عزیز شاہد کی شاعری پڑھتے ہوئے قاری اپنے اندر ایک رومانوی منتر کی لہر محسوس کرنے لگتا ہے اور یہ رومانوی لہر ، لہر در لہر قاری کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ ان کی شاعری رومانس کے ملائم دبیز پردے میں انسان سے زندگی کی باتیں کرتی نظر آتی ہے ۔:
جیونڑ کہیں کاں دی کر کر نئیں
جیونڑ تاں رقص ہے موریں دا
عزیز شاہد کا محبوب کوئ رومانوی ابدی مسرت لگتا ہے جو کسی سانچے میں ڈھل نہیں سکتا لیکن اپنا اظہار روک بھی نہیں سکتا ۔ وہ ایک ایسی خوشبو ہے جو محسوس تو کی جا سکتی ہے لیکن پھول دیکھا نہیں جا سکتا :
او خشبو ہے تیں رنگیں وچ سما وی کیویں سگدی ہے
اوندی اندرو اسوری ہے لکا وی کیویں سگدی ہے
ان کی شاعری میں شعری حسیاتی لطافتیں کمال کو چھوتی نظر آتی ہیں ۔ انسان جو مسلسل ارتقاء سے گزر رہا ہے ،رنگ برنگی کائنات اس کے اندر مسلسل اشتیاق اور جستجو پیدا کرتی ہے ،بہت کچھ ہونے کے باوجود بھی آپ کے پاس کچھ نہیں ہوتا ۔ مطمئن ہونا زندگی لگتا ہی نہیں بلکہ مطمئن ہونا تو جمود کی نشانی ہے ، عزیز شاہد اسی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
کاسے وچ جہان سما گئے
کاسے وچ وت وی پیاسے
صدیوں کی حملہ آوری نے اس خطے کی نفسیات پر جو نفسیاتی غلامی کا خوف پیدا کیا ہے، وہ مقدس بتوں کے پاش پاش ہونے پر بھی برقرار ہے ۔ ہر گزرتا وقت ہمیں تازیانہ سا لگاتا ہے کہ غلام نسلیں غلام نسلیں ہی پیدا کرتی ہیں ،بظاہر ہم آزاد لیکن عزیز شاہد کہتے ہیں :
اساں اج وی اونویں سر سٹ ودے پوجا کریندوں
ڈٹھے پئے ہن توڑے بت سب اتانڑے بہوں پرانڑے
معاشرے میں انسانی اقدار معدوم ہوتی جا رہی ہیں ، بالکل اس طرح جس طرح عظیم مجسمہ ساز شاہد سجاد کہتے ہیں ۔” منظم معاشروں میں اقدار کا ڈھانچہ خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اقدار ہی کے تجزیے کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون سا معاشرہ ترقی یافتہ ہے، آج معاشی نقطہ نگاہ سے معاشروں کا جائزہ لیا جاتا ہے، حالانکہ میرے نزدیک اس کا انسان اور انسانیت سے کوئ تعلق نہیں ۔،،
عزیز شاہد بھی اس معاشی نقطہ نگاہ کو زہر قاتل سمجھتے ہیں ، معاش کا یہ پہلو ان کو دکھی کرتا ہے ۔ دہشت ،وحشت ، لوٹ مار ، خوف ان کو پریشان کر دیتا ہے ،وہ انسانی اقدار کی پامالی پر نوحہ کناں ہیں اور اس درد کو دور کرنے کیلئے کیا کرتے ہیں؟ ذرا شاعرانہ تجلی دیکھئے :
ماء من موہنی ماء
ول ہک واری سکدیں لوہندیں
اپنڑی جھولی پا
ماء من موہنی ماء
کوئ اسمانوں لاہندی لے وچ
لولی وینڑ سنڑا
ماء من موہنی ماء
اندر نیلے تھیندے ویندن
گھٹی گھول پلا
ماء من موہنی ماء
سر تیں ہاڑ ہجر دا کھڑ گئے
بکل ہیٹھ لکا
ماء من موہنی ماء
یہ سچ کہ دوسرے کسی انسان کو دریافت کرنا مشکل کام ہے لیکن اس سے زیادہ مشکل کام تو خود کو دریافت کرنا ہے۔ عزیز شاہد کہتے ہیں :
ایویں تاں او نئیں ملدا
پل دے پرونڑ وچوں
چھنڑ چھنڑ کے اپنڑے کولوں
ول ول نکھنڑاں پوندے
ایویں نئیں وسوں تھیندی
بس آپ جھوک بنڑ کے
ول ول اجڑنا پوندے
انہوں نے تبرک کے طور پر کافی بھی لکھی اور خود کو صوفی ازم کی روایت سے نتھی کرتے ہوئے کہتے ہیں :
اساں شاہد جو کجھ آکھنڑاں ہا کوئ اساں توں پہلے آکھ گیا
کتھ مہر علی کتھ تیری ثناء گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
تہذیب کا معنی درختوں کی تراش خراش بھی لئے جاتے ہیں تاکہ تراش خراش کے بعد نئی نئی کونپلیں نکلیں اور بوسیدگی دور ہو یا جمود ٹوٹے ، عزیز شاہد اسی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
ڈیکھ تاں ونج جو لائ دے بور کمانڑے تھی گئے
آ ہک بئے کوں چھمکاں ماروں منڑ دریا تیں
پیار و محبت کے لطیف جذبے اور قصے بھلا کون ہے جو اس سے نہ گزرتا ہو لیکن عزیز شاہد جب اس رمز کو شاعرانہ پیرائے میں بیان کرتے ہیں تو بدن میں رومانس کی جھرجھری کی لہر سی دوڑ جاتی ہے :
ڈو پکھڑو بیٹھے ہن ہک ساوی شاخ اتیں
ڈٹھا ہک ڈوجھے کوں پیار کنوں کوئ یاد آ گئے
ان کی شاعری میں لفظ "چاندنی ” سب سے ذیادہ استعمال ہوا ہے ۔ کیا لفظ "چاندنی ،، خود رومانس کی دلیل نہیں ؟ان کی ایک نظم ” ہک چانڈنڑی منڑ دریا تیں ،، دیکھئے اپنی مثال آپ ہے:
دریانویں شام پئ لہندی ہے
صحرانویں چندر ابھردا پئے
نمراش نمانڑے نیناں وچ
نندرایا نور وگھردا پئے
رنگیں دے روپ تماشے ہن
یا صحیح سچ شیشہ تردا پئے
شیشے وچ کون سنوردا پئے
اڑی ڈیکھاں کون گزردا پئے
عزیز شاہد کی شاعری میں قاری رومانوی امنگ اور حوصلہ پاتا ہے ، مٹھاس پاتا ہے ، رومانوی منتر کے یہ چراغ انسان کے” بہشتی ہیولا،، ہونے کا پتہ دیتے ہیں ۔ انہوں نے رومانس کے منتروں میں امید کے دئیے جلائے ہیں اگرچہ رومانوی مونجھ کے گہرے سائے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر