سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے سابق آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم سنادیا ہے۔
آرٹیکل 6کے تحت سابق آمر پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔
دو ایک کے تناسب سے سنائے گئے عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف سنگین غداری کے مرتکب قرار پائے۔
خصوصی عدالت کے دوججز نے مشرف کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا جبکہ ایک جج نے اختلاف کیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا،
خصوصی عدالت 20 نومبر 2013 کو قائم کی گئی تھی
31 مارچ 2014 کو عدالت نے مشرف پر فرد جرم عائد کی
خصوصی عدالت نے 19 جون، 2016 کو مشرف کو مفرور قرار دیا۔
واضح رہے کہ خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نو ہوئی۔
قبل ازیں حکومتی وکیل علی ضیاء باجوہ نے سنگین غداری کیس میں شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی تحریری استدعا کی جس کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
حکومتی وکیل نے مؤقف اپنایا کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں، تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈوز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔ عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی نئی درخواست نہیں آ سکتی۔
خصوصی عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو درخواست باضابطہ دائر ہی نہیں ہوئی اس پر دلائل نہیں سنیں گے، استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں، کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟ ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں۔
خصوصی عدالت کے جج نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ جنہیں ملزم بنانا چاہتے ہیں انکے خلاف کیا شواہد ہیں؟ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ اب گزر چکا ہے۔
خصوصی بینچ کے رکن نے حکومتی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں، ہم آپ کی درخواست مسترد کر رہے ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس وقار احمد سیٹھ نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ آپ مرکزی کیس پر دلائل دینا چاھتے ہیں یا نہیں۔
حکومتی وکیل علی ضیاء باجوہ نے جواب دیا کہ میں دلائل نہیں دینا چاہتا کیوں کہ تیاری نہیں ہے۔ میری اور بھی درخواستیں ہیں وہ تو سنیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے سے متعلق بھی درخواست ہے۔
جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ ہمارے سامنے صرف سپریم کورٹ کا حکم ہے اس کے تحت کارروائی چلانی ہیں۔
پرویزمشرف کے وکیل سلمان صفدر خصوصی عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نہ استغاثہ کو سن رہے ہیں اورنہ دفاع کو سن رہے ہیں تو کیس کو کیسے چلائیں گے۔
جسٹس وقاراحمد سیٹھ نے ریمارکس دیے کہ ہم عدالتی مفرور کے وکیل کو عدالت میں بولنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
پی ٹی آئی فارورڈ بلاک کے حاجی گلبر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان منتخب