کچھ پرانی بلکہ بے حد پرانی یادیں اکثر مجھ سے ملنے آ جاتی ہیں، کیونکہ یادیں انسان کا سب سے قیمتی اور خوبصورت سرمایہ ہوتی ہیں۔ جینے کا سہارا۔ ان میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جتنی پرانی ہوتی ہیں اتنی ہی جگمگانے لگتی ہیں۔
پھر سنہری ہو ہو کے سونا سا بن جاتی ہیں۔ بے انتہا قیمتی۔ ہر انسان کے پاس یادوں کے قیمتی زیورات نوادرات کی طرح محفوظ ہوتے ہیں۔ اپنے انوکھے ہی ڈیزائین کے ساتھ،جب جب نکالیں دل کو طمانیت ملتی ہے۔ جتنی چاہیں نمائش لگا لیں چور کی چوری کا کوئی ڈر ہی نہیں۔ بچپن میں کسی رسالے یا اخبار میں پاپوش کے بارے میں پڑھا۔
جوتوں کا لکھنؤی سا با عزت نام بہت پسند آیا۔ ویسے پلنگ پوش، خوان پوش، سر پوش اور ٹرے پوش کتنے ہی پوش تو گھر میں مستعمل تھے اور بڑی عزت سے دھو دھلا کر بوقت ضرورت استعمال کئے جاتے تھے۔ لیکن یہ پاپوش میرے لیئے بالکل نیا تھا۔ بہرحال ہمارے یہاں پیر، پاؤں یا قدموں کا بہت احترام کیا جاتا ہے اس کا اندازہ اُن محاوروں سے ہوتا ہے جو پیر، پاؤں یا قدموں سے نسبت کے ساتھ ہماری زبان میں رائج ہیں۔
پیر دھو کر پینا، پیروں کی دھول، پاؤں اکھڑنا، پاؤں پڑنا، سر پر پاؤں رکھنا یا پاؤں پر سر رکھنا، قدم چومنا، قدموں کی برکت، دو قدموں کا فاصلہ وغیرہ وغیرہ۔ تو انہی پاؤں کے لیئے جوتا بھی لازمی ہے۔ پاؤں کے لیئے پہلا جوتا کس نے بنایااور اس جوتے کو پہن کر سب سے پہلے خراماں خراماں کون چلا؟۔
اس کے قدموں کے نشان تاریخ میں ملنا مشکل ہیں۔لیکن جتنی کہاوتیں، مثالیں اور محاورے جوتے کی شان میں کہے گئے ہیں۔ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ جوتے کا بنی نوع انسان کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جوتے کی ابتدا تو کسی نہ کسی شکل میں اسی وقت ہو گئی تھی جب بنی نوع انسان کے پاؤں پہلی دفعہ دھوپ کی حدت اور شدت میں جلے ہوں گے۔ لہٰذا انسان اور جوتے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ جس طرح انسان کی جہتیں تبدیل ہوتی گئیں اسی طرح جوتے کی ہیئت بھی بدلتی گئی۔
زندگی میں کوئی بھی کسی مقام پر اورکہیں بھی جوتے سے مفرنہیں ہے۔ بچپن میں والدین بچوں کی اصلاح کیلئے جوتوں کوبطورآلہ تادیب استعمال کرتے ہیں۔ کچھ بڑے ہونے پراساتذہ کرام جوتوں سے طلباء کامستقبل روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورجوانی اگرکچھ زیادہ منہ زور ہوئی تومحلہ اورپاس پڑوس والوں کے جوتوں سے اورلڑکی کے باپ اوربھائیوں اودیگر رشتہ داروں کے جوتوں سے نبرد آزما ہونا پڑتاہے۔ شادی کے بعد بیوی کی جوتیوں سے بھی کسی نہ کسی کا پیہم واسطہ پڑتاہے۔
اب کس کے نصیب میں جوتے کی مردانگی آتی ہے یاجوتی کی نسوانیت۔ یہ ہر ایک کے علیحدہ مقدر کی بات ہے۔ ویسے سادہ لوح عوام جس کی جوتیاں سر پر رکھتے ہیں وہی انہیں جوتیاں مار کر اپنی راہ لیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جوتے پاؤں میں ہی اچھے لگتے ہیں لیکن کچھ فیشن پرست خواتین اب جوتے سرپر بھی رکھنے سے گریز نہیں کررہی ہیں۔مطلب یہ کہ جوتے کی ڈیزائن کاکلپ وغیرہ۔ اس وقت کتنا عجیب لگتا ہے جب کوئی اپنے بچوں یا دوستوں کے ساتھ جوتوں کی دکان پر جائے اور جوتا فروش ہنس کر کہے“کیا کھائیں گے جناب“۔
دنیا والوں نے اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے کیلکولیٹر کی شکل میں کمپیوٹر کی دنیامیں قدم رکھا، اور ہم اپنے مسائل کے زریعے قدیم ترین ایجاد“جوتے“ کے جدید استعمال کے انداز ایجاد کرتے رہے۔ ہمارے بڑوں نے جوتے کو پاؤں میں پہننے کے لیئے بنایا تھا مگر ہم نے ترقی کرتے کرتے اسے سماجی حیثیت بھی دے دی اور جوتے کو پاؤں کے علاوہ زندگی کے انگنت شعبوں میں بھی استعمال کے قابل بنا دیا مثلاً جوتے چھپانا، جوتا چلانا، جوتے پڑنا، جوتے مارنا۔
اس میں خواتین کی برابری کا پورا پورا خیال رکھا گیا بلکہ ان کو کچھ زیادہ ہی حصہ مل گیا مثلاً جوتی کے برابر نہ سمجھنا، جوتی کی نوک پر رکھنا، جوتیاں گھسانا، جوتیاں چٹخانا، جوتیوں میں دال بٹنا، جوتیوں میں بیٹھنا، جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھسنا وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال ماضی میں رشتوں کے لیئے لڑکے والے جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے اور جب تک جوتا گِھس نہ جاتا، لڑکی والوں کی طرف سے“ہاں“ نہیں ہوتی تھی۔ اب تو رشتہ بعد میں ہوتا ہے، جوتے پہلے پسند کئے جاتے ہیں۔
جوتا اتارنے کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی جوتا پہننے کی اور مذید تاریخ بتاتی ہے کہ جوتوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا رواج بھی خواتین نے ہی شروع کیا تھا۔ لیکن آج کل جوتے مردوں کا بغیر لائسنس کے مشہور ہتھیار ہے۔ اسی وجہ سے تو حکمران اور اونچے طبقہ کے لوگ جوتوں کے خوف میں مبتلاء نظر آتے ہیں کہ کہیں سے کوئی لہراتا ہوا جوتا نہ آجائے۔ کیونکہ جوتا پرانا ہو یا نیا۔ اس کو پہننے یا اتارنے کے لیے پولیس یا ضلعی انتظامیہ سے اجازت نامہ لینے کی قید نہیں۔ بوقت ضرورت اس کے استعمال پر اضافی رقم بھی خرچ نہیں ہوتی۔جوتا مارنا کوئی قابل تعزیر جرم بھی نہیں۔ یہ توایک ایسا قابل اعتماد ساتھی ہے جو چوبیس گھنٹے آپ کے ساتھ رہتا ہے۔اور جب جب بھی یہ آپ کا ساتھ چھوڑ کراچانک کسی کے سرپرٹوٹتا ہے تو دلوں اور ذہنوں پر ایسا نقش کندہ کر جاتا ہے۔ جسے وقت کا مرہم بھی نہیں مٹا سکتا۔
عوام کے غیض و غضب اور انکے پرانے جوتوں سے محفوظ رہنے کے لیئے کسی بھی ملک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جوتے تو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جوتے صرف صرف سیاستدانوں کو ہی نہیں پڑ رہے بلکہ آج کل پوری قوم جوتے کھا رہی ہے۔ اور اس کی ذمہ دار بھی خود عوام ہی ہے۔ بہرحال ماں کے جوتوں کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کا جوتا برداشت نہیں کرتا۔ اس لئے جوتے وہی اچھے جو پاؤں میں پہنے یا پہنائے جائیں۔
ایسا ہرگز نہیں کہ جوتوں کا“استعمال“ ادب اور شاعری میں نہیں ہوا۔ عاشق جوتے کھانے کے لئے بدنام ہیں مگر شعرا نے جوتوں کو ادب میں داخل کر لیا۔ جوش نے کفش (جوتے) کو تعلی میں استعمال کیا۔ مولانا ظفر علی خان نے کانگریس کے لیئے اپنے شعروں میں جوتا استعمال کیا۔ اکبرالہ آبادی تو جوتوں سے شکوہ کرتے نظر آئے۔ منٹو اورآپا عصمت چغتائی کے درمیان جوتا نہیں چلا مگر جوتے خریدنے پر بحث ضرور ہوئی۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانے“موچی“ میں تو زری کا نازک جوتا ہی ہیرو ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کے ”رحمٰن کے جوتے“ کے ساتھ ساتھ انتظار حسین کو ہندوستان کے سفر میں ایک خاص وضع کے جوتے کی تلاش کرتے ہوئے بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ جوتے کا ادبی مقام اس قدر وسیع ہے کہ اس کے دوسری طرف کوئی سیاست دان آجائے تو جوتے کی توہین بھی ہوسکتی ہے۔ مگر حال ہی میں اس کا ایک اور مصرف سامنے آیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی! پوری کی پوری، جوتے کی نوک پر رکھی جا سکتی ہے! یہ بھی حقیقت ہے کہ اچھے بھلے لوگوں کی طرح کچھ ادباء بھی بُری صحبت میں رہ کر بگڑ جاتے ہیں، بالکل ایسے جیسے جوتا ٹیڑھے پاؤں میں پہنا جاتا رہے تو ٹیڑھا ہو جاتا ہے! اور تو اور سرائیکی وسیب کی دھی رانی گل بہار بانو نے ڈھولے کے جوتے پر ہی اپنی مدبھری آواز میں گانا گا دیا
“ جُتی تیڈی چیک مچیکاں، وچ طِلے دی تار وے“۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر