تاریخ کی ستم ظریفی اسی کوکہیں گے کہ گزشتہ72سالوں کے دوران سیاستدانوں، صحافیوں، عوامی شعرا، لکھاریوں، دانشوروں کو ’غدار‘ کے لقب سے نوازنے والوں کوجب اُسی عدلیہ نے غدارقراردیاجس نے ذوالفقارعلی بھٹو، کامریڈفاضل راہو، کامریڈنذیرعباسی،ایازسموں، ادریس طوطی اوررزاق جھرنا کوپھانسی کی سزاسنائی تھی، تو وہی لوگ آج سیخ پا نظرآرہے ہیں اوران کواس فیصلے میں ملک کیخلاف سازش ہوتی نظرآرہی ہے۔
دیکھا جائے توجمعرات ، ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا جب ریاست کے ایک ادارے نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ آئین توڑنے کے جرم میں سابق چیف آرمی سٹاف اورصدرجنرل(ر)پرویزمشرف غداری کا مرتکب ہواہے اوراس کوپھانسی پرلٹکایا جائے، حالانکہ پاکستان کے آئین میں پہلے سے یہ لکھا ہواہے کہ آئین توڑنے والا غدارتصورہوگا مگر اس کے باوجود(ماضی میں)فوجی جرنیلوں نے نہ صرف آئین کواپنے بوٹوں تلے روندابلکہ کہا کہ ”آئین ایک کاغذکا ٹکڑا ہے جب چاہوں اس کوپھاڑکرردی کی ٹوکری میں پھینک دوں“۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں آئینی حکومتیں بھی آئین کوبوٹوں تلے روندنے والے فوجی آمروں کوآئین وقانون کے مطابق سزائیں سنانے میں ناکام رہیں جس کی وجہ سے یہ تاثرمزیدپختہ ہوگیا کہ یہاں فوجی آمروں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ کیونکہ یہاں پرتو آئین اورقانون کواستعمال کرتے ہوئے صرف منتخب جمہوری حکمرانوں کوسزائیںدینے کی روایت رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج جب عدالت نے ایک سابق فوجی آمرکوپھانسی کی سزاسنائی تواس کوانہونی سمجھا جارہا ہے اورعدالت کے فیصلے کوملک کیلئے نقصان دہ قراردیاجارہاہے۔
اس کے برعکس ماضی میں منتخب وزرائے اعظم کوسزائیں سنائے جانے کے وقت مٹھائیاں تقسیم کی جاتی رہی ہیں اورعدالتی فیصلوں کوملکی استحکام کا ضامن قراردیا جاتا رہا، یہ کیونکرہوسکتا ہے کہ آئین وقانون کے تحت کسی منتخب وزیراعظم کیخلاف آنے والا عدالتی فیصلہ توملکی استحکام کا ضامن قرارپائے اوراسی آئین وقانون کے تحت ایک فوجی آمرکیخلاف عدالتی فیصلہ ملک کو غیرمستحکم اورکمزورکرنے کاسبب بنے!!
دیکھا جائے تو، اگرآئین اس ملک میں مقدس نہیں ہے توکچھ بھی مقدس نہیں رہتا، عوام اورقومیں ایک آئین کی بنیاد پرایک وفاق میں جڑی رہتے ہیں، جب ریاست کا سب سے طاقت ورطبقہ آئین کونہیں مانتا تونیچے بے چینی پھیلنے لگتی ہے اورعام لوگوں کاوفاق پر سے اعتماد اٹھ جاتاہے، اس کا مظاہرہ ہم 1971میں بھی دیکھ چکے ہیں جب ایک برترتاریخی سیاسی شعوررکھنے والی بنگالی قوم نے اس وفاق میں رہنے سے انکارکردیا تھا، لیکن طاقت کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہاہے کہ وہ دلیل کونہیں مانتی، طاقت صرف اپنے سے بڑی طاقت کو ہی مانتی ہے، لیکن یہ توجنگل کاقانون ہے ۔۔۔۔۔اورہم انسانی معاشرے میںرہتے ہیں،خودکوانسان کہلاتے ہیں۔اگراردگرد(دنیا میں) دوڑائی جائے توہمارے جیسے حالات سے دیگرملکوں اورخطوں کوبھی گزرنا پڑا ہے، لیکن کیا ضروری ہے کہ ہم بھی انہی المیوں سے گزریں جن سے مغربی اقوام کو گزرکرجمہوریت اورآئین پسندی کی اس منزل پرپہنچنا پڑاہے۔
حالانکہ ہمارے ہمسائے میں ایک ارب انسانوں اوردرجنوں قوموں کا ایک وفاق موجود ہے جبکہ ان کے طاقتورطبقوں نے دوعالمی جنگوں کے تجربے سے گزرنا ضروری نہیں سمجھا بلکہ انہوں نے مغربی اقوام کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے لیے آئین پسندی اورجمہوریت کوچُنا، نتیجے میں آج ان کا شمار باعزت جمہوری اقوام میں ہوتا ہے،
کیا ستم ظریفی ہے کہ طاقتورطبقے کے بیانیے کومان کرہم اس وفاق کوچلانے کیلئے مسلسل ڈالروں کی آکسیجن فراہم کرنے پرمجبورہیں، یہ ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ جب سے وفاق پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اس کوچلانے کیلئے اوسطاً 5 سے7 ارب ڈالرسالانہ غیرملکی قرضے کی ضرورت رہی ہے، ملکی ترقی اورمعاشی استحکام یہاں کے لوگوں کیلئے ایک ایسا سراب بن چکا ہے جوختم ہونے میں نہیں آرہا، جسطرح دھوپ میں دورسے چمکتی ہوئی ریت کو پانی سمجھنے والا آدمی آگے بڑھتا جاتا ہے توپانی بھی آگے ہی بڑھتا چلاجاتا ہے، بعینہ اسی طرح طاقتورطبقے کی جانب سے دی گئی خوشخبری پرآگے بڑھنے والاوفاق پاکستان آج تک معاشی استحکام کواپنے ہاتھوں میں پکڑنے میں ناکام رہا ہے،
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اورکتنا اس سراب کے پیچھے بھاگنا ہے اور خود کو ہلکان کرنا ہے؟؟
اگرایک عدالت نے آج آئین کی روح کے مطابق ایک فوجی آمرکوغدارقراردیکرآئین کی روح کوبحال کیا ہے تو ہم طاقتورطبقے کے بیانیے کے جادُو سے باہر کیوں نہیں نکل پارہے حالانکہ آج جولوگ اس فیصلے کیخلاف شوروغوغا کر رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو آمرپرویزمشرف کے ساتھ بڑے بڑے حکومتی عہدوں پرموجود تھے اورجن لوگوں نے آمریت کی گاجریں کھائی ہیں عدالتی فیصلے سے ان کے پیٹوں میں مروڑ اٹھنا قطعاً غیرمتوقع نہیں،
اسی طرح طاقتورطبقے(ادارے) سے بھی سوال بنتا ہے کہ آپ جو ایک آمر کو سزا دینے کے عدالتی فیصلے کونہیں مان رہے کیا آپ بھی (خدانخواستہ ماضی کی طرح) مستقبل میں آئین کو توڑنے کا رادہ تونہیں رکھتے اوراس خوف میں مبتلا تو نہیں کہ اگرفیصلے پرعملدرآمد ہوا تو آئین بالادست ہو جائے گا اورمستقبل میں آئین توڑنے والوں کو بھی اسی انجام سےدوچارہونا پڑے گا؟؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر