برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان کی صورت میں آزاد وطن کا تحفہ دینے والے بابائے قوم محمد علی جناح کا آج یوم پیدائش بڑی دھوم دھام سے منایا جائے گا۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش کے سلسلے میں ملک کے مختلف مقامات پر تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا، قائد اعظم محمد علی جنا ح کے سالگرہ کے سلسلہ میں کیک کاٹے جائیں گے اور بابائے قوم کو ان کی گرانقدر خدمات پر خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔ لیکن صرف اپنے عظیم رہنما کا، شایان ِشان طریقے سے یوم پیدائش منانا کافی نہیں اصل میں اپنے ’’قومی ہیرو‘‘ کے نظریات، خیالات، فرمودات اور خواہشات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینے ہی میں اس قوم کی کامیابی، ترقی اور بھلائی پوشیدہ ہے۔
آج ہم جس پاکستان میں سانس لے رہے ہیں اور اپنی زندگیاں جس بے عملی، بے ایمانی، لاقانونیت، نا انصافی، منافقت، ظلم و جبر، بدعنوانی کے علاوہ دہشت گردی کے سائے تلے گزار نے پر مجبور ہیں یہ پاکستانی قوم اور ریاست کی فتح نہیں۔ افسوس! وجہ کوئی بھی ہو آج ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں یہ بات قطعی یاد نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں نے سامراجی قوتوں اور کفریہ سازشوں سے برسوں بر سر پیکار رہنے کے بعد زمین کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا جس کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے کتنی جدوجہد، کتنی جانفشانی، کتنی لازوال قربانیوں کے علاوہ 20 لاکھ انسانی جانوں کا نذرانہ دے کر حاصل کیا تھا۔ قائداعظم نے اپنی تمام عمر ہندوستان کے مسلمانوں کو آزادی دلانے میں صرف کردی، یہاں تک کہ اپنی صحت کی بھی پروا نہیں کی۔ یہ ان ہی کی کوششوں اور برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں کا صلہ ہے کہ آج ہم ایک آزاد اور خود مختار ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کہلانے کے قابل ہو سکے ہیں۔ مگر صرف زبانی طور پر یہ دعویٰ کرنا کافی نہیں بلکہ دنیا کے سامنے عملی طور پر ہمیں اسے ایک آزاد اور خود مختار پاکستان کا درجہ دلوانے کی اشد ضرورت ہے۔ جبھی ہم کہہ سکیں گے کہ یہ قائد کا پاکستان ہے۔
تحریک آزادی کے دوران برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کو اتنا مضبوط اور طاقتور بنا دیا کہ وہ انگریز اور ہندو بنیا کی منفی سوچ سے ٹکڑا گئے اور دنیا کے نقشے پر عظیم قائد نے ایک آزاد مملکت خداداد ابھارنے میں بھرپور کردارادا کیا اور قیام پاکستان کی راہ ہموار ہوئی اور عملی طور پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کا قیام عصر حاضر کی تاریخ کا عظیم و شان و اقدار اور معجزہ خداوندی تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ایک عہد آفرین شخصیت، عظیم قانون دان، بااصول سیاستدان اور بلند پایہ مدبر تھے، ان میں غیر معمولی قوت عمل اور غیر متزلزل عزم ، ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و استقلال تھا۔ انہوں نے اپنی اٹل قوت ارادی، دانشورانہ صلاحیتوں، گہرے مدبرانہ فہم و ادراک اور انتہائی مضبوط فولادی اعصاب اور انتھک محنت سے مسلمانان پاک و ہند کے گلے سے صدیوں کی غلاموں کا طوق ہمیشہ کے لئے اتارا اور مسلمانوں کو حصول پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کر کے انہیں آزادی کی جدوجہد میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کی راہ پر راغب کیا۔
ان کے افکار جو آج بھی ہر پاکستانی کیلئے مشعل راہ ہیں۔ بابائے قوم پر اتنی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور آج کے دن بھی لکھاریوں نے بہت کچھ لکھا ہے مگر عقیدت سے سوچنے و الوں کیلئے کچھ گوشے باربار نئی نسلوں پر اجاگر کرنے کیلئے اب بھی موجود ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح جیسا پاکستان چاہتے تھے، ویسا تو شاید ہم نہیں بنا سکے مگر ان کمزوریوں کا ادراک ضرور کر سکتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ملک آج اس نہج پر پہنچ چکا ہے۔ آج ہماری نوجوان نسل قائد اعظم اور پاکستان کے بارے میں بس چوداں نکات تک محدود ہے۔نوجوان نسل ہی نہیں بلکہ ہم سب قائد اعظم کے نظریے اور تصورات سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ کاش ہم اپنے عظیم قائد کے فرمودات کو فراموش نہ کرتے۔ آج ترقی یافتہ اقوام میں سرفہرست ہوتے قائد کی وفات کے بعد ہم ذاتی و گروہی مفادات کی بھینٹ چڑھ گئے اور قیام پاکستان کے اصل مقاصد سے دور ہوتے چلے گئے۔
بہرکیف قوموں کو ہمیشہ عظیم ہیرو درکار ہوتے ہیں اور قائداعظم بلاشبہ پاکستان کے ایک ایسے ہیرو ہیں جن پر ساری قوم فخر کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان کہا جا سکتا ہے؟ کیا قائداعظم کی شخصیت اور کردار موجودہ پاکستان کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں؟ قطعاَ نہیں ! یہ یقیناًہم سب کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس لیے ہمیں یوم قائد اعظم پر اس بات کا عزم کرنا ہوگا کہ اس ملک کو ہم نے قائد اعظمؒ کے اصولوں کے عین مطابق چلانا ہے اور کوشش کرتے رہنا ہے کہ اس ملک سے گروہی، لسانی، مسلکی ، دہشت گردی جیسے مسائل کو اتحاد، امن، یقین، یکجہتی اور روداری کے زریعے ختم کرنا ہے۔ قائداعظم کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہو کر وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا جائے، تاکہ ہم معاشی، قومی اور جذباتی طور پر مضبوط ہو سکیں۔ وہ مقام حاصل کر سکیں جس کی تکمیل کے لیئے ہمارے قائد نے جدوجہد کی تھی اور حقیقی معنوں میں “قائد کا پاکستان“ بنا سکیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر