورہوگئی ہے ۔ احتساب چھوڑ کرنظام چلانے کے ان عظیم کارناموں میں جوبڑے کارنامے شامل ہیں ان میں پشاور میں میٹرو بس سروس کا وہ منصوبہ بھی شامل ہے جس میں کرپشن ہونے کا اشارہ خود وہی چیئرمین نیب دے چکے ہیں اورواقفان حال کے مطابق اس منصوبے ہی کے ملزموں کو بچانے کے لئے وفاقی حکومت نے وہ آرڈی نینس متعارف کرایا جس کا نام سب لوگوں کی زبان پر ہے کہ حکومت کو اگراتنی ہی جلدی تھی اوراسے اگر اپنے خاص لوگوں کو بچانا تھا تو اس کے لئے وہ کوئی مناسب راستہ بھی استعمال کرسکتے تھے ۔
سب جانتے ہیں کہ نیب کے قانون میں ترمیم سے کس کس کو بچایا گیا ہے اس ترمیم کے تحت سب سے زیادہ فائدہ زیراعلی محمود خان، سینئروزیرعاطف خان اورسابق وزیراعلی پرویز خٹک کو ہوگا ۔ اس ترمیم کے بعد نیب مالم جبہ میں اراضی اورتنگی کروماءٹ کیس کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں کرسکے گی کیونکہ بدانتظامی کے معاملے پرکوئی اقدام کرنا اب نیب کا دائرہ اختیار ہی نہیں رہے گا، اگرایف آئی اے بی آرٹی کے معاملے پرکوئی ایف آئی آرکاٹتی بھی ہے تو پرویز خٹک یا کوئی بھی ملزم آسانی سے بچ سکے گا کیونکہ ایف آئی اے کی ایف آئی آراتنی مضبوط نہیں ہوتی ۔
قانون میں اس ترمیم سے میاں نوازشریف، آصف علی زرداری، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اورانورمجید کو بھی فائدہ ہوسکے گا ۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت نے مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی سے جو ڈیلز کی ہیں ان میں یہ بھی شامل تھا کہ نیب کے قانون سے جان ہی نکال دی جائے اور یہ بھی اس ڈیل کا حصہ ہو کہ پہلے میاں نواز شریف اورآصف علی زرداری کو طبی ضمانتوں کے بعد یہ ترمیم بھی لائی جائے ۔
نئے آرڈی نینس کے نقاد کہتے ہیں کہ یہ آئین کے آرٹیکل پچیس کے ساتھ متصادم ہے جو تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کرتا ہے ، آرڈی نینس تو کجا ان معاملات پرتو پارلیمنٹ بھی کوئی قانون سازی نہیں کرسکتی جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرے لہذا امکان ہے کہ جیسے ہی یہ عدالت میں جائے وہیں سے اسے کالعدم قراردے دیا جائے ۔
اپنی مدت پوری ہونے کے بعد اگراسے منظوری کے لئے پارلیمنٹ لایا جاتا ہے تویہاں سارا کا سارا امتحان اپوزیشن جماعتوں کا ہوگا جو نیب کے قانون کو کالا قانون کہتی رہی ہیں اورنیب گردی نامنظورکے نعرے بھی لگائے ہیں ایسے میں وہ اگراس معاملے پرحکومت کا ساتھ دیتی ہے تو سیاسی نقصان اٹھائیں گی اوراگرنہیں دیتیں توبھی جیل اورسیاسی نقصان انہیں کا مقدرٹھہرے گا ۔
نئے ترمیمی قانون کے تحت پاکستان میں کرپشن کے تینوں ستونوں وزرا، بیوروکریسی اورکاروباری طبقے کو بچاکردراصل نیب کو عملا ختم کردیا گیا ہے جس سے عمران خان کا احتساب کا بیانیہ اپنی موت آپ مرگیا ہے، پوری دنیا کو معلوم ہے کہ وزیر اوربیوروکریسی تاجرطبقے سے تعلق رکھنے والے اپنی فرنٹ مینوں کے ذریعے کرپشن کرتی رہی ہیں ایسے میں اگران فرنٹ مینوں پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہ رہا تو اصل مجرموں کو کیسے پکڑا جائے گا۔
عمران خان کی جانب سے احتساب کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا سارا کا سارا نقصان مڈل کلاس طبقے کا احتساب کے بارے میں توقعات کو ہوگا جو ٹوٹ گئیں توپھران کا ووٹ سے اعتماد اٹھ جائے گا جس کا اثرآئندہ ادوار میں ووٹرٹرن آوٹ پر بھی رہے گا ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ