ہمارے آج کے ٹاپک میں جن دو باتوں پر ڈسکس ہے، وہ اس وقت کے اہم اور برننگ ایشوز ہیں۔ اس سے پہلے میں پی آئی سی میں وکلاء اور ڈاکٹرز کے مابین انتہائی سیریئس اور ناخوشگوار تصادم پر اپنے یوٹیوب چینل Mansha Fareedi Official پر دو ویڈیو بلاگز پیش کر چکا ہوں۔ دوسرا موضوع ایکس پی ایم نواز شریف کی بیماری، علاج اور آصف زرداری کی بیماری سے متعلق بحث ہے جس پر میں اپنی سوچ کے مطابق بات کروں گا اور ساتھ ہی وزیراعظم عمران خان پر تبصرہ بھی ہوگا جس میں عزت مآب عمران خان کی کامیابی اور ناکامی مختصراً زیر بحث ہوگی۔
اِس وقت ہمارے غیرتربیت میڈیا پرسنز یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ نواز شریف بیمار نہیں ہیں اور لندن میں میاں صاحب بغیر کسی سہارے کے چل پھر رہے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرات میاں صاحب سے متعلق شاید خطرناک خواہش رکھتے ہیں اِن کی اذیت پسندی نواز شریف کو پھانسی پر لٹکتا دیکھنا چاہتی ہے یا جیل میں اُن کی موت دیکھنا چاہتے ہیں۔
جب میاں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز علیل تھیں اور تشویشناک حالت میں زیر علاج تھیں اُس وقت بھی ہمارے بونے، پِستہ اور کرائے کے مخصوص لوگ جن کی ذمہ داری معاشرے کو مس گائیڈ کرنا ہے شاید، دنیا کو باخبر یعنی بے خبر کرنے میں مگن رہے کہ کلثوم نواز صاحبہ بیمار نہیں ہیں میاں صاحب اپنے خلاف درج مقدمات سے بچنے کیلیے ڈرامہ رچا رہے ہیں۔
جب کلثوم نواز صاحبہ کا انتقال ہوا تو یہ لوگ بجائے اعلانیہ پچھتاوے کے یقیناً اپنے اندر نادم ہوئے ہوں گے۔ ماضی میں بھی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اِن جیسے چَبَل اور نادیدہ باکے مُشیروں کی خواہش پر پھانسی دے دی گئی تھی۔
اُس وقت ہمارے اِس نوع کے باکے اور بکواسیے بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر بظاہر ماتم کناں نظر آئے۔ میں یہ سوچتاہوں کہ ایسے لوگ کیا سکون کی زندگی بسر کر رہے ہوں گے جو اپنے مفادات کیلیے دوسروں کو نہایت ہی اذیت میں مبتلاء کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ کیا ایسے مفاد پرست اور منافق عناصر کو سکونِ قلب میّسر ہوتا ہوگا؟
ایسا منافق طبقہ ناصرف موجودہ حکومتی سیٹ اپ میں ہے بلکہ شدت پسندی کو پروموٹ کرنے والے ضیاء الحق بعد میں پرویز مشرف، پرویز مشرف کی پروردہ "ق”لیگ، پی پی پی اور "ن”لیگ کے ادوار میں بھی موجود تھے جو اپنے اپنے وقت کے فراعین کی مدح سرائی میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ حکومتیں اگر ایسے ڈومیسٹک راکھے اور باکے پالتی رہِیں تو میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان ترقی کرے گا۔
اِس وقت کے ہمارے وزیراعظم عمران خان کیلئے میرا مشورہ یہی ہے اگر جناب ناراض نہ ہوں، سُنا ہے خان صاحب! آپ زُود رنج بھی ہیں، بھاڑے کے باکے رکھنے کی بجائے ریاست اور ریاست کے عوام کی ترقی کیلیے خالصتاً اور سوفیصدی اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھیں ورنہ آپ حسبِ حال ناکام ہی رہیں گے، جس طرح ہمارے سابقہ حکمران ناکام اور رُسوا ہوئے۔ سابق صدر پاکستان آصف زرداری بھی علیل ہیں اُن کو بھی ریلیف کی ضرورت ہے!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر