نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ: پاکستان کی نئی سمت کیا ہوگی؟۔۔۔جنید قیصر

سابق جنرل پرویز مشرف خود ببانگ دہل کہتے رہے کہ انہوں نے آئین توڑا۔ انہوں نے کئی ٹی وی انٹرویوز میں خود اس جرم کا اعتراف کیا


اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس  کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ جسٹس سیٹھ وقار نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر سنگین غداری کا جرم ثابت ہوتا ہے لہذا انہیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔تفصیلی فیصلے کے پیرا نمبر 66 میں جسٹس سیٹھ وقار نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پرویز مشرف کو گرفتار کرکے سزا پر عمل درآمد کی ہدایت کی اور لکھا کہ اگر وہ  انتقال کر جاتے ہیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک پر تین روز تک لٹکائی جائے۔ تاہم جسٹس شاہد کریم نے سزا سے اتفاق کیا لیکن انہوں نے فیصلے میں شامل پیراگراف 66 سے اختلاف کیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سنگین غداری کا ٹرائل ان لوگوں کے لیے آئین کی ضرورت ہے جو کسی بھی وجہ سے آئین کو کمزور کریں یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کریں، لہٰذا یہ عدالت استغاثہ کی جانب سے ملزم کے خلاف پیش کیے گئے ناقابل تردید، ناقابل تلافی اور ناقابل اعتراض ثبوتوں کو دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ واقعی ملزم نے جرم کیا ہے اور وہ مثالی سزا کا مستحق ہے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ ایک آمر صرف اس وقت تک اقتدار میں رہ سکتا ہے جب تک وہ اپنے عوام کی مرضی کو تہہ وبالا نہیں کرے، آئین کے ذریعے قائم کردہ حکومت اور ریاست کے دیگر اداروں کے فرائض پر قبضہ کرنا آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔

عدالتی فیصلے میں لکھا گیا کہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش (جیسا کہ انہیں کام کرنے سے روکنا/ یا ان سے اضافی آئینی حلف لینا) آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق یقیناً سزائے موت اور فیصلے کے اس حصے کی کہیں بھی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں لیکن کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے اور ملزم کو مجرم قرار دے کر ان کی غیرموجودگی میں سزائے موت سنائی گئی ہے، لہٰذا سزا پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ یہ ایک سخت فیصلہ ہے، تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ پرویز مشرف کو اپیل کےلیے گرفتاری دینا لازم ہوگئی اور عدالتی حکم کے بعد سرنڈر کیے بغیر مشرف اپیل نہیں کرسکتے۔

یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جس سے پاکستان میں آمریت کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جو کوئی طاقت کے نشے میں آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر اقتدار پر قبضہ کرے گا، وہ سنگین غداری کا مرتکب ہوگا، جس کے لئے عبرتناک سزا ہوگی۔
کسی بھی ریاست میں ہم آہنگی کی ضمانت آئین پسندی اور قانون کی حکمرانی ہے۔ اداروں میں فاصلے، معاشرتی تناؤ، اور افراد کی بیگانگی جیسے رحجانات اُس وقت دیکھنے کو ملتے ہیں جب آئین اور قانون پر عملداری کمزور ہوتی ہے۔ یہ رحجانات معاشرے و ریاست میں ہم آہنگی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں بنتے ہیں۔ جب سب کو انصاف کے ایک ترازو میں تولا نہیں جاتا تو پھر  معاشرے انتشاراور خلفشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی چونکہ میزان  سب کے لئے برابرنہیں رہا، اور اس کی ناانصافی کا نشانہ عوام کے نمائندے اور وزیراعظم بنے، جبکہ باقی ادارے جن کی نمائندہ حیثیت بھی نہیں تھی، اُن کی طاقت کے سامنے انصاف بے بسی کی تصویر بنا رہا۔ یہ پاکستان کا المیہ رہا ہے۔۔۔۔۔

ترقی یافتہ ممالک میں آئین کی حیثیت مقدس دستاویز کی ہے۔ جس میں سب افراد کو اداروں کو آئینی قانونی حدود  و قیود کے تابع اس طرح بااختیار بنایا گیا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر نہ ہو، لہزا نہ کوئی فرد ناگزیر دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی قانون سے بالاتر۔ فرانس کے صدر چارلس ڈیگال کا یہ تاریخی جملہ ’ناگزیر شخصیات سے قبرستان بھرے پڑے ہیں‘‘ اس بات کی گواہی ہے کہ جمہوریت اور جدید دنیا میں کوئی فرد ناگزیر نہیں۔ عوام کے پاس ہی حق حکمرانی ہے، اور وہ بطور امانت یہ حق منتخب نمائندوں کو دیتے اور پھر واپس لے لیتے ہیں۔ یہ حکومت اور عوام کا رشتہ ہے۔۔۔

جب عوام کا ریاست اور حکومت سے رشتہ کمزور پڑتا ہے، تو  بیگانگی کے جذبات مضبوط ہونے لگتے ہیں۔ آج عوام سے حکمرانی کا حق چھین کر سلیکیٹیڈ حکومت کو دے دیا گیا ہے۔ اُن کے ووٹ سے فراڈ ہوا ہے۔ شہری اور سیاسی حقوق اہم ہوتے ہیں۔ ووٹ کی طاقت سے ہی فرد شہری بنتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی انجئینرنگ اور پروپیگنڈہ مشینری کی مدد سے عوام کو گمراہی کی دلدل میں دھکیل کر اور انتخابی دھاندلی سے مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل کئے گئے ہیں۔ کبھی آئی جے آئی بنائی گئی اور کبھی تبدیلی کی سونامی سے پاکستان کے سیاست و معاشرت کو تباہ کیا گیا۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 6 بڑا واضع ہے، اس کے تحت آئین کو توڑنے کو ریاست سے ’سنگین بغاوت‘ کا جرم قرار دیا گیا ہے اس کی سزا پارلیمنٹ نے عمر قید یا موت تجویز کی ہے۔  آئین کے اس آرٹیکل کی 3 ضمنی دفعات ہیں:1۔ کوئی شخص جو طاقت کے استعمال سے یا دیگر غیر آئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ کرے یا تنسیخ کرنے کی سعی یا سازش کرے، تخریب کرے یا تخریب کرنے کی سعی یا سازش کرے سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔ 2۔ کوئی شخص جو شق ایک میں مذکورہ افعال میں مدد دے گا یا معاونت کرے گا،اسی طرح سنگین غداری کا مجرم ہوگا۔ 3۔ مجلس شوریٰ پارلیمنٹ بذریعہ قانون ایسے اشخاص کے لئے سزا مقرر کرے گی جنہیں سنگین غداری کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔

لہذا جوکوئی طاقت کے استعمال سے یا دیگر غیر آئینی زرائع کو استعمال میں لاتا ہے اور آئین کو تنسیخ کرکے خود طاقت کے بل بوتے پر حکمران بنتا ہے۔ اُس کو آئین غدار کہتا ہے۔ اور اس کے لئے سزا پارلیمنٹ نے عمر قید یا موت تجویز کی ہے۔ سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کا فیصلہ نہ صرف تاریخی ہے بلکہ اُن کے لئے پیغام بھی ہے جو آئین کو محض کاغز کا ٹکڑا اور خود کو قانون سے بالاتر تصور کرتے ہیں۔

سابق جنرل پرویز مشرف خود ببانگ دہل کہتے رہے کہ انہوں نے آئین توڑا۔ انہوں نے کئی ٹی وی انٹرویوز میں خود اس جرم کا اعتراف کیا۔

آئین کی تنسیغی ہو یا منظم سازش کے زریعے سلیکیٹیڈ حکومت کی سلیکیشن یہ کسی بھی فرد کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے، جس کے لئے وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے غیرآئینی جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ کسی ادارے کا نہیں بلکہ ایک فرد کا ذاتی عمل ہوتا ہے۔ جو اپنے ذاتی مفادات اور سیاسی عزائم کے لئے ادارے کو استعمال کرتا ہے۔ لہذا افراد اور ادارے کے فرق کو ملحوظِ خاطر رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔

فرد کو ادارے کے طور پر اور آئین و قانون سے بالاتر پیش کرنے کا فوری ردعمل کچھ یوں آیا ہے کہ خیبرپختونخوا بار کونسل نے سابق جنرل (ر)پرویز مشرف کوسزائے موت کے فیصلے پرڈی جی آئی ایس پی آراوروفاقی حکومت کے رویہ اورعدالتی فیصلے پرتنقید کی مذمت کر تے ہوئے آج صوبہ بھر میں عدالتوں کے احترام میں بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے، اس ضمن میں بارکونسل کیجانب سے جاری بیان میں بارکونسل کے وائس چیئرمین سعید خان اور حق نواز خان ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف نے آئین کے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کی اورغداری کے مرتکب ہوئے جس پر سپیشل کورٹ نے فیصلہ سنایا۔ تاہم عدالتی فیصلے پرپاک فوج کے ترجمان کے تاثرات آئین وقانون کی خلاف ورزی ہے جو سپریم جوڈیشری کے توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر آئی ایس پی آرکی کی نظر میں مشرف کیس سے متعلق فیصلے میں خامیاں ہیں تو اسکے لیے اپیل وغیرہ کا طریقہ کار موجود ہے اور اسکے خلاف متعلقہ فورم سے رجوع کیا جاسکتا ہے لیکن جس طرح عدالتی فیصلے کو تنقید کانشانہ بنایا گیا اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ملک میں تمام ادارے کسی ایک ادارے کے تابع ہیں اور دیگراداروں عدلیہ، پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں کا کوئی احترام نہیں۔

حتیٰ کہ نجی ٹی وی میں ایک پروگرام کے دوران وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ہم نے اس ملک میں وزیراعظم کو پھانسی چڑھتے دیکھا، وزیراعظموں کو نااہل ہوتے دیکھا، بے نظیر کو شہید ہوتے دیکھا اور اے پی ایس جیسا سانحہ بھی دیکھا لیکن معاشرے آگے بڑھتا رہا اور لوگوں نے برداشت کیا۔ ہم نے قانون کی حکمرانی کا مشکل سفر شروع کیا ہے تو اس فیصلے پر بھی معاشرے کو اتنا سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں، آگے بڑھیں آگے سپریم کورٹ کھڑی ہے۔ یہ ملک چند افراد کا نہیں، یہ سب کا ملک ہے اور سب کو مثالی بننا پڑے گا لیکن جب عدالتیں کسی کے خلاف فیصلہ کریں اس کو قبول کریں، ڈنڈا لے کر فیصلوں کےخلاف کھڑا ہونے سے معاشرہ نہیں چل سکتا۔

پیپلز پارٹی نے  پرویز مشرف کی سزائے موت کے فیصلہ کو تاریخی قرار دیا  ہے۔ لاہور پریس کلب میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کی سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ فوج کے خلاف نہیں۔ مشرف نے فوج کا وقار مجروح کیا، انہوں نے حلف کی خلاف ورزی کی۔ پیپلزپارٹی آئین اور قانون کے ساتھ کھڑی ہے۔  اس سے قبل انہوں نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے فیصلوں سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوتا ہے۔ پرویز مشرف سنگین غداری کیس سمیت شہید  بے نظیر بھٹو کے قتل بارہ مئی کو کراچی میں قتل عام سمیت اکبر بگٹی کے قتل میں بھی مطلوب ہیں۔ عدالتوں کو ان مقدمات میں بھی ان کا ٹرائل کرنا چاہیے۔

پاکستان کی نئی سمت وہ ہوگی، جس میں آئین پسندی، قانون کی حکمران، جمہوری اصولوں کی پاسداری، بنیادی انسانی حقوق کا احترام جیسے تصورات کو مشعل راہ بنایا جائے گا۔ جس میں افراد سے ذیادہ ادارے اہم ہوں گئے، اور دونوں کے کردار کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر اس طرح پیش نہیں کیا جائے گا کہ ایک فرد کا جرم ادارے کا جرم سمجھا جائے۔ افراد آتے ہیں، چلے جاتے ہیں، اداروں نے قائم رہنا ہوتا ہے، بلکہ آئین و قانون کے تابع آگے بڑھنا ہوتا ہے، پاکستان نے بھی آگے بڑھنا ہے، اور اداروں کی مدد سے اُن کے کردار سےآگے بڑھنا ہے۔۔ جس کے لئے نئی روایات کو جنم دینا ہوگا۔ جو جدید سیاسی، آئینی رحجانات ہیں ان کو اپنانا ہوگا۔ جمود اور ضد کا حاصل مزید انتشار ہوگا۔

About The Author