دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سادگی میں بڑائی ہے۔۔۔ گلزار احمد

دنداسہ یا مساگ دانتوں کا ٹوتھ پیسٹ بھی تھا اور لپسٹک بھی۔۔اب ھزاروں روپے بیوٹی پارلر کو دے کر دلھن کی اصل شکل گم کر دی جاتی ھے

آج آپ سورج کے طلوع ہونے کا نقشہ دیکھیں تو یہ نیوزی لینڈ سے ابھرنا شروع ہوتا ھے جاپان کو بھی سورج طلوع ہونے کی سر زمین کہا جاتا ھے وہاں سے ہوتا ہوا یہ لمحہ بہ لمحہ مشرق بعید کے ملکوں پہچتا ھے پھر ایشیا۔یورپ اور امریکہ۔ کینیڈا اور آخر میں Samoa کے جزیرے میں غروب ہو جاتا ھے۔

سورج کے طلوع ھونے سے 45 منٹ پہلے اس کے راستے میں آنے والے شھروں میں آذان فجر کی صدا گونجتی ھے۔۔ اَشھدو اؔن لا الہ الا اللہ ۔۔اَشھد اَن محَمدا رسول اللہ۔ یہ صدا ختم نہیں ہوتی کہ دوسرے شھر میں آذان کا وقت ہو جاتا ھے اور وہاں یہ صدا شروع ہو جاتی ھے ۔

یہ سلسلہ ہر لمحے اگلے شھروں میں جاری رھتا ھے اور پھر سورج غروب ھونے کے بعد واپس مشرق کی طرف سے طلوع ہونا شروع ہوتا ھے۔ آپ تصور کریں دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسا لمحہ نہیں گزرتا جب دنیا میں فجر کی آذان نہ ہو رہی ہو ۔اسی طرح ہر ظہر۔عصر۔مغرب ۔عشاء کی آذان ہر لمحے جاری رھتی ھے اور اللہ اور اس کے پیارے رسولؐ محؐمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کائنات میں گونجتا رہتا ھے۔

علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ھے کہ ۔۔یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند ۔۔ بہار ہو کے خزاں لا الہ الا اللہ ۔۔ یہ سب اللہ پاک کی نصرت سے اسلام کے طلوع ھونے سے شروع ہو گیا۔ ہم دیکھتے ہیں تاجدار حرم مؐحمد مصطفےؐ کی زندگی کتنی سادہ تھی۔ کئی کئی روز فاقہ بھی ہو جاتا ۔

بہت سادہ لباس پہنتے اور سادہ غذا استعمال کرتے۔ اسی طرح خلفاء راشدین کی زندگی تھی۔ ایک بڑی سلطنت کے حکمران ھونے کے باوجود رھن سھن ایک عام آدمی کی طرح رکھا ھوا تھا۔اور یہ انہی لوگوں کا کارنامہ ھے کہ اسلام مشرق سے مغرب تک پھیل گیا ۔

پھر مسلمان حکمرانوں میں عیاشیاں اور نمودو نمائش شروع ہوئی جس کے نتیجے میں ساری دنیا میں مسلمان رسوا ھو گئے۔ آج دنیا کے نقشے پر 58 اسلامی ممالک موجود ہیں مگر ان میں اتنی قوت نہیں کہ وہ مظلوم مسلمانوں پر ھونے والے ظلم و تشدد کو روک سکیں۔

اسکی بنیادی وجہ سادگی سے گریز اور جاہ وحشمت کی خاطر کرپشن اورناانصافی ھے۔ آج دنیا کے امیر ترین لوگوں کا رھن سھن بھت سادہ ھے اور پاکستان میں ہمارے حکمرانوں کی شہ خرچیاں ختم ھونے کا نام نہیں لے رھیں۔ اب ہم دنیا کے غیر مسلم امیر ترین لوگوں کا رھن سھن اور لائف سٹائل دیکھتے ہیں۔

بل گیٹس دنیا کا امیر ترین شخص ہے، دنیا میں صرف 18 ممالک ایسے ہیں جو دولت میں بل گیٹس سے امیر ہیں،
باقی 192 ممالک اس سے کہیں غریب ہیں،لیکن یہ شخص اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا ہے،وہ اپنے برتن تک خود دھوتا ہے.

اسکا دفتر مائیکروسافٹ کے کلرکوں سے بڑا نہیں! وارن بفٹ دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہے.اسکے پاس 50 برس پرانا اورچھوٹا گھر ہے،اسکے پاس 1980ءماڈل کی گاڑی ہے!
برطانیہ کے وزیراعظم کے پاس دو بیڈروم کا گھر ہے! جرمنی کی چانسلر کو سرکاری طور پر ایک بیڈ روم اور ایک چھوٹا سا ڈرائنگ روم ملا ھوا ہے۔

اسرائیل کا وزیراعظم دنیا کے سب سے چھوٹے گھر میں رہ رہا ہے اورکبھی کبھار اسکی بجلی تک کٹ جاتی ہے!
بل کلنٹن کو لیونسکی کیس کے دوران کورٹ فیس ادا کرنے کے لئے دوستوں سے ادھار لینا پڑا تھا!

وائیٹ ہاؤس کے صرف دو کمرے صدر کے استعمال میں ہیں،اوول آفس میں صرف چند کرسیوں کی گنجائش ہے!
۰جاپان کے وزیراعظم کو شام چاربجے کے بعد سرکاری گاڑی کی سہولت حاصل نہیں۔

وائٹ ہاوس صدر امریکہ کی رہائش گاہ تو ھے مگر اسے اپنے ذاتی اخراجات جیب سے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ امریکی سرکار ٹوتھ پیسٹ بھی خرید کے نہیں دیتی۔ چنانچہ یہ ممالک آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم دن رات پیچھے جا رہے ہیں۔ ہمارے قائد محمد علی جناح سرکاری میٹنگ میں سرکاری خرچے پر چاۓ کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے۔

ایک دفعہ انکی سرکاری رہائش کا چالیس روپے کا بل پیش کیا گیا تو انہوں تیرہ روپے سرکاری اخراجات کی اجاذت دی باقی جیب سے ادا کئے۔ گھر میں ڈبل روٹی آتی تھی تو بچ جاتی تھی انہوں نے ڈبل روٹی کا چھوٹا سانچہ بنوایا تاکہ روٹی کا زیاں نہ ھو۔ قائد ملت لیاقت علی خان جدی پُشتی نواب تھے اور انڈیا میں کروڑوں کی جائداد چھوڑ کر آۓ مگر یہاں کچھ کلیم نہیں کیا اور اپنا ذاتی گھر بھی نہیں تھا۔۔۔

سن ساٹھ کی دھائی میں پاکستان سات فیصد سالانہ ترقی کر رہا تھا اور دوسرے ملک رشک کی گاہ سے ہمیں دیکھتے تھے۔ہماری بیوروکریسی ایماندار تھی رشوت لینے والے کو معاشرے میں برا سمجھا جاتا تھا کوئی رشوت خور سے رشتہ کرنے پر تیار نہ ہوتا۔ اب ہمارا معاشرہ الٹ چال چل رہا ھے۔خود ڈیرہ میں ہمارے گھروں میں کئی روز گوشت نہیں پکتا تھا ۔

سبزیوں ۔انڈوں کا سالن بنا لیتے ۔ہمارے گھروں میں میک اپ کا سامان بالکل نہیں تھا ۔ عورتیں گلاب کے عرق میں لیموں کا رس ملا کر چہرے پر لگا لیتی اور چہرہ دمکنے لگتا۔شادی کے وقت بیوٹی پارلر نہیں تھا۔تیل۔ابٹن۔ مہندی۔موتیے کے پھول۔سادہ زیور دلھن کو سجا دیتے تھے۔

دنداسہ یا مساگ دانتوں کا ٹوتھ پیسٹ بھی تھا اور لپسٹک بھی۔۔اب ھزاروں روپے بیوٹی پارلر کو دے کر دلھن کی اصل شکل گم کر دی جاتی ھے اور صبح ایک نئی شکل دیکھ کر دلھا لڑائی پر اتر آتا ھے۔آۓ روز اخبار میں ایسے کیس رپورٹ ہوتے رھتے ۔ابھی کچھ دن پہلے بی بی سی کی رپورٹ دیکھی جس میں بتایا گیا کہ ٹیلکم پاوڈر بنانے والی امریکی کمپنی جانسن اینڈ جانسن کے ٹیلکم پاوڈر کے استعمال سے کینسر کا خطرہ ھے۔

ہم دولت خرچ کر کے بیماریاں مول لے رھے ہیں۔ اب بھی وقت ھے ہم اپنے نبی ؐ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر سادگی اختیار کریں اوراپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بنا لیں۔

About The Author