مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مشرف پھانسی فیصلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انڈیا میں طبقاتی یکجہتی ۔۔۔ رؤف لُنڈ

بد قسمتی سے اس وقت پاکستان اور انڈیا میں ایسی سوچ اور تبدیلی کے حامل حکمران اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔

مشرف پھانسی فیصلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انڈیا میں طبقاتی یکجہتی
( واقعات کو گڈ مڈ کرنیکا جرم قبول نہیں )

ابھی چند دن پہلے کی بات ھے کہ ہماری ہمسائیگی میں دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ جمہوریت اور غربت کے حامل انڈیا میں حکمران نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی نے اپنی پارلیمانی اکثریت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ایک امتیازی قانون پاس کرایا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طبقاتی نظام میں رائج انتخابات میں لوگ اپنے پچھلے/سابقہ نمائیندے کی نفرت میں (لاشعوری طور پر) نئے نمائندے منتخب کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ جس کو ووٹ دے رھے ہیں اس کی خباثت کا شجرہ نسب بھی اسی سابقہ نمائیندہ سے ھی جا کے ملتا ھے۔ کیونکہ اس نظام میں سب سرمایہ/پیسے کو ھی اپنا باپ سمجھتے ہیں۔ عام طبقے کی اس لا شعوری تبدیلی کو نیا منتخب ہونیوالا نمائیندہ یا حکمران اپنی طاقت اور ذاتی مقبولیت سمجھتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ ایسا نمائیندہ یا حکمران جیت کے بعد کے کچھ دنوں کی مبارکبادی اور ہٹو بچو کے بعد نظامِ سرمایہ کی دلالی و گماشتگی میں عوام دشمنی کی سب حدیں پار کر جاتا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بد قسمتی سے اس وقت پاکستان اور انڈیا میں ایسی سوچ اور تبدیلی کے حامل حکمران اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔ سو کوئی فرد ہو، ادارہ ہو اور ملک ہو یا حکومت یہ ممکن ہی نہیں کہ بیک وقت دو متضاد مفادات کے حامل طبقات کے خیر خواہ ہو سکیں۔
ایسے میں حکمران اپنی منافقانہ خیر خواھی کا بھرم رکھنے کیلئے آئے دن نان ایشوز کو ابھارتے اور پروان چڑہاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔

انڈیا میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف حالیہ امتیازی قانون سازی اسی خبیثانہ اندازِ حکمرانی کا شاخسانہ ھے۔۔۔۔۔ مگر دوسری طرف ابراہام لنکن کے بقول تھوڑے وقت کیلئے زیادہ، زیادہ وقت کیلئے تھوڑے لوگوں کو بیوقوف بنایا جا سکتا ھے۔ لیکن ہر وقت ہر کسی کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔۔۔۔۔ نریندر مودی اور اس کی جماعت کی بنیادیں چونکہ مذہبی منافرت پر استوار ہیں۔ لہذا اس امتیازی قانون کو بناتے وقت مودی اور حکمران پارٹی کا خیال تھا کہ وہ جو بھی چاہیں گے کر لینگے۔۔۔۔۔۔

مگر اب کی بار انڈیا کے محنت کشوں نے مودی کے اس جرم کو جوتے کی نوک پہ رکھا۔ انڈین مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ حکومت نے تشدد کا روائتی راستہ اپنایا۔ مگر احتجاج بڑھتا گیا۔ غریب مسلمانوں کے بڑھتے احتجاج اور ان پر ہونے والے مظالم کو بڑھتا دیکھ کر انڈیا کے عام اور غریب لوگ تمام مذہبی ، ثقافتی، قومیتی، لسانی، علاقائی اور نسلی امتیاز ، تفریق اور نفرت کو جھٹک کر طبقاتی یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے غریب، بے کس و بے بس، عام اور محنت کش مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوگئے۔ اس یکجہتی کا سب سے بڑا اور متاثر کن اظہار اسلامیہ یونیورسٹی کے طلباء و طالبات پر یونیورسٹی اور ہاسٹلز کے اندر پولیس کے بدترین تشدد پر سامنے آیا۔ دھلی سمیت انڈیا کے بہت سے بڑے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ انڈیا کے نوجوان ہر تفریق اور تقسیم بھلا کر حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔۔۔۔ انڈیا کے ان نوجوانوں کا طبقاتی درد سمجھنا ہو تو قانون کی طالب علم ایک انڈین لڑکی کا وہ انٹرویو سنیں جب وہ اپنی آنکھوں سے آنسوؤں کی لگا تار برستی جھڑی کیساتھ روتے ہوئے کہتی ھے کہ ۔۔۔۔۔
” میں تو مسلمان بھی نہیں، مَیں تو ہندو ہوں۔ لیکن وہ میرے دوست ہیں۔ میرے سامنے میرے دوست مرگئے ہیں۔ میں نے کیا کرنا ھے اس پڑہائی کا؟ اس قانون کا؟ کیا ہم اس لئے پڑھ رھے ہیں کہ ہمارے دوست ہمارے سامنے مرتے رہیں اور ھم چپ چاپ دیکھتے رہیں؟ اب نہیں ہوگا ایسا۔ ہمارے کسی بھی ساتھی کیساتھ ظلم ہوا تو ھم اس کیساتھ کھڑے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

انڈین نوجوانوں کی طبقاتی یکجہتی کے یہ مظاہرے میڈیا اور سوشل میڈیا پر نشر ہوکر پاکستان کی نو جوان نسل کو بھی متاثر کر رھے تھے۔ پاکستان کے نوجوانوں نے ایسے مظاہروں سے کارل مارکس کے اس نعرے کو سمجھنا شروع کردیا تھا کہ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ۔۔ پاکستان کی نو جوان نسل کے ذہنوں سے حکمران بالادست طبقے کی طرف سے رنگ، نسل ذات پات ، مذہب و مسلک وغیرہ جیسے تعصب و تفریق کے پھیلائے بادل چھٹ رھے تھے کہ اب ان کو حسبِ روایت جنرل مشرف کی پھانسی کے فیصلے کا نان ایشو ابھارنے کا موقع میسر آ گیا ھے۔۔۔ اور یہاں پر پھیلی بھوک ،ننگ ،ذلت و رسوائی، بیماری و بیروزگاری اور نا خواندگی و بد امنی سے توجہ ہٹا کر اب ٹی وی ٹاکس پر بیہودہ دانش کے بدبودار تجزئیوں سے انہی نوجوانوں کے ذہنوں کو پھر سے متعفن کرنے کی حسبِ دستور گھٹیا حرکت شروع کردی جائیگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر بات پھر وھی ابراہام لنکن والی کہ ہر وقت ہر کسی کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ پاکستانی نو جوان طبقاتی یکجہتی کے زیور سے آراستہ ہونے لگے ہیں تو اب ہر جگہ یہی نعرے گونجیں گے۔۔

مذہبی جنگ نہ ذاتی جنگ ۔۔۔۔۔۔ طبقاتی جنگ طبقاتی جنگ
قومی جنگ نہ ذاتی جنگ ۔۔۔۔۔۔۔طبقاتی جنگ طبقاتی جنگ
مارکس ! تیرا مشن ادھورا ۔۔۔۔ ھم سب مل کے کرینگے پورا
انقلاب انقلاب ۔۔۔۔۔۔ سوشلسٹ انقلاب

%d bloggers like this: