کل ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک عجیب واردات ہوئی۔ایک شخص شھر کی ایک موبائل شاپ پر آیا اور قیمتی موبائل دکھانے کی فرمائیش کی ۔دکاندار نے کئی سیٹ آگے رکھ دیے اور ان میں سے پانچ خوبصورت سیٹ اس شخص نے پسند کر کے ایک طرف رکھ لیے اور دکاندار سے کہا ان کی قیمت بتاو تاکہ وہ ادائیگی کرے ۔
دکاندار نے حساب لگایا تو ان کی قیمت ایک لاکھ سے کچھ زائد تھی اور اسے کہا کہ رقم ادا کرے اور سیٹ لے جائے اس شخص نے رقم نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا اور جیب سے مرچیں نکال کر دکاندار کی آنکھوں میں ڈال دیں اور موبائل ہاتھ میں لے کر بھاگنے لگا۔
مگر اس کی بدقسمتی تھی کہ جس شخص سے مرچیں خریدی تھیں وہ ملاوٹ شدہ تھیں اور دکاندار پر اس کا خاص اثر نہیں ہوا اور وہ اس کے پیچھے دوڑا اور شور مچایا تو دوسرے دکانداروں کے ساتھ ملکر موبائل چور کو موقع پر بمع مال مسروقہ اور آلہ واردات یعنی مرچیں پکڑ لیا۔ دکانداروں نے پہلے تو اس چور کی خود دھلائی یا آتھر چھنڈ کی پھر کُٹنے کے بعد پولیس کے حوالے کر دیا ۔
اب دیکھا جاے تو اس میں موبائل چور کا کیا قصور ہے اصل میں تو اس کے ساتھ مرچیں بیچنے والے نے دھوکہ کیا کہ اینٹوں کے روڑے کی ملاوٹ سے پسی ہوئی مرچیں اس کو فروخت کر دیں اور ان جعلی مرچوں نے صحیح اثر یا کام نہیں کیا۔یار اگر وہ مرچیں خریدتے وقت دکاندار کو اعتماد میں لے کر ایک نمبر مال خریدتا تو اس طرح وہ معصوم ایک لاکھ روپے کے مال مسروقہ سے محروم نہ ہوتا اب جو پٹائی ہوئی اس کی مرہم پٹی کے پیسے بھی پلے سے خرچ کرنے پڑیں گے ۔
اناڑی کہیں کا۔ اب عوام خود سوچے کہ بازار میں جتنا بھی ملاوٹ کا کاروبار شروع وہ سب معاشرے کی بھلائی اور فلاح کے لیے ہے اس لیے تو حکومت کے ذمہ دار محکمے ان ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے تاکہ معاشرے سے جرائم کی شرح میں کمی ہو۔
مثال کے طور پر یہ موبائل چور چوری شدہ موبائل لے کر فرار ہو جاتا تو لازمی طور پر دکاندار کو کئی روز اپنی دکان بند کر کے پولیس تھانہ چکر لگانا پڑتے بڑی مشکل سے ایف آئی آر کٹتی اور پھر ایک لمبی قانون کی داستان شروع ہوتی جس کے نتیجے میں خود دکاندار کا بہت خرچہ آتا اور وقت ضائع ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں بہت سی چیزیں قدرتی طور پر ہماری بھلائی کے لیے ہو رہی ہیں مگر ہماری بے وقوف عوام کو سمجھ نہیں آتیں۔بجلی اور گیس کی مسلسل لوڈشیڈنگ۔واپڈا کے بھاری جرمانے ۔ تیل ۔گیس۔ بجلی کی قیمتوں میں ہر روز اضافہ۔دفتروں میں رشوت اور کرپشن کا گرم بازار سب عوام کی بھلائی کے لیے ہی تو ہو رہا ہے مگر چونکہ ہماری عوام ناسمجھ ہے اس لیے شور مچاتی ہے حالانکہ ووٹ بھی انہی لوگوں کو دیتی ہے اور دیتی رہے گی جو ان پر یہ مہربانی کرتے ہیں۔
پرانی بات ہے جب میں اسلام آباد کے آئی نائین سیکٹر میں رہتا تھا تو ایک دن گھر سے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چور میری گلی پر کھڑی گاڑی سے ٹیپ ریکارڈر اتار رہا ہے۔ خیر وہ چور ذرہ کمزور چرسی باڈی والا تھا اس لیے میں نے جرات کا عظیم مظاہرہ کر کے پکڑ لیا۔ کچھ لوگ جمع ہو گئے میں ذرہ قانون کی بالادستی پر کچھ ضرورت سے زیادہ ایمان رکھتا تھا میں نے اس کو پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔
چور نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اس کو اپنے دو چار نرم جوتے مار لوں اور پولیس کے حوالے نہ کروں مگر میرے سر پر بھوت سوار تھا میں نے زندگی میں پہلی بار بندے کو red handed پکڑا تھا کچھ excited بھی تھا۔ حالانکہ بچپن میں گاوں میں گھاس چوری کاٹتے کئی شیر جوان دیکھ چکا تھا۔
چور نے مجھے آخری بار کہا بھائی صاحب آپ کا تھانے جانے سے وقت کا ضیاع ہو گا میری مانو تو مجھے چھوڑ دو اس میں آپ کا فائدہ ہے۔خیر میں نے ایک نہ سنی اور اسے پولیس والے کے حوالے کر دیا۔ وہ تھانے میں بٹھا دیا گیا اور شاید میرے جانے کے بعد کچھ دے دلا کے چلا گیا۔
اب پولیس والا میرے گھر آیا کہ جناب آپ ایک دستہ کاغذ اور ٹیپ ریکارڈر تھانے لے آئیں تاکہ مال مسروقہ اور رپورٹ لکھی جا سکے اور پھر آپ کو عدالت میں جا کر ثابت بھی کرنا ہے کہ یہ چور آپ کا ٹیپ ریکارڈر اتار رہا تھا اور اس کیس کا فیصلہ دو تین سال تک ہو گا تو جب تک عدالت آپ کا ٹیپ ریکارڈر واگزار نہیں کرے گی اس وقت تک مال خانے کی تحویل میں رہے گا۔
میں نے پولیس والے کو کڑک چائے بمع بسکٹ پلائی اور عرض کیا بندہ اس رپورٹ سے دست بردار ہوتا ہے پولیس والا پڑھا لکھا تھا اس نے کہا چلو ٹھیک ہے ورنہ وہ راضی نامے کی رقم بھی مجھ سے لے سکتا تھا۔
کچھ روز بعد میں گھر کے باہر لان میں کرسی پر بیٹھا سردیوں کی دھوپ میں اخبار پڑھ رہا تھا تو وہی چور صاحب وہاں سے گزرے مجھے دیکھ کر سیدھا میرے پاس آ گئے ہاتھ ملایا اور کہنے لگا سر آپ نے مجھے پہچانا ؟ میں نے غور سے دیکھا تو یاد آ گیا میں نے کہا تم وہی نہیں ہو جس نے میرا ٹیپ ریکارڈر چوری کیا تھا؟
کہنے لگا بالکل میں وہی بندہ ہوں آپ کو دیکھا تو سوچا آپ کو کوئی کام کی بات بتاتا چلوں مجھے آپ سے پیار ہے۔ مجھے غصہ تو آیا پھر ضبط کر گیا ۔اس نے کہا میں نے اس دن آپ سے کہا تھا مجھے چار کَھلے مار دو مگر پولیس کے حوالے نہ کرو مگر لگتا تھا آپ تازہ سعودی عرب کا دورہ کر کے لوٹے تھے آپ کا خیال تھا آپ کو تین دن میں انصاف مل جاے گا اور چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے۔
جناب عالی یہ ہمارے ملک کا قانون ہے جہاں سالوں خوار ہونا پڑتا ہے آپ صحافی ہیں یا تو ملک کا قانون تبدیل کروائیں یا پھر اسی طرح چلتا رہے گا۔ آپ سے میری گزارش ہے کہ اپنی صحافت کا استعمال کر کے تیز تر انصاف کا نظام لے آئیں ۔
یہ کہ کر وہ چلتا بنا۔آج مجھے آنکھوں میں مرچیں ڈالنے کا کیس دیکھ کر یاد آیا یہ ملاوٹ کرنے والے ہمارے بھائی کتنے ہمدرد اور دوست ہیں کہ دکاندار کو موبائل واپس مل گئے اب آگے موبائل دکاندار خود سمجھدار ہے اس نے کیا کرنا ہے مجھے مزید پتہ نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ