نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آخری سانس تک سرائیکی صوبے کا مقدمہ لڑنے والے حمید اصغر شاہین کی برسی

ہیں۔ وہ معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف عملی طور پر برسر پیکار رہے سرائیکی قومی تحریک کی تاریخ ان کے زکر کے بغیر ادھوری رہے گی

شکیل نتکانی


وقت کا دریا بہتا چلا جاتا ہے لوگ ہماری زندگی میں شامل ہوتے ہیں اور حالات و واقعات انہیں ہم سے دور کر دیتے ہیں۔ روز کے ملنے والے سالوں مہینوں بعد ملتے ہیں تو کچھ لوگوں کا تو پتہ نہیں چلتا کہ وہ اتنے عرصے بعد ملے ہیں تو کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں مل کر اجنبی پن کا احساس ہوتا ہے بچپن لڑکپن کے دوست، ساتھی، کلاس فیلوز، محلے دار جانے کتنے ان گنت لوگ ہوتے ہیں جو کسی ایک مخصوص عرصے کے دروان ہماری کل کائنات ہوتے ہیں ان کے آس پاس سے روز و شب شروع اور ختم ہوتے ہیں پھر سب اپنی اپنی زمہ داریوں جو زندگی ان کے کندھوں پر لاد دیتی ہے کو نبھانے میں ایسے مگن ہو جاتے ہیں کہ آہستہ آہستہ ان کے ساتھ تعلقات منقطع ہوتے چلے جاتے ہیں ایک وقت آتا ہے کہ ان میں سے کچھ کو دماغ پر زور دیکر یاد کرنا پڑتا ہے تو یاد آ جاتے ہیں اور بہت سے کسی کے یاد کرانے سے بھی یاد نہیں آتے۔ ایسے لوگوں سے کبھی ایک شہر سے دوسرے شہر چلے جانے سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے تو کبھی ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے مصروفیات کے باعث ملنے جلنے کے مواقع محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ مر جاتے ہیں انہیں ہم بہت جلدی فراموش کر دیتے ہیں حمید اصغر شاہین کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے آج ایک سال ہو گیا ہے۔ پورے ایک سال میں کتنی بار شاہین صاحب کو یاد کیا ہو گا شاید ایک بار بھی نہیں فیس بک کی مہربانی سے پتہ چل گیا کہ کل ان کی برسی تھی ورنہ یہ بھی پتہ نہ چلتا یہ وہ شاہین صاحب ہیں کہ جن کے ساتھ نجانے کتنے ماہ و سال کا تعلق تھا۔ یہی زندگی ہے اور اسے زمانے کی بے ثباتی کہتے ہیں۔ شاہین صاحب مجسم جدوجہد کا استعارہ ہیں۔ وہ معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف عملی طور پر برسر پیکار رہے سرائیکی قومی تحریک کی تاریخ ان کے زکر کے بغیر ادھوری رہے گی۔ سماجی نفسیات، زمینی زمانی مسائل اور ان کا تاریخی پس منظر پھر ان سے جڑی ظلم اور استحصال کی داستانیں، قوموں کے عروج و زوال کے اسباب اور پھر اس حوالے سے مظلوم طبقوں اور قومیتوں کی جدوجہد ان سب چیزوں پر شاہین صاحب کی گہری نظر تھی وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنی قوم کا مقدمہ لڑتے رہے۔

About The Author