جی ہاں۔۔ ملئے مجھ سے، جدی پشتی صحافی کہلاتے تھے آج ہمیں مافیا کہا جاتا ہے۔۔ میرے تایامرحوم منصب حسین خان، میرے والد مرحوم انوار فیروز، چچا مرحوم اکبر یوسف زئی اس پیغمبرانہ پیشے سے منسلک رہے۔۔
اب دوسری نسل میں میرے کزن محسن رضا خان، ندیم رضا خان، عمران منصب، حسن رضا، عدنان شوکت اور اویس یوسف زئی کے علاوہ میرے بڑے بھائی وقار عمران، افتخار احمد خان اور میں خود صحافت سے وابستہ ہیں۔۔ اور کل تک اپنے آپ کو صحافی کہا کرتے تھے۔
ہمیں خود کل پتا چلاکہ ہم صحافی نہیں بلکہ مافیا بن چکے ہیں۔۔ جب سے وزیر اعظم کا خطاب پڑھا ہے اپنے آپ کو طاقتور سا سمجھنا شروع کر دیا۔۔ مافیا لفظ میں طاقت ہی بڑی ہے۔۔۔ دیکھئے ناں، ہم کتنے بے وقوف تھے جو صحافی بن کے اپنے خلاف ہونے والی ناانصافیوں پہ آواز بھی نہیں اٹھا پاتے تھے۔
آج جب سے معلوم ہوا ہے کہ ہم مافیا ہیں سوچتے ہیں ان مالکان کو کیفر کردار تک پہنچائیں جو ہمیں دس دس ماہ تک تنخواہ نہیں دیتے۔۔ جو خود تو سال میں تین مرتبہ امریکہ، یورپ اور عرب امارات جاتے ہیں مگر ہمیں دینے کے لیے ان کے پاس تنخواہ نہیں ہوتی۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے بچے آکسفورڈ، کیمبرج میں پڑھتے ہیں لیکن ہماری حالت ایسی کر دیتے ہیں کہ ہم اپنے بچے سرکاری سکولوں میں بھی نہیں پڑھا پاتے۔۔ یہ خود سینکڑوں ایکڑ پہ محیط چھوٹے سے فارم ہاﺅس میں رہتے ہیں مگر ہمیں اتنا محتاج کر دیتے ہیں کہ ہم دو کمرے کے محل کا کرایہ نہیں ادا کر پاتے۔
محترم جناب وزیر اعظم صاحب، کیا کبھی آپ نے اس دکھ اور کرب کا سامنا کیا ہے جب آپ کا بچہ آپ کو روتے ہوئے بتائے کہ اس کے سکول میں اسے اسمبلی میں سب کے سامنے کہا گیا کہ تمہاری چار ماہ کی فیس کیوں نہیں آئی؟۔ کیا اس باپ کا کرب آپ سمجھ سکتے ہیں جس کے بچے کو سکول میں اس جرم کی سزا ملی ہو جو اس نے کیا نہیں تھا؟۔۔
کیا آپ کو معلوم ہے اس مافیا صحافی کی کیا حالت ہوتی ہے جس کا سامان مالک مکان اٹھا کے گھر سے باہر پھینک دیتا ہے کیونکہ اسے آٹھ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور وہ پانچ ماہ سے کرایہ نہیں دے پایا؟۔
کسی صحافی کی لاش کو ہسپتال والے اس لیے گھر والوں کے حوالہ نہیں کرتے کہ ہسپتال کے واجبات ادا نہیں کیے جاتے کیا آپ اس صحافی کے گھر والوں یا اس کے ان دوستوں کے کرب کا اندازہ کر سکتے ہیں جو رات کو لاش حاصل کرنے کے لیے چندہ جمع کرتے ہیں؟۔۔
احساس پروگرام شروع کرنے والے وزیر اعظم صاحب کیا آپ کو احساس ہے کہ ایک میڈیا ورکر کی بہن کی شادی تھی وہ ایک بڑے میڈیا ہاﺅس کے مالک کے پاس اپنی چار ماہ کی تنخواہ مانگنے گیا، اس نے اس مجبور ورکر کو مشورہ دیا کہ بہن کی شادی کرنے کے بجائے اسے کوٹھے پہ بٹھا دے، اس مظلوم مافیا نے اسی دفتر کے پنکھے سے جھول کر اپنے آپ کو تمام فکروں سے آزاد کر لیا۔
وزیر اعظم صاحب۔۔ آپ کو میڈیا مافیا جیسا محسوس ہوتا ہے کیونکہ اب آپ کی حمایت میں ہمہ وقت بولنے والے بھی آہستہ آہستہ آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کی جسارت کرنے لگے ہیں۔ یہ آپ کی حمایت میں ٹیلی تھان ٹرانسمیشن کرتے تھے آج سوال پوچھنے لگے ہیں، ان کمی کمینوں کی یہ جرات؟۔۔
آپ کے مینار پاکستان کے جلسہ سے جو بغیر وقفہ کے جلسہ دکھانے کا سلسلہ شروع ہواوہ جاری رہا، سیاسی ترانے بھی وقفہ کے بغیر دکھائے۔۔ دھرنے میں آپ کے خطاب کے دوران خالی کرسیاں تک نہیں دکھائی جاتی تھیں، وہاں کچھ غلط بھی ہوتا تھا تو رپورٹ نہیں کیا جاتا تھا۔
اب یہ لوگ آپ کو آپ کی ماضی میں کی گئی تقریریں یاد کراتے ہیں، گھٹیا لوگ، ان کی یہ مجال۔۔
مافیا ہی تو تھے جنہوں نے آپ کے الزامات پہ تمام مخالفین کو چور، ڈاکو، سسلین مافیا، گاڈ فادر بنا کے رکھ دیا تھا۔۔ آپ کی تقریریں یکطرفہ چلتی تھیں، دو دو گھنٹے کا خطاب، اس میں شیخ رشید کا تڑکا بھی ہوتا تھا۔
سب کہنا شروع ہو گئے کہ واقعی یہ ٹھیک کہتا ہے مہنگائی ہوتی ہے تو حکمران چور ہوتا ہے، بجلی گیس بل بڑھتے ہیں تو حکمران چور ہوتا ہے، ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو حکمران چور ہوتا ہے، پٹرول کی قیمتیں چڑھیں تو حکمران چور ہوتا ہے۔۔ آج یہ سب ہو رہا ہے تو میڈیا کیسے جرات کرتا ہے کہ پرانی تقریریں دکھائے۔
آپ کہتے تھے حکمران پروٹوکول لیتے ہیں ان کے ساتھ پچاس پچاس گاڑیاں ہوتی ہیں۔۔ آج آپ جب خود وزیر اعظم بنے تو آپ کو معلوم ہوا کہ یہ سیکورٹی ہوتی ہے پروٹوکول نہیں تو کیسے یہ مافیا آپ سے سوال کرے کہ آپ کے ساتھ پچاس کے بجائے ساٹھ ساٹھ گاڑیاں کیوں ہوتی ہیں؟۔۔
آج ان بدمعاشوں کی یہ ہمت کہ یہ آپ سے پوچھیں کہ آپ کے دائیں بائیں کھڑے زلفی بخاری، عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کے بعد آپ کی اپنی ہمشیرہ کی منی لانڈرنگ ثابت ہو چکی ہے تو آپ کس منہ سے اپنے آپ کو صادق اور امین کہتے ہیں۔۔
بالکل نہیں پوچھ سکتے۔۔ یقین مانیں جو بھی یہ سوال پوچھیں چاہے وہ کئی سال تک نواز شریف کو چور ڈاکو ثابت کرتے رہے، چاہے وہ آپ کے الزامات کی تصدیق کے بغیر آپ کے مخالفین کو مافیا بتاتے رہے وہ سب مافیا ہی تو ہیں۔۔
ان کو کسی بھی طور آپ سے سوال پوچھنے کی ہمت نہیں ہونی چاہیئے، جو بھی آپ سے سوال کرے وہ مافیا اور غنڈہ ہو گا، یہ لازماً نواز شریف کے لفافہ خور صحافی ہیں۔۔ کیا ہوا جو ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں، کیا ہوا جو ان کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی؟۔۔ کیا ہوا اگر ان کے بچے سکولوں سے نکال دیئے گئے، ان کو گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ ہیں تو یہ سب مافیا۔۔
ان کے ساتھ ہونا ہی یہی چاہئے تھا۔۔ آپ فکر نہ کریں۔۔ آپ کی پالیسیاں جاری رہیں تو کچھ ہی عرصہ میں چینلز اور اخبارات بند ہی ہو جائیں گے، سونی ہو جائیں گی گلیاں تو پھر اس میں اکیلے گھومیے گا کوئی سوال کرنے والا نہیں ہو گا
بشکریہ :شہریار یاں ڈاٹ کام
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر