ڈان میڈیا گروپ نے جامی رضا کے الزامات پر خاموشی توڑ دی اور جامی کے الفاظ کا بلیک آؤٹ ختم کردیا- اگرچہ ڈان میڈیا گروپ کے سی ای او اپنے اوپر جامی سے جنسی زیادتی کرنے کے الزام کو جھوٹا قرار دیا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ ریاست اور سماج کے ‘طاقتور’ گروپوں کو اپنے ‘جابرانہ بیانیہ’ کی حمایت میں ڈان اخبار کو مجبور کرنے کے لیے جھوٹے اور مذموم الزامات لگوائے جارہے ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کے سی ای او نے نہ تو یہ بتایا ہے کہ سماج اور ریاست کے وہ ‘طاقتور گروپ’ کونسے ہیں؟ اور نہ ہی یہ بتایا کہ ‘ جابرانہ بیانیہ’ کون سا ہے؟
پاکستان میں ڈان میڈیا گروپ حالیہ سالوں میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں فوجی قیادت کی طرف سے غم و غصّے کا نشانہ بنا تھا جب اس کے اسٹاف رپورٹر اور کالم نگار سیرل المیڈا نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی زیر قیادت قومی سلامتی کونسل کے بند کمرے میں اجلاس کی مبینہ روداد شایع کی تھی جس کے مطابق نواز حکومت نے جی ایچ کیو کی قیادت پر یہ واضح کیا تھا کہ اگر جہادی پراکسی ترک نہ کی گئی تو پاکستان پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد ہوجائیں گی اور پاکستانی معشیت ترقی نہیں کرسکے گی- اس خبر کے شایع ہونے کے بعد فوج کے ترجمان ادارے نے اس خبر کو بوگس اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے حکومت سے اس خبر پر انکوائری کمیشن بنانے کو کہا تھا- وزرات داخلہ نے یہ انکوائری کی تھی جس کی انکوائری رپورٹ تو سامنے نہیں آئی لیکن اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات، مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور اور ایک وزرات اطلاعات سے جڑے بیوروکریٹ کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ بعد ازاں سیرل المیڈا بھی ڈان میڈیا گروپ سے الگ ہوگئے تھے۔ کہا گیا تھا کہ ڈان انتظامیہ نے سیرل المیڈا کو فوجی قیادت کے دباؤ پر ہٹایا گیا تھا۔
ڈان میڈیا گروپ گزشتہ دوعشروں سے مسلم لیگ نواز کی حمایت ، نواز شریف کی اینٹی اسٹبلشمنٹ پروجیکشن کی جانبدار پالیسی کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور ڈان میڈیا گروپ کے سی ای او سمیت ڈان کی موجودہ منیجمنٹ پر یہ الزام تھا کہ وہ پانچ سالہ نواز لیگ کے دور میں ان میڈیا گروپوں میں شامل رہے جن کو وفاقی اور پنجاب، بلوچستان کے ریاستی اداروں کی طرف سے اربوں روپے کے اشتہارات دیے جاتے رہے اور ساتھ ساتھ یہ الزام بھی لگا کہ خود نواز شریف اور ان کے حامی سرمایہ داروں نے اس میڈیا گروپ کو اربوں روپے اشتہارات کے نام پر الگ سے فراہم کیے۔ جبکہ ڈان میڈیا گروپ سمیت پاکستانی میڈیا گروپوں کا ایک طاقتور سیکشن کو یہ سرمایہ نواز لیگ کی امیج بلڈنگ اور ان کے مبینہ دشمنوں اور مخالفین کی کردار کشی کی مہم چلانے کے مد میں فراہم کیا جارہا تھا۔
جبکہ ایسے ہی سرمایہ کی فراہمی یہاں تک کہ نئے ٹی وی چینلز سامنے لانے کے لیے درکار سرمایہ کی فراہمی کے الزامات پاکستان کی بے وردی نوکر شاہی /غیر منتخب عسکری ہئیت مقتدرہ پر بھی عائد کیے گئے۔ جوابی الزامات کی اس مہم میں تیزی بول میڈیا گروپ کے شروع ہونے کے وقت سامنے آئی تھی- ڈان میڈیا گروپ، جیو-جنگ میڈیا گروپ سمیت پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کا ایک سیکشن پاکستان تحریک انصاف، فوجی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے حامی سمجھے جانے والے میڈیا گروپوں کے خلاف اسٹبلشمنٹ کے حامی ہونے کے الزامات تواتر سے عائد کرتا رہا اور یہ سلسلہ ابتک جاری ہے۔
مالکان پاکستانی میڈیا گروپوں کی ایک سادہ سی تقسیم اینٹی اسٹبلشمنٹ بمقابلہ پرو اسٹبلشمنٹ کے پیچھے مفادات کی کارفرمائی سے انکار ناممکن ہے۔ کیونکہ جتنی محبت اینٹی اسٹبلشمنٹ میڈیا سیکشن بشمول ڈان میڈیا گروپ نواز-شبہاز-مریم کے لیے دکھاتا رہا اس کی ایک فیصد محبت اس نے کبھی پیپلزپارٹی کے لیے نہیں دکھائی- بلکہ نیب اور ایف آئی اے کی پی پی پی کے خلاف کاروائیوں اور کیسز کو درست قرار دینا بھی ڈان میڈیا گروپ کا خاصا رہا ہے۔
حمید ہارون سی ای او ڈان میڈیا گروپ نے جامی رضا کے ابتدائی ٹوئٹس میں نام نہ دینے کے عمل کو عجیب کہا لیکن وہ اپنے سارے بیان میں کسی ایک ریاستی ادارے یا سماج کے طاقتور گروپ یا فرد کی نشاندہی کرنے سے خود بھی قاصر رہے جو ان کے بقول ان کی شہرت برباد کرنا اور ان کے اخبار کی اپنے جابرانہ بیانیہ کی حمایت جبرا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا کہ جس طرح سے وہ اپنے اوپر ریپ کے الزام کو غلط قرار دے رہے ہیں ویسے ہی وہ جامی رضا کے اپنی ذاتی حثیت میں دیے گئے بیان کو بنا کسی ثبوت اور شواہد کے ریاست اور سماج کے طاقتور گروپوں کا سوچا سمجھا منصوبہ قرار دے رہے ہیں – کیا یہ تضاد بیانی نہیں ہے؟
ڈان میڈیا گروپ اپنے کئی بیورو آفسز اور ماہانہ ہیرالڈ جریدہ بند کرچکا اور اپنے درجنوں ملازمین کی جبری برطفیاں کرچکا ہے۔ یہی پریکٹس دیگر میڈیا گروپوں نے بھی کی ہے- اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پریکٹس میڈیا مالکان نے اپنی نام نہاد نظریاتی تقسیم سے ہٹ کی ہے اور ان مالکان کی طفیلی ان کے اداروں کی پاکٹ یونینز اور ان کے عہدے دار اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں- ورکرز دشمنی میں اینٹی اسٹبلشمنٹ اور پر اسٹبلشمنٹ مالکان اور ان کے نور نظر ایک ہیں۔ تنخواہوں سے محروم، واجبات سے محروم اور جبری برطرف ہونے والے صحافتی کارکنوں کے خلاف جو جابرانہ بیانیہ سی ای او حمید ہارون سمیت دیگر مالکان میڈیا گروپ نے نافذ کررکھا ہے اس پر کوئی آواز اٹھائی نہيں جاسکتی۔ بلکہ خود کو اینٹی اسٹبلشمنٹ کہنے والے میڈیا مالکان زیادہ بدمعاش ہوگئے ہیں کیونکہ ان کی بدمعاشی اور صحافتی کارکنان کے ساتھ ان کے ظلم کی کہانی جو بیان کرتا ہے یہ اس پر فوری ‘ جابرانہ بیانیہ’ نافذ کرنے والے مبنیہ طاقتور اداروں اور گروپوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کرڈالتے ہیں۔
جامی رض کے خلاف سی ای او حمید ہارون انہی ہتھاروں سے حملہ آور ہوئے ہیں جن سے یہ صحافتی کارکنوں کے خلاف حملہ آور ہوتے آرہے ہیں – ان کے قبضے میں انگریزی اور اردو پریس کا ایک سیکشن ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی ایک بڑے عالمی کمرشل لبرل مافیا کے ساتھ ان کے سمبندھ ہیں- اپنے بیان میں انھوں نے جامی رضا کے حوالے سے اپنے اوپر ہونے والی تنقید دائیں بازو کے ایک جنونی گروہ کی بلوائی مہم کے برابر قرار دے ڈالا ہے ۔ یہی بات ان جیسے بہروپ میں موجود ‘نیا دور’ نے اپنی انگریزی پوسٹ میں لکھی ہے۔ اور یہی آنے والے دنوں میں کمرشل لبرل مافیا کے بڑے بڑے بازیگروں کی قوالی بننے والی ہے۔
حمید ہارون کا مکمل بیان کا اردو ترجمہ
تین ماہ سے لے کر اب تک سوشل میڈیا میں ٹوئٹس کے زریعے اور کچھ پرنٹ میڈیا میں ، جن میں سے کچھ جامی رضا نے لکھے اور کچھ جامی رضا کے اکسانے پر سامنے آئے، الزام لگایا گیا کہ جامی کو کئی سال پہلے ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا لیکن وہ صرف اب اس لیے سامنے آیا ہے کیونکہ ریپ کرنے والا ایک بااثر اور طاقتور میڈیا شخصیت تھی۔ اب تک عجیب طریقے سے مبینہ ریپ کرنے والے کا نام متعین نہیں کیا گیا تھا، اگرچہ کچھ اشارے اور کنائے فوقتا فوقتا ایسے دیے گئے جن سے ایسا لگتا تھا کہ یہ ڈان میڈیا گروپ کا سی ای او حمید ہارون ہوسکتا ہے۔” لیکن ٹوئٹس میں چونکہ میرا نام واضح طور پر نہیں لیا گیا تھا تو مجھے مشورہ دیا گیا کہ میں کچھ بھی کہنے یا کرنے سے رکا رہوں تاوقتیکہ میرا نام صاف نہ لے دیا جائے حالانکہ میں اچھے سے جانتا تھا کہ کون ان چیزوں پر اکسارہا ہے۔ 28 دسمبر کی تاریخ کو جامی رضا نے خاص طور پر میرا نام لیا تو اب مجھ پر اس کا جواب دینا ضروری ہوگیا ہے۔
” سب سے پہلے، میں ریپ کے متاثرہ، جنسی حملے یا ہراسانی کے متاثرہ افراد کی مدد اور حمایت کو آنے کے اپنے عہد کو دوبارہ دوہراتا ہوں۔ میں ایسے گھناؤنے اقدامات جب کبھی ہوں، جہاں کہیں ہوں اور جس بھی شکل و صورت میں ہوں، چاہے وہ کام کی جگہ پر ہوں یا باہر ہوں کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ تمام ریپ ، جنسی حملے اور ہراسانی کے متاثرین کا بلاامتیاز ہمدردی اور حمایت کا مظاہرہ کیا ہے چاہے ایسے افعال کا مرتکب طاقتور ہوتا ہے یا نہیں۔”
” اس کے ساتھ ہی، میں غلط اور کینہ پور الزامات کے بارے میں چوکنا رہتا ہوں جو بعض اوقات طاقتور گروپوں کی جانب سے اپنے سماجی اور سیاسی ایجنڈوں کے تحت عائد کیے جاتے ہیں اور ان کا مقصد بہت ہی متعین شدہ ہوتا ہے یعنی ایک شخص کی شہرت اور وقار کو داغ لگایا جائے اور اس طرح سے اجتماعی مقاصد کے لیے کسی کی ساکھ کو برباد کردیا جائے۔”
” میں اپنے خلاف جامی رضا کے ریپ کے الزام کو قطعی پر مسترد کرتا اور اس سے انکار کرتا ہوں۔ کہانی سادہ طور پر بالکل جھوٹی اور جان بوجھ کر ان لوگوں کے اشارے پر گھڑی گئی ہے جو مجھے خاموش کرنا چاہتے ہیں اور میرے زریعے، وہ اخبار جس کی میں نمائندگی کرتا ہوں اپنے جابرانہ بیانیوں کی حمایت کے لیے مجبور کرنا چاہتے ہیں۔”
” میں جامی رضا کو پہلی بار 1990ء کی دہائی میں یا 2000ء میں تب ملا جب وہ ایک فری لانس فوٹوگرافر اور پرعزم فلم میکر تھا- یہ وہ وقت تھا جب جامی نے سر جہانگیر کوٹھاری بینڈ سٹینڈ کے فوٹو گراف بنائے تھے جن کا مقصد آرکیٹیکٹچرل ڈاکومینٹشن اور کنزوریشن تھا۔ جامی کے کام سے متاٹر ہوکر میں نے اسے 2003-04 مہتہ پیلس میوزیم میں صادقین اگزیبشن کے کیٹلاگ میں ایک فوٹو مضمون کے لیے ان لسٹ کرلیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کسی وقت میں اس کے والد کی وفات پر تعزیت کرنے اس کے گھر گیا تھا جہاں اس سے مگر میں ذاتی طور پر نہیں مل پایا تھا۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں جامی رضا سے کبھی تنہا ملا ہوں۔ میرا حامی سے بس اتنا ہی ملنا ملانا تھا۔”
” میں پوری طرح سے قائل ہوں کہ غلط اور کینہ پرور الزامات ریاست اور سماج کے طاقتور مفادات رکھنے والوں کے اکسانے پر لگائے گئے ہیں۔ اس کے اپنے محرکات ہیں اور ان کے اپنے جابرانہ بیانیہ کو ترقی دینے کے لیے ، میری ساکھ کو تباہ کرنے کے لے اور اس کے نتیجے میں اس اخباری گروپ کی ساکھ تباہ کرنے کے لیے ہیں جس کے ساتھ میں منسلک ہوں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ یہ ٹوئٹ ایسے وقت پر سامنے آئیں جب گروپس جو ڈان کے خلاف منظم کیے جارہے ہیں اور پراسرار طور پر وال چاکنگ سامنے آرہی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ڈان کے سی ای او کے ساتھ ساتھ اس کے ادراتی سٹاف کو بھی پھانسی دی جائے۔”
” ان غلط اور کینہ پرور الزامات کے پیچھے جو ہیں میں ان کو بے نقاب کرنے کے لیے پرعزم ہوں اور اپنے آپ کو کسی خوف یا ناجائز حمایت کے بغیر درست رپورٹنگ کے بینر تلے کھڑا رکھوں گا۔ جہاں تک ٹوئٹس اور کچھ اخبارات کا تعلق ہے، تو میں قانونی ایکشن اپنا نام اور شہرت بحال کرانے کے لیے شروع کررہا ہوں تاکہ جو بھی میرے خلاف ان غلط اور مذموم الزامات کے لیے ذمہ دار ہیں ان کو انصاف کے کہٹرے میں کھڑا کرسکوں تاکہ صحافت کی آزادی کا تحفظ ہوسکے۔”
ایڈیٹر کا نوٹ : ڈان میڈیا گروپ اپنے قاری کو یقین دلاتا ہے کہ ایک غیر جانبدار انکوائری کی جائے گی-
#HameedHaroon
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر