اللہ تعالیٰ کی ربویت یوں تو کائنات کی ہر شئے سے عیاں ہے لیکن خوش رنگ و خوشنما پھول قدرت کی صناعی کا بہترین مظہر ہیں جو خوبصورتی ،دلکشی،اور وابستگی کا باعث بنتی ہیں، قدرت نے پھولوں میں نہ صرف خوبصورتی بلکہ خوشبو پیدا کی جو دل ودماغ کو معطر کر دیتی ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔رنگوں کی بہاریں بکھیرتے اور خوشبو لْٹاتے پھول اس کائنات کا اصل حسن ہیں جو زمین کا زیور ہی نہیں بلکہ گھروں کی شان،محفلوں کی خوبصورتی کی علامت بھی ہیں۔رنگوں میں جادو ہے اور پھولوں کی رنگینی انسانی کی عادات ،مزاج اور شخصیت پر خاصی حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔
انسان کے حساس ترین جذبات کی ترجمانی کرنے والی فطرت کی بہترین سوغات بھی یہی پھول ہیں۔ پھولوں سے زیادہ کوئی بھی چیز انسان کے حساس جذبات کی عکاسی نہیں کر سکتی۔ انسان کو جب خوشی میسر آتی ہے تو انسان اس کا اظہار پھولوں کی مدد سے کرتا ہے، وہ خود پھولوں کے ہار پہنتا ہے یا دوسرے لوگ اسے ان ہاروں سے مزین کر دیتے ہیں۔ اسی طرح غم کے شدید جذبات کا اظہار بھی پھولوں کے حصے میں آتا ہے۔ کسی پیارے کی تربت پر پھول بکھیرنا انسان کے جذبات کی عکاسی ہے۔ پھول خوبصورتی اور محبت کا استعارہ ہیں۔
ہم جیسے ماضی پرست لوگ نا بچپن سے انگلی چھڑا پاتے ہیں اور نا خود لڑکپن کا دامن چھوڑتے ہیں، لیکن حال ایسا بے رحم اور مستقبل ایسا دلنشین ہے کہ مت پوچھیں ۔ کوئی بھی بات ہو ماضی کو ضرور یاد کرتے ہیں۔ ماضی بھی پھولوں کی طرح ہی اپنی خوشبو کے حصار میں جکڑ لیتا ہے۔ گلی لوہاراں والی کے سامنے سٹی تھانے کی گلی کے نکڑ پر شام کے وقت لوگوں کی ایک بھیڑ ہوتی تھی جو کہ پھولوں کے ہار وغیرہ خریدنے میں مصروف ہوتی تھی، تب پانچ یا چھ بندے ہی ہار بیچنے والے ہوتے تھے، آج کل تو اسی گلی میں باقاعدہ دکانیں بھی بن گئی ہیں۔ وہ لوگوں کی بھیڑ اس وجہ سے ہوتی تھی کہ لوگ شام کے وقت اپنے دوستوں یاروں کے ساتھ دریا کنارے، حقنواز پارک یا توپانوالے دروازے پر سیر سپاٹے کے لیئے جوق در جوق جاتے اور واپسی پر لازمی طور پر ہار اور پھول خریدتے اور یہی پھول اور ہار گھر میں کسی دروازے کی کھونٹی یا پانی کے گھڑے پہ چڑھا دیتے اور پورا گھر ان پھولوں کی خوشبو سے معطر ہو جاتا ، جب گھڑے کا پانی پیتے تو اس میں بھی ان پھولوں کی خوشبو پانی کی مٹھاس میں اضافہ کرتی۔ کچھ مرد باقاعدہ طور پر گھر کی خواتین کے لیئے پھولوں کے گجرے اور ہار لاتے۔ جب کے دن کے وقت آس پاس کی خواتین ٹوکریوں میں پھولوں کے ہار گھر گھر جا کر خواتین کو بیچتیں اور خواتین بڑے زوق و شوق سے پھولوں کے ہار اور ان سے بنے گجرے اور اور دوسری اشیاء خریدتیں۔
یہ ایک حقیقت ہے جمالیاتی حس رکھنے والے افراد پھولوں کے دلدادہ ہوتے ہیں‘ بالخصوص خواتین پھولوں سے کچھ زیادہ ہی لگاﺅ رکھتی ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ خواتین نے سب سے پہلے پھولوں کو ہی اپنی آرائش و زیبائش کا ذریعہ بنایا ہو گا۔ بہرحال یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی پھولوں کے زیورات بناﺅ سنگھار کا ایک حصہ رہے ہیں۔ آج بھی پولوں کے ہار‘ گجرے‘ جھمکے‘ کنگن خواتین میں بے حد مقبول ہیں۔ پھولوں سے محبت کا یہ عالم تھا جب یہ ہار اور گجرے وغیرہ سوکھ جاتے تو ان کو ایک ٹوکری یا تھیلے میں خصوصی طور پر اکٹھا کیا جاتا کہ کہیں اس پھول کی خشک پتیاں پیروں تلے نہ آئیں ۔ جب اچھی خاصی تعداد میں یہ مرجھائے اور سوکھے ہار اکٹھے ہو جاتے تو کسی مرد کے حوالے کرتے کہ جا کر ان کو دریا میں بہا دو۔ ماضی میں لوگ پھولوں سے ایسی محبت کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پھولوں سے محبت کرنے والے ہمیشہ جوان اور شفاف جذبوں کے امین ہوتے ہیں۔پھول فطری حسن کے عکاس ہوتے ہیں اور انسانی دل و دماغ کو تر و تازہ و شاداب کرتے ہیں۔
پھول صرف دیکھنے میں ہی خوبصورت نہیں ہوتے بلکہ انہیں کھایا بھی جا سکتا ہے۔ ماضی میں روایتی کھانے پکانے کے لیے کئی قسم کے پھولوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ان پھولوں کی پتیاں اور پنکھڑیاں میٹھے کھانوں اور مختلف اقسام کی چائے کو اپنے اپنے مخصوص ذائقے فراہم کرتیں۔آج کل تو تیار اور پیک شدہ مصالحوں کا دور ہے اب کھانوں میں نہ وہ زائقہ رہا اور نہ وہ خوشبو۔ پھولوں کے رنگوں سے سارا جہاں رنگین اور ان کی خوشبو سے ماحول مہکتا ہے۔قدرت کا یہ حسین تحفہ ایک اور حوالے سے بھی نہایت مفید ہے اور وہ یہ ہے کہ پھولوں سے مختلف امراض کا علاج بھی ممکن ہے۔
بچے پھولوں کی طرح معصوم اور حسین ہوتے ہیں اسی لئے معاشرے میں انہیں پھول کہا جاتا ہے۔
جہاں کسی کا معصوم چہرہ دیکھا فوراً لبوں پر یہ جملہ آگیا ”کتنا حسین پھول سا چہرہ ہے” پھولوں کی صرف شکل ہی حسین نہیں ہوتی بلکہ ان کے رنگ بھی دلکش اور جاذب نظر ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے انہی رنگوں سے ہماری زندگی کو بھی رنگین بنایا ہوا ہے، کوشش کریں کہ کہ گھر کے مسکراتے پھولوں اور چمن میں کھلتے پھولوں کی حفاظت کریں تاکہ وہ ہمیشہ اپنی خوشبوئیں بکھیرتے رہیں اور ہم ان دونوں پھولوں کی خوشبوؤں سے معطر ہوتے رہیں۔
ہم نے کانٹوں کو بھی نرمی سے چھوا ہے اکثر
لوگ بے درد ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر